شانِ عمر ہے شانِ عمر۔۔ عمیر اقبال

وہ دوئم خلیفہ رسولِ خدا کا

امیر اہل ایمان و اہل رضا کا

وہ تیغ جگر دارشمشیر بـرّا

وہ ضرب الٰہی وہ فاروقِ دوراں

ہے اس کی بھلا تعریف کی کوئی حد

وہ مرضئی رب ہے دعائے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)

ہوا حق پرستی کا جب سے وہ قائل

لرزنے لگا اس کی ہیبت سے باطل

کہا! کون ہے جو مقابل میں آئے

مجھے میرے ایمان سے روک پائے

عمل جس کا ہر ایک رد بلا تھا

کہ شیطاں جسے دیکھ کے بھاگتا تھا

یہ ارشاد بالا ہے ختم الرسل کا

مرے بعد آتا نبی تو عمر تھا

عمر ابن خطاب فاروق اعظم

وہ مطلوب محبوب رب دو عالم

نہ دیکھا کسی نے بھی سردار ایسا

خلیفہ ہے لیکن ہے مزدور جیسا

چھپا کر زمانے سے اپنے ارادے

چلا ہے کمر پر وہ سامان لادے

دیا ہر ایک گھر کا در کھٹ کھٹا کے

کہ اس گھر میں ہیں بھوکے بندے خدا کے

کہا میرے دور خلافت میں کوئی

رہے بھوکا پیاسا اگر جانور بھی

تو اہل عجم کو نہ اہل عرب کو

عمر دے گا کیا جواب اپنے رب کو

عمر ابن خطاب فاروق اعظم

وہ مطلوب محبوب رب دو عالم

حشیت وللّہیت کا وہ پیکر

توکل تواضع تھے اس کے عساکر

تھی جس کی شاہی میں طرز فقیری

مگر زیب دیتی تھی اسکو امیری

وہ مخدوم ہوکےبھی خادم تھا سب کا

اسے خوف رہتا تھا بس اپنے رب کا

تھا خلق خدا کا خیال اسکو اتنا

مدینے میں راتوں کو وہ گھومتا تھا

عمر ابن خطاب فاروق اعظم

وہ مطلوب محبوب رب دو عالم

جو ارشاد فرمایا تھا مصطفیٰ نے

کیا اس کو پورا عمر کے خدا نے

کہ پارس سے لے کر ایران ہوگا

بہرحال غالب مسلمان ہوگا

فتوحات اسکی قدم چومتی تھیں

مسرت سے روح نبی جھومتی تھی

زمیں اس کے دور خلافت پہ نازاں

فلک اسکے طرز عدالت پہ شاداں

زمیں درزمیں اسکا سکہ رواں تھا

مگر کوئی دیکھے کہ وہ خود کہاں تھا

عمر ابن خطاب فاروق اعظم

وہ مطلوب محبوب رب دو عالم

وہ نکلے تو احمد کے دشمن تھے جانی

جب آئے تو بن گئے خلیفہ وہ ثانی

سر فرش مسجد کے گوشے میں جاکر

وہ لیٹا ہے پتھر کا تکیہ لگا کر

ہو کیا اور انصاف اس سے زیادہ

کہ خادم ہے سوار اور خود ہے پیادہ

یہ منظر کسے نے نہ دیکھا تھا پہلے

فلک بھی اسے خواب سمجھا تھا پہلے

عجب شان و عظمت کا وہ حکمراں تھا

کہ بحر اور بر میں بھی سکہ رواں تھا

ہوا اسکا پیغام طیبہ سے پاکر

اڑی اور پہنچایا ایران جا کر

پڑھیں اسکا نامہ تو ہٹ جائیں دریا

عمر نام سن کر سمٹ جائے دریا

وہ عادل بھی منصف بھی بطل جریح تھا

حقیقت میں وہ نقش پائے نبی تھا

عمر ابن خطاب فاروق اعظم

وہ مطلوب محبوب رب دو عالم

تھا منظور حق یہ کہ اللہ اکبر

نبی مشورہ اس سے لیتے تھے اکثر

مشیت کے رازوں کو وہ کھولتا تھا

کہ اسکی زباں میں خدا بولتا تھا

کہا ایک فرنگی ضمیر آشنا نے

سچائی بخشی تھی اسکو خدا نے

اگر ایک عمر اور دنیا میں ہوتا

ہر ایک شخص ہی چین کی نیند سوتا

وہ پہلا خلیفہ اسے آزمایا

شہادت کا اعزاز جس نے ہے پایا

مگر ایک اعزاز اس سے بھی اعلٰی

کہ جس سے ہے واقف ہر ایمان والا

رفیق مزارِ نبیٰ مکرم

خیال ایسے انساں پہ صدقے دوعالم

عمر ابن خطاب فاروق اعظم

Advertisements
julia rana solicitors

وہ مطلوب محبوب رب دو عالم

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply