غالب و آنند(1)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ع۔ ​جب جب غالب نے آنند کو لفظوں سے زود وکوب کیا
بھلا اسے نہ سہی کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفس ِ بے اثر میں خاک نہیں

ستیہ پال آ نند
حضور، مصرع ِ اولیٰ کو ملتوی کر کے
دوبارہ غور کریں مصرع ِ  ثانی پہ اگر
نہیں لگے گی کیا’’ تکرار ِ محض ‘‘ اس میں ہمیں؟
’’نفسِ بے اثر‘‘ خود میں ہے بے اثر، تو جناب
اثر کا اس میں نہ ہونا تو حشو و زائد ہے
محاورے سے یہ کھلواڑ بری لگتی ہے

مرز ا غالب
’’محاورے سے یہ کھلواڑ‘‘؟ جی نہیں، مرے دوست!
جناب نے ہی نہیں دیکھا ’’بے اثر‘‘ کو بغور
کہ اس میں خوبی  ء ایہام بھی تھی پیش نظر
جناب، آپ بلا شبہ جانتے ہوں گے
کہ کتنی اہم ہے یہ صنعت ِ ایہام یہاں

ستیہ پال  آنند
غزل کی صنعتوں کے درجہ ء  اناضت میں
کوئی بھی سبک سر صنعت کہاں ٹھہرتی ہے!
یہ رمز مجھ سے تہی مایہ لوگ بھی جانتے ہیں
مگر، حضور بتائیں کہ کیا ہے چیز ایہام

مرزا غالب
یہ بات سمجھیے گا عام فہم لفظوں میں
کہ اس کا مادہ تو ہے ـ’’وہم‘‘، ہاں، سرا سر وہم
مگر ’’ایہام‘‘ ہے ذو معنی و مقصد کا کمال
اک ایسا لفظ ہےہ جس کے معانی دو ہیں، مگر
ہمارے شاعر ِ جادو بیاں نے بشرح صدر
یہ ذوالمعانوی بازی گری دکھائی ہے
کہ ہم کنار معانی ہی دیکھ کر ،ان کو
کوئی بھی سامع یا قاری روا سمجھتا ہے
صحیح و راست معانی تو اپنے شاعر نے
وہاں سے دور کہیں آگے چھپا رکھے ہیں

ستیہ پال آنند
حضور، آپ کے اس شعر میں کہاں ہے یہ صفت؟

مرز ا غالب
’’ اثر‘‘ حدیث کی قسموں میں ایک قسم بھی ہے
’’اثر ‘‘ نشان کے معنی میں بھی ہے مستعمل
کسی بھی زخم کے دیرینہ ’’داغ ‘‘ کا ہے یہ نام
’’اثر مرے نفس ِ بے اثر‘‘ کا مطلب تو
یہیں کہیں ہے ورائے حجاب پوشیدہ!

ستیہ پال آنند 
بتائیں گے نہیں کیا مجھ کو کس جگہ ہے یہ رمز؟

Advertisements
julia rana solicitors

مرزا غالب
اشارتا ً ہی سہی، آپ خود تلاش کریں

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply