گناہِ بزدلی/ڈاکٹر مختیار ملغانی

ہومر کے دور سے صاحبانِ مطالعہ اس ادبی طرح سے واقف ہیں کہ ایک اندھا لائبریرین خواب دیکھتا ہے کہ انسانوں کے دو گروہ ہیں، ایک گروہ قلعے کو فتح کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ دوسرا اس کی حفاظت پہ معمور ہے اور مزاحمت کر رہا ہے۔ یہ طرح بظاہر بے مقصد مگر پُراسرار ہے۔

کسی نقاد کا کہنا ہے کہ اب اس قلعے کو آپ جو بھی تصور کریں، ایک چیز جو سمجھ سے بالاتر ہے وہ یہ کہ مزاحمت کرنے والا گروہ کون ہے اور کیوں مزاحمت کر رہا ہے؟

انسان کائنات کو فتح کرنے نکلتا ہے تو جو کائنات بظاہر تو ایک خلاء ہے، خالی پن ہے، پھر بھی وہ انسان کو اچھی خاصی مزاحمت دکھاتی ہے، سمندروں کی گہرائیوں کو فتح کرنے کی خواہش میں بھی ہزاروں رکاوٹیں سامنے آتی ہیں، ایٹم کا سینہ چیرنا ہوتو دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے، ہر جگہ مزاحمت ہے لیکن معلوم نہیں کہ مزاحمت کون کر رہا ہے۔

البتہ مزاحمتی گروہ کو سمجھنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس قلعے کو گندم کی تیار فصل تصور کر لیا جائے ، یہاں کچھ بات بنتی دکھائی دیتی ہے کہ حملہ آور اور مزاحمتی گروہ، یا تو دونوں بھوکے ہیں، یا پھر قلعے کے حقیقی باسیوں کو پرغمال بن کر رکھا گیا ہے اور حملہ آور اسے آزاد کرانا چاہتا ہے۔

کسی دور میں جنگیں بھیانک اور ننگی بربریت و جارحیت کا پتہ دیتی تھیں، پھر وقت بدلا ، انسان مہذب ہوا تو ان جنگوں کی بربریت کو نرم کرنے کیلئے مخصوص استدلال کی مدد لی جانے لگی، قومیں دو حصوں میں تقسیم ہوئیں، مہذب اور غیر مہذب، لہذا مہذب قومیں اب غیر مہذب قوموں کو اپنی طرح مہذب بنانے کیلئے چھیڑ خانی کرتی ہیں، ردعمل سامنے آئے تو اس ردعمل کو دلیل بنا کر چڑھائی کر دی جاتی ہے۔ ان مہذب قوموں کیلئے اس غیر مہذب قوم کے کرتا دھرتا سہولت کار کا کام کرتے ہیں، بدلے میں ان سہولت کاروں کو نظام کا سربراہ بنایا جاتا ہے۔

فرد اعلان کرتا ہے کہ شہد کی مکھیاں ہماری آنے والی نسلوں کیلئے نہایت خطرناک ہیں، لہذا بہتر ہے کہ خطرے کے ابھرنے سے پہلے ہی اس کی بیخ کنی کر دی جائے، مکھیاں شہد بنانے اور اپنی نسل پروان چڑھانے میں مصروف تھیں، زندگی سے خوش تھیں کہ ایک سرپھرا لاٹھی پر آگ جلا کر ان مکھیوں کے چھتے پر حملہ کر دیتا ہے، جواب میں غضبناک مکھیاں پوری قوت سے جوابی حملہ کرتی ہیں، یہ سرپھرا آدمی فورا ًصحافیوں کو بلاتا ہے، اپنا سوجا ہوا تھوبڑا دکھاتے ہوئے دہائی دیتا ہے کہ، دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ یہ مکھیاں ہماری آنے والی نسلوں کیلئے خطرناک ہیں، اب اپنی آنکھوں سے ان جاہلوں کو دیکھ لو ، آج اگر انہیں سبق نہ سکھایا گیا تو بڑی محنت سے بنائی گئی ہماری مہذب دنیا تباہی کے کنارے جا لگے گی، بس پھر تمام ممالک مل کر ” مکھیوں کے چھتے” کو جلا ڈالتے ہیں۔

جنگ یا انقلاب کیلئے کوئی بھی دلیل کیوں نہ گھڑ لی جائے، مقصد سب کا ایک ہی ہوتا ہے، اپنے نظام کو نافذ کرنا یا برقرار رکھنا۔ استدلال گھڑنے کی ضرورت تب ہی محسوس ہوتی ہے جب آپ جانتے ہوں کہ آپ تاریخ کی غلط سمت کھڑے ہیں ۔ یہاں مزاحمت کرنے والے اس لئے مزاحمت کرتے ہیں کہ وہ اپنے پسندیدہ نظام میں رہنا چاہتے ہیں۔

نظام کی باگ ڈور چند مخصوص ہاتھوں میں ہوتی ہے، وہ ہاتھ جنہیں جارج آرویل نے ” بڑا بھائی ” کہا ہے، ان کے نیچے کچھ افراد یا جماعتیں اس نظام کے بینیفیشری ہوتے ہیں، نظام جیسا بھی ظالم کیوں نہ ہو، اس کو قائم رکھنے کی جدوجہد درحقیقت انہی بینیفیشریز سے کروائی جاتی ہے، وہ اگر ایسا نہ کریں تو انہیں نظام سے باہر پھینکنے کی دھمکی دی جاتی ہے، دھمکی اثر نہ کرے تو انہیں واقعی باہر کر دیا جاتا ہے۔ اسی لئے بینیفیشریز کی اکثریت اس نظام یعنی بڑے بھائی کے سامنے ، مصلحت کے نام پر ،گھٹنے ٹیک دیتی ہے، شاز و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی جنونی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نعرۂ مستانہ لگا پائے، لیکن تاریخ میں ایسے دیوانے موجود رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نظام کے بینیفیشریز گھٹنے کیوں ٹیک دیتے ہیں ؟ کوئی بھی نئی فکر، نیا خون، نیا نظام انسانوں کیلئے اس قدر ڈراؤنا کیوں ہے؟ کیا یہ پرانی فکر و روایت کے مٹ جانے کا خوف ہے؟
ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو، لیکن یہ جزوی سچ ہے، اکثریت نظام کے بدلنے سے اس لئے ڈرتی ہے کہ نئے نظام میں وہ اپنی اتھارٹی کھو دیں گے، اتھارٹی کیوں کھو دیں گے؟
کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس مقام پر آج وہ ہیں، فی الحقیقت وہ کبھی بھی اس کے قابل نہ تھے، انہیں ناحق اس لئے نوازا گیا کہ وہ اس نظام کے زہر ہلاہل کو قند ثابت کرتے رہے ، اپنی عزت نفس، خودداری اور تشخص کو بالائے طاق رکھ کر وہ اس ” قند ” کا ڈھنڈھورا پیٹتے رہے ، اب جب تک وہ ڈھنڈھورا پیٹتے رہیں گے ، نوازے جاتے رہیں گے، وگرنہ انجام کیلئے تیار رہیں، اب کون بھلا بے وقوف ہے جو انجام کی پرواہ نہیں کرتا۔
اس کے بعد پھر بقول جنابِ مسیح
” انسانیت کے ماتھے پر بدترین گناہ، بزدلی کا گناہ ہے “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply