جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان /6

چترال شہر پہاڑوں کے حصارمیں ہے:

چترال شہر پہاڑوں کے حصار میں کَسا ہوا ہے۔بہت مضبوطی سے نہ  سہی کچھ ڈھیلے بازوؤں سے ہی سہی۔ایک مٹیالہ دریا اس کے بیچوں بیچ بہتا ہے۔کسی تیز رفتار اَژدھے کی طرح دوڑتا نظر آتا ہے۔شہر اِس آبی اَژدھے کے دونوں کناروں پر آباد ہے۔دَریا کے فی قطرے میں ایک مکعب سینٹی میٹر مٹی لدی ہوئی ہے۔یہ بالائی وادیوں کی ساری زرخیز مٹی ہے۔جس پر پھل دار درخت اُگے ہوئے ہیں۔کچھ بنجر اَور سنگلاخ زمینوں کے ذرّے بھی اِس میں شامل ہیں۔ یہیں پر اِس کے کناروں میں چھپے آثار بتاتے ہیں کہ اِس دَریاکی گزر گاہ نے اِنھیں بنایا ہے۔مٹسو بِشی کی رفتار مناسب تھی۔ایک طاقت وَر فولادی گھوڑی،جسے کوئی بھی دُشوار رَستہ  سامنے آئے تو سیدھائی ہوئی گر کتی ہے اَور فوراً مشکل رستہ پھلانگ جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں :جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/5
اَیون:
دَریا پھیل گیا تھا اَور اب ایک سر سبز وادی ہمارے سامنے تھی۔اِس وادی کے اِردگرد پہاڑ،جو دَریا کے دونوں طرف ہیں۔اَیسے ہی ویران بنجر ہیں۔اِس سے قبل ہم روکھی سوکھی اَور مٹیالی وادیوں میں سفر کرتے رہے تھے۔یہاں دَریا کے اِس طرف سنگ مرمر کے آثار ہیں۔جو ہمارے بائیں طرف ہم پر اَپنی اَپنی جگہوں سے جھانک رہے تھے۔شفقت،منصور اسماعیل اَور عرفان اَشرف کے دَرمیان گرما گرم بحث ہوتی رہی کہ یہ جھانکتے نیم سرخ پتھر سنگ مرمر کی قسم کے ہیں یا نہیں۔شفقت کو چھوڑ کرباقی لوگ اِس بات کے حامی تھے کہ ِان کی تہہ میں سرخ سنگ مرمر ہی موجود ہے۔
ہمارے سامنے دَریائی وادی پر فصلیں کھڑی تھیں۔صدیوں کے آبی عمل اَور اُوپر پہاڑی تودوں کی شکست وریخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر آنے والی مٹی نے دریا کا رُخ بدلا ہوگا۔اَب اِس پرانی گزر گاہ پر مٹی بھرنے سے ایک ہری بھری زرخیز وادی نے جنم لیا ہے۔اَب یہاں اَچھی خاصی آبادی ہے۔مکئی اَور جو کے کھیت لہلہا رہے ہیں۔خوبانیوں کے باغات ہیں۔اِن میں سے کچھ پر اگست میں بھی پھل موجود تھا۔سرخ سرخ پکی ہوئی خوبانیوں کو دیکھ کر،منہ  میں پانی آگیا۔دائیں ہاتھ مڑ کر ہم نیچے ایک کچی سڑک پر ہو لیے۔دریا کے اس طرف بروز ہے اَور پار اَیون۔سنگ مرمر کا جھگڑا بروز میں ہو رہا تھا۔کیوں کہ وہ بروز میں ہی سڑک کنارے کنارے دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔

مٹی کے تودے سے بنی ڈھلوان پر ہماری گاڑی دُھول اڑاتی آہستہ آہستہ نیچے اتر رہی تھی۔سامنے سے دوہرے کیبن والی نسان چڑھائی چڑھ  رہی تھی۔تنگ سڑک پر وقاص جمیل نے گاڑی ایک طرف کھڑی کردی۔پہیے لبِ  بام تھے۔یہ ایک خطرناک کراسنگ تھی۔نسان نے پاس سے گزرتے ہوئے شکر یے کاہارن بجایا۔جواب میں ہماری گاڑی نے بھی ہارن بجایا۔

بائیں طرف دَریا کنارے خوبانیوں کے درختوں تلے،جن پر اَبھی پھل تھا،گھوڑا بندھا تھا۔اِس کے کھُر سفید تھے۔سایہ دار درختوں تلے گھوڑے کا بندھاہونا ماضی کی دُنیامیں لے جاتا ہے جہاں سرائیں ہیں،آرام گاہیں ہیں اَور سائے کی تلاش میں پھرتے مسافر ہیں۔

بائیں طرف اسی منظر کے ساتھ ہم نے سریوں کا پُل پار کیا اَور اَیون کی حدودمیں داخل ہوگئے۔اَیون ایک چھوٹا سا بازار ہے اَور سڑک کے دونوں طرف آباد ہے۔بازار سے گزرنے والی سڑک بہت ہی تنگ ہے۔پُرانی طرز کی دکانیں ہیں۔بازار ہی میں ذرا آگے بائیں طرف نیچے اپنی نوعیت کامختلف اَور قدیم قبرستان ہے۔ایک وسیع اَحاطے پر پھیلا ہواہے۔لکڑی کے کام کے نوعمر کاری گر یہاں بازارمیں کام کر رہے تھے۔اَخروٹ اَوردیودار کاخوب صورت کام۔

اَیون  میں اِن ہوٹل کے ساتھ اُچھلتے دُودھیاپانی کاایک نالا تیزی سے بہہ رہا ہے۔اِس کاپانی بے تاب اَور تڑپتا ہُوا  ،کُودتا پھاندتا نیچے کی طرف بہتاہے۔ پھر دَریا ئے چترال میں مل کر مٹیالالباس پہن لیتا ہے۔بازار میں اِک پرانی دُکان پر ہم نے،کمربند میں بند، ایک تلوار لٹکتی دیکھی۔زمانہ قدیم کے آثاریہاں دکانوں سے ظاہر ہیں اَور زمین میں دفن ہیں۔اَیون بازار کے ساتھ ہی ایک موڑ پر،ایک گھر اَپنے اَندازتعمیر سے صدیوں پرانا لگتاہے۔لکڑی کے دومنزلہ ِاِس گھر کے نیچے سے سجرے پانی کی ایک کوہل گزرتی ہے۔سڑک کئی بل کھاکر اُوپر کواٹھتی ہے تو اَیون قدموں تلے رہ جاتا ہے۔تب یہ بازار اَور گاؤں ڈھلوان پر بسے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

پانی کی چھوٹی چھوٹی کوہلیں درختوں اَور کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے ہیں۔بازار کے اُوپر سٹرک کنارے ایک، دوضرب چار کے رقبے کی تنہا قبرہے۔اِس پر انگریزی حروف وی کی شکل کے دو پتھر،اِس کی پائنتی اَور سرہانے لگے ہوئے ہیں۔ قبروں پر یہ تختیاں اَور یہ اَنداز پورے چترال میں نظر آتاہے۔بازار سے کافی اُوپر اک موڑ پر سے دائیں ترچ میر کا منظر تھا۔یہ پُل کے منظر سے زیادہ واضح اَور وسیع تھا۔سفید مقدس گنبد جو بالائی حصے سے قدرے چپٹا ہے،ایک طلسم سے کم نہیں۔اِس مقدس گنبد کو کچھ ہی لمحے دیکھ سکے کیوں کہ گاڑی آگے نکل گئی اَور یہ منظر اپنے تمام حسن سمیت پیچھے رہ گیا۔

یہیں پر سڑک کی ناہمواری اَور تنگ دامنی چھوٹی سی مشکل پیدا کرتی ہے۔موڑ رُک ر ُک کر آگے پیچھے ہو کر کاٹنا پڑتا ہے۔چند گھر اِسی مشکل جگہ پر اُڑسے ہوئے ہیں۔کچھ سڑک کے اُوپر اَور کچھ سڑک کے نیچے۔اِس سڑک کے نیچے متوازی ایک کوہل بہتی ہوئی نیچے اُتر جاتی ہے۔گھروں کے پاس پانی کی ٹینکی بنی تھی شاید جمع شدہ پانی کسی ضرورت کے لیے استعمال ہوتا ہو گا۔ورنہ اتنی بڑی کوہل جو ہمہ وقت بہتی ہے اِن گھروں کو بہت ہے۔سڑک کی تنگ دامنی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک ایسی جگہ آ گئی جہاں بائیں طرف ایک نوکیلی چٹان جب کہ دائیں نیچے گہری کھائی تھی۔ گاڑی آئی تو وقاص جمیل نے مدِ مقابل کے ساتھ ساتھ اپنی مٹسو بِشی کو بھی سنبھالا۔قافلہ آگے بڑھ گیا خطرناک لمحات گزر گئے۔شفقت بول رہا تھااَوراگلی نشست سے عمران اشرف تبصرہ کر رہا تھا۔

شفاف پانی کا ایک نالہ ہمارے بائیں  جانب نیچے بہتا چلا جارہا تھا۔اِس کے اِردگرد کسی طغیانی کے آثار تھے۔ جو اس کے دھارے کے دائیں بائیں دُور تک پھیلے ہُوئے تھے۔اس طغیانی نے خاصا کٹاؤ کیا تھا۔منصور اسماعیل اَور شاہد حفیظ کو بار بار  فون نکالنا پڑتے۔اِن دونوں کے کاروباری مسائل انھیں یہاں بھی پریشان کر رہے تھے۔تنگ سڑک گر دآلو د تھی۔سامنے سے کوئی گاڑی آجاتی تو مزید دھول اُٹھتی۔

ایک مشکل جگہ نے پسینے نکال دیے۔بائیں ہاتھ ایک چٹان لیٹ کر اُوپر کو اُٹھتی ہوئی،آگے بڑھ کر سڑک تک آگئی تھی۔ایک طرح کی وتری چھت بنا رہی تھی۔مگر کسی مثلث سے آزاد۔اَیسے میں سامنے آتی گاڑی نے ہمیں اَور خود کو مشکل میں ڈال دیا۔پہیوں کے نیچے سے اُٹھنے والی دھول نے الگ پریشان کر رکھا تھا۔بمشکل گاڑی لب ِ بام کھڑی ہوئی تو دوسری سنبھل کر نکلی۔اَگر اس وقت ہماری گاڑی کے پہیوں کے نیچے سے،مٹی کا تودہ ٹوٹ جاتا تو یہ بغیر کوئی کروٹ لیے سیدھی کھائی میں جاگرتی۔مجید امجد نے شاید ایسا ہی تنگ رستہ دیکھا ہو گا۔
؎ تنگ پگڈنڈی،سر کہسار بل کھاتی ہوئی
نیچے دَونوں سمت،گہرے غار منہ  کھولے ہوئے،
آگے ڈھلوانوں کے پار،تیز موڑ،اَور اس جگہ،
اِک فرشتے کی طرح نورانی پر تولے ہوئے،
جھک پڑا آکر رستے پر کوئی نخل بلند،
تھام کر جس کو گزر جاتے ہیں آسانی کے ساتھ،
موڑ پر سے ڈگمگاتے رہبروں کے قافلے،
ایک بوسیدہ،خمیدہ پیڑ کاکمزور ہاتھ،
سیکڑوں گرتے ہوؤں کی دستگیری کا امیں،
آہ! ان گردن ِفرازان ِ جہاں کی زندگی،
اِک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنھیں حاصل نہیں!

دِقت ختم ہوئی تو گاڑی آگے بڑھ گئی۔تنگ سڑک کے دائیں،نالے کے پار، کچھ اُوپر ایک کوہُل سے پانی پھٹ کرباہر آرہا تھا اَور نیچے نالے میں گر رہا تھا۔پہاڑ پر اس پانی کے نیچے گرنے سے ایک دودھیا ندی وجود میں آگئی تھی۔منصور اسماعیل نے اپنے کیمرے سے اس منظر کی تصاویر لیں۔یہ کوہُل ماضی کے کسی دور کی یاد گار ہے۔مگر اس کی جوانی وجولانی آج بھی بر قرار ہے۔

مچھلی:
نالا جو بہت دور نیچے بہہ رہا تھا۔اب نزدیک ہوتا جارہا تھا۔یہاں تک کہ ایک جگہ نالااَور سڑک تقریباً ایک سطح پر آگئے۔ہم نے گاڑی چٹان کے نیچے اَور نالے کے کنارے کھڑی کی۔یہ سستانے کی بہترین جگہ تھی۔مسافر نیچے اُترے۔لب سڑک پتھروں اَور سیمنٹ کے اشتراک سے پانی کی ٹینکی بنی ہوئی تھی۔تاز ہ پانی کا دھارا اس کے کھلے اَور بڑے نل سے بہہ رہا تھا۔سیر ہو کر پانی پیا۔ بوتلوں میں جوباقی پانی تھا باہر انڈیلا اَور یہاں سے تازہ بھرا۔خود منظری جاری تھی۔کوئی پاؤں دھو رہا تھاکوئی منہ ۔شفقت نل کے نیچے پاؤں دھو رہا تھا کہ ایک بڑی ٹراوٹ مچھلی نل سے باہر آ کر لگی۔پتھروں میں تڑپی پھر بہاؤ میں چلی گئی۔ہم اس کی تلا ش میں کچھ دیر رہے بالا آخر وہ مل گئی۔چھوٹے سے گھڑے میں،پانی کی تہہ میں۔ماہرین احفوریات کاخیال ہے کہ مچھلی لگ بھگ 38 کروڑ سال قبل وجود میں آئی تھی۔ اس پانی نے ہمیں انتہائی فرحت بخشی۔جہاں سے یہ پانی آتا تھا وہ علاقہ زمین،فضا آلودگی سے یقیناً پاک تھا۔  فون سے مچھلی کی تصاویر لیں۔نالے کی چوڑائی جو طغیانی نے بنائی ہے،ٹینکی بھی اِس طغیانی کی زد میں آئی تھی۔اِس کے نشان اب بھی باقی تھے۔اس چھوٹی سی تفریح کے بعد ہم آگے بڑھ گئے۔

بلندی بڑھ رہی تھی۔نالا ہم سے تھوڑی دُور چلاگیا تھا۔کئی موڑوں نے اُسے ہم سے دُور کردیا تھا۔ایک ویران جگہ ننگے پتھرو ں کے چند گھر تھے۔سیاہ رنگ پتھروں کے یہ گھر اندر سے لیپائی کیے گئے تھے۔ایک ڈھلوان پر سڑک کے اوپر اور نیچے،دونوں طرف بنے تھے۔ہمالیہ اَور ہندوکُش کی اکثر ویران و بلند وادیوں میں ایسے ہی مکانات ملتے ہیں۔یہ جگہ قدرے روکھی اَور ویران تھی۔جب کہ سڑک سے پار ہریالی تھی۔پانی کی ایک کوہل دور اُوپر پہاڑ پر سے گزر رہی تھی۔ایک بجلی گھر کافی نیچے بنا تھا۔

دوپاز چوکی:
دوپاز چوکی پر پڑتال کے لیے رُکے یہاں سے اَندازاً کیلاش کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔یہاں دو مختلف راستے اَجنبیوں کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔بائیں طرف کارستہ  بمبوریت کو جاتا ہے، دائیں طرف والا رمبور کو۔دونوں وادیوں میں کیلاشا لوگ بستے ہیں۔ہم نے چوکی پر 300روپے فیس جمع کرائی۔یہاں ملکی لوگوں سے 50روپیہ فی آدمی لیاجاتا ہے اَور غیر ملکی لوگوں سے 600 روپیہ فی آدمی وصول کرتے ہیں۔آگے اَسلحہ،منشیات وغیر ہ لے جانا منع ہے۔ہم بائیں ہاتھ بمبوریت کی طرف ہو لیے۔
چوکی سے ذرا آگے ایک گاؤں ہے۔یہاں ہر یالی ہے۔اَخروٹ کے قد آوراَور گھنے درخت ہیں۔شہتوت عام ہیں اِن پر پکے ہوئے سیاہ جنگلی اَنگور وں کے گچھے لٹک رہے تھے۔جیسے ہی چوکی پار کر کے بائیں مُڑتے ہیں تو نالے کے پار،لکڑی کے ایک پرانے توڑے دار پل کی باقیات ہیں۔اَیسے پل بظاہر کمزور،مگر مضبوط ہوتے ہیں۔پہاڑی علاقوں میں یہ خودساختہ پل لوگوں کو طغیانیوں کے دوران آرپار جانے میں سہولت مہیا کرتے تھے۔قدیم طرز کے ان پلوں میں لکڑی کے بیموں کی دو طرفہ پرت ڈال کر،اِن پر پتھروں کی چوڑی دیوار بنائی جاتی تھی۔پھر دوسری پرت پہلے بیموں سے زیادہ لمبائی میں رکھی جاتی تھی۔پھراِس پر دیوار تعمیر کی جاتی تھی۔چار پانچ پرتوں کے بعد جو لکڑیاں لگائی جاتیں تھی وہ پل ہوتا تھا۔اکثر دیا ر کی لکڑیاں استعمال ہوتی تھیں۔کیلاشا ہوں یا کوئی اَور مشقتوں کو اٹھاے لوگوں کی زندگیاں اِنہی پلوں کی مرہون منت ہوا کرتی تھیں۔اَفریقہ،ہندوکُش اَور ہمالے کی بے شمار وادیاں آج بھی لکڑی کے پلوں کے سہارے ہیں۔

جناح گیسٹ ہاؤس:
تنگ پگڈنڈی نما کچی سڑک پر چلتے چلتے گاڑی ایک سرائے میں داخل ہوئی۔ہمارے راستے میں قاضی آباد،احمد آباد اور آنیش کے قصبات آئے تھے۔سرائے کے احاطے میں پانچ گاڑیاں کھڑی تھیں اور اب چھٹی ہماری تھی۔سراے وقاص جمیل کے دوست ضیاالدین کے بھائیوں کی تھی۔جو ہمیں صبح چترال میں ملا تھا۔سرائے والوں کو پہلے سے اطلاع کر دی گئی تھی کہ ہمارے دوست کشمیر سے آرہے ہیں۔ ایک تنگ راستے کے دونوں طرف، درختوں کے بیچ یہ سرائے دو حصوں میں پھیلی ہوئی ہے۔سیب،آڑو،ناشپاتی کے درخت اس کے وسیع احاطے پرپھیلے کھڑے ہیں۔ان میں سے بعض پر انگوروں کی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔انگوروں کے گچھے اَدھ کچے،ان سے لٹک رہے تھے۔دائیں طرف والا حصہ دومنزلہ تھا اور بائیں طرف والا ایک ہی منزل تھی۔ ان دونوں حصوں کے بیچ دو سو قدموں کا فاصلہ ہوگا۔ایک ہر ا بھرا چمن ان کے درمیان میں واقع ہے۔ دومنزلہ عمارت کافی کمرہ ۰۰۰۳ روپے جب کہ بائیں طرف کی سر اہے میں ۰۰۵۱ تا ۰۰۰۱ میں دستیاب تھا۔
ہم، مشرقی حصے کے باغ سے گزر کر ایک منزلہ عمارت میں پہنچے تو اسکے برآمدے میں پانچ کرسیوں کے درمیان ایک میزلگی تھی۔ہم سب جو تھکے ہوئے تھے انہی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔اس کی اندرونی ساخت انگریزی کے حرف یو (u) جیسی تھی۔دائیں بائیں اور پیچھے کمرے اور درمیان میں ایک برآمدہ۔سامان برآمدے کی پُشتنی دیوار سے بنے کمرے اور دائیں طرف والے کمرے میں رکھا۔ تین تین لوگوں کے لیے ایک ایک کمرہ تھا۔منہ  ہاتھ دھویا اور برآمدے میں آگئے۔دائیں طرف والی دیوار پر محترمہ بے نطیر بھٹو،ایک کیلاشا خاتون اور لیڈی ڈیانا کی تصویر یں لگی تھیں۔دائیں بائیں بے نظیر اور ڈیانا کی تصاویر  تھیں،درمیان میں کیلاشا خاتون کی۔درمیان والی تصویر زیادہ جاذب نظر اور بڑی تھی۔یہ رات کے اندھیرے میں خاموشی سے اور بے خبری میں لی گئی تصویر تھی۔سر پر ٹوپی پہنے سیاہ لبادے میں کیلاشا خاتون جس کے صاف اور ملائم چہرے پر ایک بڑا تل تھا۔خاتون ہاتھوں سے تالی بجا رہی تھی،اور ایک طرف کوئی منظر دیکھنے میں محو تھی۔اس کے دائیں ہاتھ پر ربن بندھا تھا جو دھاگوں سے بنا تھا۔تینوں خواتین چترال کے ثقافتی لباس میں تھیں۔جوکسی الگ الگ پروگرام میں شریک تھیں۔اطراف کی دو خواتین لیڈ ی ڈیانا اور بے نظیر، دنیا کی معروف خواتین رہیں۔شاہی محلات اور شاہانہ طرز زندگیوں کی مالک،یہ اب دنیا میں نہیں ہیں۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply