کیا بلاول کی ماں غلط تھیں؟/ٹیپو بغلانی

کل پہلی بار بلاول بولا، خود بولا اور اونچی آواز میں بولا، اسی لیے تو سب کے ساتھ ساتھ میں نے بھی اسے سن لیا۔

پوچھا گیا کہ کیا اس بار وہ حکومت بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
جواب ملا “نہیں میں نہیں بنا سکتا کیونکہ میں اس الیکشن میں تیسرے نمبر پر ہوں”۔

پوچھا گیا “پھر کون بنائے؟”
جواب ملا ” وہ بنائے جسے عوام نے ووٹ کیا، آئینی طور پر یہ اس کا حق ہے جو سب سے زیادہ ووٹس لے۔”

بلاول نے ایک ہی سانس میں، دو جملوں میں بلا ہچکچاہٹ الیکشن پر اپنا مؤقف پیش کیا۔
اپنا مؤقف؟
جی بالکل، بلاول نے ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے کہ وہ اکثریت کی حاملہ جماعت کے ساتھ رابطہ میں رہنا چاہتے ہیں،لیکن اس کا حتمی فیصلہ پی پی پی کی کور کمیٹی کرے گی، بات ان کے سامنے رکھی جا رہی ہے۔

کور کمیٹی ایک ظاہری اور زبانی اصطلاح ہے جو مستعمل ہے لیکن پاکستان میں سیاسی پارٹیاں فردِ واحد خود چلاتا ہے.مشاورت کا لفظ صرف اور صرف مزید مہلت لینے کے لیے،انکار کرنے کے لیے
یا ثواب کی نیت سے بول دیا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی میں زرداری کے سوا کون ہے دوسرا،لہذا اب جب یہ بلاول کل کے بیان کے بعد بطور “دوسرا” سامنے آیا ہے تو پھر دونوں کی نفسیات پر کچھ بات کر، سن لیتے ہیں۔

بلاول یورپ میں رہا، وہیں پلا بڑھا۔زرداری سندھ میں رہا اور دیہات میں پلا بڑھا۔

بلاول یورپ کی حقیقی جمہوری اقدار کو نہایت قریب سے دیکھ چکا ہے بلکہ وہ اس تہذیب کا حصہ رہا ہے۔یورپی جمہوری تہذیب بلاول کی پرورش اور لاشعور میں بھر رکھی ہے۔

زرداری یہاں سندھ کے مستقل اور قدیم جاگیردارانہ نظام کا حصہ اور محافظ رہا ہے، جمہوریت تو پاکستان میں کبھی آئی نہیں، اس لیے اگرزرداری نے نہیں دیکھی تو آپ اور میں نے بھی نہیں دیکھی
(سوائے ان کے جو ملک سے باہر یوروپ امریکہ یا آسٹریلیا میں رہ رہے ہیں)

بلاول اور زرداری بالکل مختلف سوچتے ہیں، مختلف بھی نہیں بلکہ متضاد فلسفہ رکھتے ہیں،بھٹو کو فوج نے پھانسی دی تو بے نظیر اپنے والد کے قتل کا حساب لینے کے لیے گھر سے باہر نکلیں۔بے نظیر کے لیے یہ سب یکدم تھا، وہ فوج کے رو برو کھڑی تھی۔

کھڑے رہنا سے کیا ہو جاتا ہے،
بہت سے لوگ فوج کی سیاست میں مداخلت پر باہر نکلے،ڈٹ کر کھڑے رہے لیکن وہ ٹک نہ سکے کیونکہ عوام نہیں تھی ان کے ساتھ۔بے نظیر اسی لیے مضبوطی سے جم کر کھڑی رہی کیونکہ عوام اس کے ساتھ نکل کھڑی ہوئی۔

کچھ ہی سال پہلے بنگال کی عوام اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اور مجیب الرحمان کے ساتھ نکلی اور کھڑی ہو گئی۔

بنگال کے الگ ہونے کے بعد اب یہ کچھ ہی وقفہ کے بعد پاکستان کی عوام جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے لیکن یہ خیال تب غلط ثابت ہوا، جب یہاں بھی عوام ان کے خلاف اور بے نظیر کے ساتھ نکل کھڑی ہوئی۔

دونوں خطوں کی عوام کو جمع کریں تو یہ نتیجہ نکلا کہ فوج کے ساتھ کسی بھی حصے کی عوام کبھی نہیں کھڑی تھی۔

بے نظیر کا جمہوری سفر سیدھے اپنی منزل کی طرف تیزی سے رواں دواں رہا، اتفاق دیکھیے،مجیب الرحمان کے بعد وہ اس راستے کی دوسری مسافر تھی۔

بلاول اسی بے نظیر کا بیٹا ہے جو اپنی زندگی کے آخری سانس تک جمہوریت کے لیے لڑتی رہی ہیں، اس وقت بھی وہ عوام کے ساتھ کھڑی تھیں جب انہیں جمہوریت سے خوفزدہ چند نامعلوم لوگوں نے قتل کر دیا۔

بے نظیر کے قتل سے پہلے، بھٹو کے دو بیٹوں میں سے ایک کو زہر دیکر قتل کیا گیا تھا جبکہ دوسرے کو ٹارگٹ کلنگ سے نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔
کسی کا بھی قاتل کبھی نہیں ملا۔

بلاول یورپ میں پڑھا، زرداری نے زندگی کا زیادہ وقت جیل میں گزارا، لہذا بے نظیر کو بچوں کی ماں اور باپ دونوں بن کر پالنا تھا۔
بلاول نے اپنی ماں سے ہر ایک واقعہ اور ہر ایک فلسفہ ء سیاست ازبر کر رکھا ہے۔ماں کی گود پہلی درسگاہ ہے، بلاول کی تو آخری درسگاہ بھی اس کی ماں ہی تھی۔

ہم بچپن میں ماں کے بہت قریب ہوتے ہیں، ماں ہمیں مختلف رشتہ داروں کے بارے میں بتاتی ہے، جو اچھے ہوں اور جو برے ہوں۔
ماں کے دشمنوں کو ہم زندگی بھر اپنا دشمن سمجھتے ہیں، آجکل کچھ سالوں سے برادری میں شادی کرنے کا رواج ختم ہوا ہے اس کی وجہ بھی وہی ماں کے پڑھائے ہوئے انتقامی سبق ہیں۔

بلاول بھی جانتا ہے کہ اس کے نانا، اس کے ماموں، اس کے والد اور اس کی والدہ کے ساتھ کس نے کیا کیا مظالم کیے۔

اپنی والدہ کے قتل کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں جیتنے پر بلاول نے ایک بیان دیا.
” جمہوریت بہترین انتقام ہے”

یہاں لفظ “انتقام” خاص طور پر، جان بوجھ کر، نہایت اہتمام کے ساتھ، زور دے دے کر شامل کیا گیا۔

بلاشبہ بلاول بدلہ لینے اور انتقام لینے کے جذبات میں دہک رہا ہے۔
وہ بہادر اور نڈر ہے، اس کی آواز، اس کے لہجے، اس کے نین نقوش اور اس کی عادات بتاتی ہیں کہ اس کی شخصیت اور مزاج میں ماں کی شخصیت کا گہرا ترین اثر ہے۔وہ بے نظیر کی طرح سوچتا ہے اور بے نظیر کی طرح جدوجہد کرنا چاہتا ہے  عوام کے لیے۔

کچھ وقت پہلے بلاول سے پوچھا گیا کہ وہ شادی کیوں نہیں کر رہے؟

جواب ملا” ایسے ملک میں شادی کر کے کیسے رہیں جہاں آپ کا خاندان محفوظ نہ ہو”۔

زرداری صاحب سندھ کے جاگیردارانہ نظام میں پلے بڑھے، جہاں وڈیرے معمولی خفگی پر لوگوں کو کتو‍ں کے آگے ڈالتے ہیں، ونی کرتے ہیں، جائیداد بچانے کے لیے لڑکی کی شادی قرآن مجید سے کر دیتے ہیں، زرداری خوف اور دباؤ کے ماحول میں جیتا آ رہا تھا۔

وہ مزاجاََ بھی submissive ہیں ،اسی لیے تو بے نظیر جیسی بڑی شخصیت کے ساتھ وہ گزارہ کر پائے۔
اپنی صدارت کے عرصہ میں بھی وہ لوگوں سے جی مجال کر کر کے وقت گزاری کرتے رہے، انہوں نے کسی کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی نہ کسی سے انتقام لیا (سیاست سے وابستہ لوگوں سے)۔

مختلف ٹی وی انٹرویوز میں انہوں نے جیل کے وقت خود پر ہوئے مظالم پر مختصر مختصر بات کی۔
وہ طویل مدت تک ذہنی و جسمانی اذیت میں رکھے گئے۔جیل میں رہنا، اذیت جھیلنا، ہمیں اور ہماری نفسیات کو مکمل بدل دیتا ہے، زرداری بھی جیل میں بدل گئے۔وہ سب کچھ بھول کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ بلاول اور باقی بچوں کو بھی ماضی بھلانا چاہتے ہیں تا کہ وہ نئی شروعات کر سکیں۔

عملاََ زرداری بے نظیر کی جدوجہد سے متفق نہیں،وہ بے نظیر کے جمہوری اور مزاحمتی فلسفہ کو بھول کر، مفاہمت اور مصلحت کے تحت آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اسی میں ان کے لیے، پاکستان جیسی ڈیپ سٹیٹ (جہاں ہر جگہ فوج کا براہ راست اثر و رسوخ ہے) میں عزت و بقاء کی ضمانت کے ساتھ قیام ممکن ہے۔

بلاول اسی لیے تو عملی میدان میں جوہر نہیں دکھا پا رہا کیونکہ وہ جو کچھ سیکھ چکا ہے اور جو کچھ کرنا جانتا ہے،زرداری نے اس سارے فلسفے کو رد کر دیا ہے۔
اب جو کچھ اسے سکھایا جا رہا ہے وہ اس کے مزاج کے خلاف ہے
لہذا بلاول عوام میں وہ پذیرائی حاصل ہی نہ کر پایا جس کا وہ حقدار بن سکتا تھا۔اسے اس قدر کمزور اور خصی شخصیت بنا کر دکھایا جا رہا ہے کہ عوام میں اس کے فلسفہ کی بجائے اس کی ذات پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔
یہ سب سلوک بے نظیر کی سیاست سے روگردانی کرنے اورزرداری کے فلسفہ کو اپنانے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

جیل میں قیدیوں کو اشارے پہ چلنا سکھایا جاتا ہے۔اور زرداری اشارے پہ چلنا بہت اچھی طرح سے سیکھ چکا ہے۔
فرمانبرداری اور جی حضوری کو اس نے مفاہمت اور مصلحت کا نام دے رکھا۔جمہوریت کی بجائے زرداری نے ہمیشہ ایک مختلف ٹرم استعمال کی “سیاست”۔
زرداری جمہوریت کے قائل ہیں ہی نہیں۔

بھٹو بھی اسی طرح کی سیاست کرتے تھے، وہ بھی فرمانبردار تھے، جی حضوری کرتے تھے، مفاہمت اور مصلحت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی بجائے سیاست پر پختہ یقین رکھتے تھے۔
بھٹو نے بھی فوج کے سہارے حکومتی دورانیہ گزارا، انہوں نے عملی طور پر فوج کو سول مارشل لاء لگانے کے لیے لکھا تھا۔سب واقف ہیں کہ بھٹو پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے رہے۔

بالکل اسی طرح زرداری اور ن لیگ نے ایک نیا حکومتی نظام لانچ کیا، اس نظام میں سیاستدان اور فوج ایک پیج پر جمع ہو جاتے ہیں۔الیکشن ہوتے ہیں، نمائندے عوام سے لیے جاتے ہیں،لیکن پالیسی اور ڈکٹیشن، ڈکٹیٹرز دیتے ہیں۔چونکہ یہ نظام جمہوریت اور مارشل لاء کے ملاپ سے تشکیل ہوا،لہذا اس کا بہترین نام بنتا ہے ” جمہور شل لاء”۔

لیکن اب وقت بدل چکا ہے، دور اس کا ہے جو عوام کے ساتھ ہے، جو جمہوری ہے، جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے پیروکار اس وقت بقاء اور فنا کے مقامات کے درمیان جھول رہے ہیں۔

بلاول عوام میں آنا چاہتا ہے اور تحریک انصاف کا اتحادی بن کر جمہوریت اور عوام کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔
انتقام لینا چاہتا ہے۔۔
لیکن
زرداری ایک باپ ہے، اس ملک کا ایک ایسا باپ جہاں کسی کا خاندان محفوظ نہیں رہتا۔جو چیزیں آپ کے اور میرے لیے تھیوریز ہیں،زرداری نے وہ سب پریکٹیکل سہا اور برداشت کیا ہے۔وہ کبھی بھی بیٹے کو کھونا نہیں چاہے گا، باپ پھر باپ ہوتا ہے۔

بلاول آج مستقبل کے دوراہے پر کھڑا ہے،وہ دونوں راستوں سے واقف ہے،ایک پر سے اس کی ماں گزری
دوسرے پر سے اس کا نانا اور اس کے والد گزرے۔

دیکھتے ہیں بلاول کیا چنتے ہیں

عوام کو
یا عوام کے مخالفین کو۔

ماں کو
یا ماں کے دشمنوں کو۔

دیکھتے ہیں کہ بلاول کیا نتیجہ نکالتا ہے۔

آیا اس کی ماں غلط تھی
یا
اس کا باپ غلط ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply