(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)
قسط نمبر 15
پاکستان میں انتخابات کا موسم اُترا ہوا ہے۔ گھروں، دکانوں، گلیوں، بازاروں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رنگا رنگ جھنڈے لہلہا رہے ہیں۔ شام ڈھلے چھوٹے چھوٹے مقامی جلوس بھی بازار عبور کرتے ہوئے کسی نہ کسی جلسہ گاہ پہنچ رہے ہوتے ہیں۔ وہ مخالف سیاسی جماعتوں کے دفاتر کے سامنے سے گزرتے ہیں تو ان کے نعروں میں اور بھی قوت و شدت آجاتی ہے مگر بس دومنٹ رُکتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔
گھر پر امی جان نالاں ہیں کہ یہ لڑکے بالے گذشتہ انتخابات میں پی پی پی کے امیدواروں کے جھنڈے اٹھائے پھرے اور اب پی این اے کے امیدوار کو کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔
اُن کا گلہ سُن کر والدصاحب مسکرا دیتے ہیں اور کہتے ہیں:
’’یہی تو جمہوری نظام ہے۔ ہر فرد اپنی رائے رکھنے کا اور اسے بدلنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اگر ایک جماعت ان کی توقعات پر پورا نہیں اتری تو وہ کیوں نہ دوسری جماعت کو ووٹ دیں جس کا منشور ان کی امنگوں سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔
’’تو کیا آپ بھی اب کے پاکستان قومی اتحاد کو ووٹ دیں گے؟‘‘
امی جان براہِ راست سوال کرتی ہیں۔
’’ نہیں۔ بالکل نہیں۔ میں تو جیسا کہ آپ جانتی ہیں پیپلز پارٹی ہی کو ووٹ دوں گا لیکن اگر کوئی بچہ پی این اے کو ووٹ دینا چاہے تو اس کو مکمل اختیار حاصل ہے۔اسے میں اس کے آزادانہ جمہوری حق سے روکوں گا ہرگز نہیں،‘‘والد صاحب کا جواب۔
’’یہ اچھی جمہوری آزادی ہوئی۔ سیاسی لیڈر ہمارے بچوں کے کندھوں پر سیریں کرتے پھریں۔ شام کو تھکے ماندے لوٹیں گے تو کندھے کیا ان سیاست دانوں کے گھر والے آکر دبائیں گے۔۔۔۔بے چارے بچے۔ جھلّے ہی ہوجاتے ہیں اِن کم بخت سیاست دانوں کے پیچھے۔‘‘ امی جان کے لہجہ میں مادرانہ فکر مندی اور ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔
’’تو کیا آپ اس بار ووٹ دینے نہیں جائیں گی؟‘‘ میں امی جان سے پوچھتا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سیاسی عمل کو ناپسند کرتی ہیں۔ مگر وہ کہتی ہیں:
’’ میں تو ضرور اپنا ووٹ ڈالنے جاوں گی مگر ان اتحاد والوں کو نہیں ملے گا میرا ووٹ۔ ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹتی ہے۔ تم دیکھ لینا الیکشن کے بعد یہ سب تتر بتر ہوجائیں گے۔‘‘
والد صاحب کُرسی پر بیٹھے مسکرا رہے ہیں۔ شاید امی جان کی صاف گوئی کے بارے میں سوچ کر۔
٭٭٭٭٭
افسوس ناک خبر ملتی ہے کہ ہمارے چچا پروفیسر سید منظور شاہ گیلانی صاحب کے جوان بیٹے کا دریائے راوی میں ڈوب کر حادثاتی طور پر انتقال ہوگیا ہے۔ہم سب اُن کے گھر سنت نگر پہنچتے ہیں۔ پُرسا دینے والوں کا ایک ہجوم ہے وہاں۔ جوان بیٹے کے یوں چلے جانے کا غم چچا اور چچی جان کو نڈھال کیے ہوئے ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ ایسے دکھ کے موقع پر والدصاحب روایتی جملے ادا کرنے کے بجائے بس مختصر سی بات کرتے ہیں اور پھر بہت دیر کے لیے خاموش ہوجاتے ہیں جیسے اس احساس کو اپنے اندر جذب کررہے ہوں۔ شاید یہی جذب بعد میں تخلیقات کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ ۔۔
چچا منظور والد صاحب کے ماموں زاد ہیں۔ حُسنِ اتفاق یہ کہ ان کے بچوں کے نام بھی ہمارے ناموں جیسے ہی ہیں یعنی خالد، حامد وغیرہ۔ فرق یہ ہے کہ ہمارے یہ چچا زاد بھائی بے حد ہنس مُکھ ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہم سب بھائی بہت سنجیدہ اور مردم بیزار قسم کے ہیں۔ بس یہ کہ مجھے وہ بھائی کچھ زیادہ ہنس مُکھ اور زندہ دل لگتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مزنگ بازار میں یوں تو سبھی دکان دار ہمیں جانتے پہچانتے ہیں۔ سودا جو انھی سے خریدتے آرہے ہیں ہم برسوں سے۔ مگر دوایک دکان دار تو جیسے ہمارے خاندان کا حصہ ہی بن گئے ہیں اور اس تعلق کا سبب امی جان کا اخلاق اور ملن ساری ہے۔ ایک اشرف پرچون والے اور دوسرے نسیم بھائی منیاری یا جنرل سٹور والے۔ ان سے ’’مہینے کا حساب‘‘ چلتا ہے۔ ہم مہینہ بھر خریداری کرتے ہیں اور پہلی تاریخ کو یا جب بھی والد صاحب کو تنخواہ ملے ان کو ادائی کردی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ برس ہا برس سے چل رہا ہے مگر مجال ہے کبھی کوئی بدمزگی ہوئی ہو۔
آج نسیم بھائی اپنی دکان بند کرکے گھر جانے سے پہلے ہمارے ہاں رُکے ہیں اور ہم سب کو اپنی شادی میں آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ امی جان خوش ہوکر پوچھتی ہیں:
’’ تو نسیم، کیا تحفہ لوگے شادی پر؟‘‘
نسیم بھائی جھجکتے ہوئے جواب دیتے ہیں:
’’ آپا جی، یزدانی صاحب سے سہرا لکھوادیں آپ۔ بس۔ یہی سب سے بڑا تحفہ ہوگا میرے لیے۔‘‘
’’اچھا۔ میں ضرور کہوں گی انھیں لکھنے کو۔‘‘ امی جان کچھ سوچتے ہوئے کہتی ہیں۔
٭٭٭٭٭
ہم نسیم بھائی کی شادی میں شریک ہیں۔ بارات جانے سے پہلے جب دولہا کو تحائف دینے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو نسیم بھائی اپنے ساتھ ہی بیٹھے والد صاحب کو سہرا سنانے کا کہتے ہیں۔ والد صاحب فریم کیا ہوا سہرا نسیم بھائی کوپیش کرتے ہیں۔ نسیم بھائی اور مہمان والد صاحب سے سہرا سنانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ جس پر والد صاحب مسکرا کرکہتے ہیں:
’’حضرات میں تو تحت اللفظ میں پڑھتا ہوں۔ تقریبات میں سہرا گاکر سنایا جاتا ہے۔ افسوس، مجھے ترنم آتا نہیں۔ اگر میرے دوست طفیل ہوشیارپوری صاحب یہاں ہوتے تو ان سے درخواست کی جاسکتی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا ہے۔ مجھے بُلا کر آپ ضرور پچھتا رہے ہوں گے۔‘‘
اِس پر سبھی کھلکھلا کر ہنس دیئے ہیں۔ ان مہمانوں میں پنجابی زبان کے شاعر و ادیب حسین شاد بھی شامل ہیں جن سے ادبی تقریبات ہی میں ملاقات ہوتی ہے۔ آج یہاں آکر معلوم ہوا کہ وہ نسیم بھائی کے محلہ دار ہیں۔ انھیں والد صاحب کو اس شادی میں دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔ انھوں نے ملتے ہی کہا تھا:
’’شاہ جی۔ آپ یہاں؟‘‘
اور جواباً والد صاحب نے بھی انھی کے تحیرانہ انداز میں مسکان کا اضافہ کرتے ہوئے کہا تھا:
’’حسین شاد صاحب، آپ یہاں؟‘‘
اس پر حسین شاد بھی ہنس دئیے تھے۔
’’نسیم ہمارے تو محلے دار ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا تھا۔
’’نسیم ہمارے بھی محلے دار ہیں‘‘ والد صاحب نے جواب دیا تھا۔
’’ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ آپ تو ہمارے محلے میں نہیں رہتے۔ آپ تو مزنگ۔۔۔۔‘‘
’’ دیکھیے، نسیم آپ سے زیادہ ہمارے محلے دار ہیں۔ آپ کے محلے میں تو وہ کہِیں رات کو آتے ہیں اور وہ بھی سونے کے لیے۔دن بھر تو وہ ہمارے پاس ہوتے ہیں مزنگ میں اپنی دکان پر۔۔۔تو ہوئے نا ہمارے محلے دار۔‘‘ والد صاحب کہتے چلے گئے تھے۔
’’جی بالکل۔ درست فرمایا آپ نے۔‘‘ انھوں نے کہا تھا اور ماحول زعفران زار بن گیا تھا۔
پاس کھڑے دولہا بھی رومال سے اپنی ہنسی چھپا رہے تھے۔
٭٭٭٭٭
محلے کے کچھ بچے اور بچیاں مجھ سے ٹیوشن پڑھنے ہمارے گھر آنے لگے ہیں۔ چھوٹی بہن انیسہ اور بھائی ماجد بھی اس سلسلہ میں میری اعانت کرتے ہیں۔انیسہ کو یہ گلہ ہے کہ میں اپنے سٹوڈنس پربالکل سختی نہیں کرتا۔ میں جواب دیتا ہوں:
’’ میں کوئی منّا للاری ہوں جو ان معصوم بچوں پر سختی کروں !‘‘
والد صاحب اس بات پر میری حمایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نظم و ضبط کے نام پر اس قدر سختی سے پیش آنا بچوں کو تعلیم کی محبت سے دُور کردیتا ہے۔ ان کے اندر علم سے محبت پیدا کرنا چاہئیے نہ کہ ڈر۔‘‘
منّے للاری (رنگریز) کی دکان دراصل ہماری گلی سے نکلتے ہی بائیں طرف تیسری والی ہے۔ پہلی بھیّا جی پان والے کی ہے اور دوسری بیکری ہے۔ منّا للاری کافی مشہور کردار ہے ہمارے علاقہ کا اور اپنی سخت گیر طبیعت کے لیے مشہور بھی ہے۔ بچے اس کے رنگے دوپٹے بھی بھاگ بھاگ کر سُکھائے جاتے ہیں اور ’’پہاڑے‘‘ بھی دہرائے جاتے ہیں۔ امی جان نے بھائیوں کے ساتھ مجھے بھی ٹیوشن سنٹر کے نام پر قائم ’’عقوبت خانہ‘‘ میں داخل کروادیا تھا۔ مارے خوف کے میرے تو ویسے ہی اوسان خطا رہتے تھے۔ استاد جی جس لکڑی کی مدد سے رنگ ہوتے کپڑوں کو ہِلایا کرتے ہیں اسی سے بے دریغ بچوں کی پٹائی کرتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ کہ مجھے وہاں بہت دن نہیں جانا پڑا۔ والد صاحب کی سفارش پر وہاں سے ’’رہائی‘‘ مل گئی تھی۔
٭٭٭٭٭
اِدھر کالج سے گرمیوں کی چھٹیاں آغاز ہوئی ہیں اور اُدھر میں سکوٹر سے گر کر صحیح معنوں میں ’’صاحب فراش‘‘ ہوگیا ہوں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا یہ دن پڑے پڑے کیسے گزریں گے۔ والد صاحب دفتر سے آتے ہوئے بہت سی نئی ادبی کتابیں اور جرائد میرے لیے لے آئے ہیں۔ میں سب سے پہلے سب سے ضخیم کتاب اٹھاتا ہوں۔ یہ عبدالعزیز خالد صاحب کی کتاب ہے ’’غبارِ شبنم‘‘ جو جاپانی شاعری کے اردو تراجم پر مشتمل ہے۔ میں فوراً ہی اس کی ورق گردانی شروع کردیتا ہوں۔ یہ جاپانی شاعری سے میری پہلی ملاقات ہے۔
٭٭٭٭٭
(جاری ہے)
—
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں