بقائن۔۔۔قسط2/محمد خان چوہدری

بکرمی سال کا آخری مہینہ پھاگن چل رہا تھا۔ گندم کی بالیاں نکل آئی تھیں، سرسوں اور تارا میرا کے پھول جوبن پر تھے۔
شاہد شام کو بائیک پہ شہر کا چکر لگا کے آتا، فضا میں خنکی کم اور لذت انگیز ہونے لگی، وہاں اس کے پرانے ہم جماعت بھی باروزگار ہو رہے تھے، کالج کے زمانے کے استھان چائے خانہ پر محفل جمنے لگی ۔ شوکت شوکی اس کا جگری لنگوٹیا یار ، کلاس فیلو بھی شہر کے ہائی سکول میں کچا ٹیچر تھا۔ ویک اینڈ پہ  وہ شاہد کے ساتھ بائیک رائیڈ کے شوق میں ڈھوک شرفو آ جاتا، چھٹی کا دن اکٹھے گزارتے، رائیڈنگ بھی ہوتی، زمینوں اور فصلوں کی چیکنگ بھی ہو جاتی۔
شوکی بذلہ سنج، لطیفہ گو اور خوش مزاج محفلی کردار تھا، باپ دادا کے معاشقے ایسے بیان کرتا جیسے کہانی سُنا رہا ہو۔۔
ایف اے میں ایک خالہ زاد کے ساتھ افیئر تھا، ماں نے بھائی کے گھر رشتے کی بات چلائی باپ نے اعلان کر دیا۔۔کہ وہ اسکی شادی بھتیجی سے کرے گا، یہ جھگڑا اسکے بی اے کرنے تک چلا۔ آخر اس نے تایا کو بیچ میں ڈال کے ان تینوں لڑکیوں کے فیملی کے کزن سے رشتے طے کرا دیے ۔اور شاہد کے ساتھ بی ایڈ میں داخلہ لے لیا، باپ نے شادی کا پوچھا تو اس نے ادب سے جواب دیا،۔۔ ابو جی آپ کے ساتھ کی میری اتنی پھوپھیاں ہیں شہر میں، کسی کی بیٹی سے  کر لوں گا ابھی آپ اپنی بیٹی اور دوسرے بیٹے کی شادیاں کر لیں، بعد میں دیکھیں گے ، باپ سمجھدار تھا اس نے ضد نہیں کی۔ مبادا شوکی اس کا جوانی نامہ کھول کے نہ بیٹھ جائے۔
شوکت شوکی کی حاضر جوابی سب جانتے تھے، ایک دن کلاس میں ٹیچر نے ٹیسٹ پیپر دیا۔ اس نے چھٹی مانگ لی،ٹیچر نے وجہ پوچھی تو اس نے رونی صورت بنا کے کہا،  سر جی میری دادی سخت بیمار ہے، آج تو بس مرنے والی ہے، میں چھٹی لینے ہی آیا ہوں، سر آج کل میرے مرحوم دادا روزانہ فرشتے کے ساتھ چکر لگا رہے ہیں، میں گھر نہ ہوا تو ہو سکتا ہے وہ دادی کو چھوڑ کے اپنی کسی سہیلی کو لے جائیں ، دو تین ابھی زندہ ہیں ۔۔

مصنف:محمد خان چوہدری

شاہد کو ایسے ہی دوست اور مشیر کی ہمراہی چاہیے تھی، اس کے والدین نے پچھلے ایک ماہ میں برادری کے قریبی رشتہ داروں سے ملاقاتوں کا راؤنڈ مکمل کر لیا تھا، کہیں بھی شاہد اور شکیلہ کے نام تو نہیں لیے گئے تھے لیکن عام گفتگو میں شادی پر ہر جگہ بات ہوئی، بظاہر سوشل وزٹ دراصل تجدید مراسم کی یاد دہانی اور تقریبات کے موقع پر ہر ممکنہ رنجش اور ناراضی کا سد باب کرنا تھا، چوہدری فیروز ویسے بھی بہت جہاندیدہ اور مدبر انسان تھا۔
اس تعلقات عامہ کی مہم میں جو رات چوہدری اور اسکی بیگم کو کسی گاؤں میں آتی تو وہ رات ملازمہ شاہد کے ساتھ بیٹھک میں گزارتی، اب بڑے زمینداروں ، اور چوہدریوں کے ہاں یہ شب باشی تو ہوتی رہتی لیکن بات باہر نکلنے کا سوال ہی نہیں ہو سکتا۔
جب چیت میں ہر بڑے مزار کے سالانہ عرس کے میلہ پر لاہور تک ناچ گانے والی فنکارائیں جمع ہوتیں اور ہر متمول وڈیرے کے بیٹے کی شادی پر مجرا لازمی ایونٹ ہو وہاں ان چھوٹی موٹی باتوں کی پرواہ نہیں کی جاتی۔
لیکن مسئلہ یوں پیدا ہوا کہ شکیلہ کی والدہ ہر ہفتے میکے کا چکر لگاتی ، بھائی اور بھابھی سے رشتہ داروں سے ہوئی بات چیت کی تفصیل پوچھتی۔ اسے دل میں خوف تھا کہ خاندان میں ایک سے ایک رشتہ موجود تھا،شاہد جیسے نگینے کے تو سب آرزومند تھے۔

ان تفتیشی دوروں میں اسے شاہد اور ملازمہ کی شب باشی کی سُن گُن لگ گئی۔ جلتی پہ تیل ایسے گرا کہ ملازمہ کے حاملہ ہونے کا اسے شک ہو گیا۔ اگلی غلطی یہ بھی ہوئی کہ اس نے گاؤں واپس جا کے شکیلہ پہ غصہ اتار دیا کہ اس نے شاہد سے ہم بستری کیسے کی ! ملازمہ میں کیا خوبی  ہے جو اس کے  پاس نہیں ۔۔

شکیلہ کے باپ کا خاندان چوہدری فیروز کے رشتہ دار تو تھے لیکن کمزور تھے، وہ باپ بیٹے اپنی زمینداری کرتے، گھر میں شکیلہ کی ماں خود مختار تھی، اور شکیلہ کا معاملہ تو بہن بھائی کے درمیان تھا۔
چیت کا مہینہ شروع ہو گیا، علاقے میں موسمی میلے اور عرس شروع ہو گئے، ہاڑی یا ربیع کی فصل ،گندم و دیگر کی کٹائی شروع ہونے پہلے ان میلوں میں جانوروں کی خرید و فروخت اور کاشتکاری کے اوزار کی سیل ہوتی،گندم کی فصل تو اہم ترین ہے ہی ،اس سیزن بارے مثل مشہور ہے کہ کٹائی کے دوران کسی زمیندار کی ماں مر گئی۔
اسے کھیت میں اطلاع ملی تو اس نے جواب دیا کہ ماں کی میت گھلوٹے میں رکھ دو، فصل اٹھا کے دفن کر دیں گے۔
شکیلہ کی ماں کو ہاتھ پیر اس لئے پڑے تھے کہ کہیں اسکا بھائی چوہدری فیروز رشتہ کرنے سے مکر نہ جائے۔

آخر کار وہ اپنے ذہنی کرب کے آگے ہار گئی، وسوسے خوف اور واہمے غالب آ گئے تو اس نے اپنے گاؤں میں جشن نوروز کے مخصوص    دن نو چیتر کو اپنے ڈیرے پہ  قریبی رشتہ دار بزرگوں کی دعوت رکھ دی، شاہد اور اس کے ماں باپ کو بطور مہمانِ  خصوصی مدعو کر لیا۔
چوہدری فیروز نے بھی بہن کی پریشانی بھانپ لی، اس نے شاہد سے کھل کے بات کرنے اور رشتہ طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ میاں بیوی نے باہم مشورہ کیا، شاہد کے بہت کم گو ہونے اور ماں باپ سے شادی جیسے نازک معاملے پر بات  کرنے سے شرمانے کے خدشہ کے باعث اس کے دوست شوکی کو بلوایا گیا، یہ ملاقات حویلی کے پرانے اور آبائی  احاطے کے بڑے کمرے میں ہوئی، جہاں کسی بھی ملازم، ملازمہ و دیگر کے قریب ہونے، سُن گن لینے کا خطرہ نہیں  تھا۔

چوہدری نے نپے تلے الفاظ میں، شاہد پر کوئی  دباؤ ڈالے بغیر خاندان کی آبائی  شادیوں ، ان سے جڑے مسائل،خاص طور پہ  جائیداد کی حصہ داری کی تاریخ بیان کی، کس طرح جد امجد اشرف خان کو دیس نکالا دیتے  وقت اس کے باپ نے یہ وسیع رقبہ اس کے نام منتقل کیا تھا، بعد ازاں اس ڈھوک شرفو کے علاوہ دیگر دیہات میں بھی زمینیں اشرف خان کی اولاد کو وراثت میں ملیں، ہر نسل میں بیٹیوں کی حصہ داری کیسے بیٹوں کو ٹرانسفر ہوتی آئی۔۔اور ہر شادی کیوں خاندان کے اندر فرسٹ کزن پھوپھی زاد سے   ہوتی آ رہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

باپ بیٹے کے درمیان یہ گفتگو دراصل اب سارا نظام چوہدری فیروز سے چوہدری شاہد کو منتقل کرنے کی تقریب تھی۔باتوں میں اس نازک ترین پہلو کا ذکر بھی آیا کہ شاہد کی ملازمہ کے ساتھ شب باشی سے حاملہ ہونے کے شک کی وجہ سے اس کی فوری شادی دوسرے ملازم کے بیٹے سے کتنی عجلت میں کی گئی،عجیب ترین بات یہ ہوئی  کہ ساری ملاقات میں شوکی بھی بالکل سنجیدہ اور خاموش رہا اسکی بذلہ سنجی غائب رہی۔
شاہد کی والدہ تو ویسے ہی میانی گاں۔ہُوں نہ ہاں تھی۔
بات چیت اس پہ  ختم ہوئی  کہ شکیلہ اور شاہد کی منگنی کا باقاعدہ اعلان شکیلہ کے گاؤں میں جا کے نوروز والے دن کر دیا جائے، لیکن یہ فیصلہ وہاں جانے تک مخفی رکھا جائے ،نوروز والے دن جب چوہدری فیروز، اس کی بیگم لدی پھندی جیپ پر نوکروں کے ساتھ شکیلہ کے ہاں پہنچے تو وہاں کا ماحول یک لخت بدل گیا!
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply