• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • قائداعظم اور پاکستان کی نظریاتی بنیادیں(1)-ثاقب اکبر

قائداعظم اور پاکستان کی نظریاتی بنیادیں(1)-ثاقب اکبر

عجیب بات ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کے بارے میں نظریات بھی معرکہ آرائی کا موضوع بنے رہتے ہیں۔ کوئی ان کے نظریات کو مغربی سیکولر نظام جمہوریت پر مشتمل قرار دیتا ہے اور کوئی انھیں جدید دور کی اس اسلامی ریاست کا ترجمان سمجھتا ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے آفاقی اصولوں پر استوار ہو۔ بہت سے افراد نے اس پر لکھا ہے، مقالات، کتابیں، تقریریں سب کچھ اس حوالے سے موجود ہیں۔ ہمارے مطالعے کے مطابق زیادہ تر افراد نے تو دوسرا نقطہ نظر اختیار کیا ہے، لیکن مغربی سیکولرازم کے نظریے کو پاکستان کی اساس بنانے کی خواہش رکھنے والوں نے پہلا موقف اختیار کیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس نظریے کو پروموٹ کرنے میں جسٹس منیر کا بھی حصہ ہے۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کی تحریروں اور تقریروں میں دونوں طرح کی باتیں مل جاتی ہیں، تاہم دوسرے نظریے کی طرف میلان ان کے ہاں زیادہ دکھائی دیتا ہے۔

رفاہ یونیورسٹی کے چانسلر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد کا تفصیلی مقالہ2020ء و 2021ء میں ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن میں پانچ قسطوں میں شائع ہوا، انھوں نے نہ فقط قائداعظم کے تصور پاکستان کو شواہد کے ساتھ بیان کیا ہے بلکہ آزادی کی تحریک کے اہم قائدین کے حوالے بھی پیش کیے ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنے قائد کی طرح جدید اسلامی ریاست کو اپنا مطمح نظر قرار دیے ہوئے تھے۔ پروفیسر صاحب نے علامہ اقبال، علامہ محمد اسد اور مولانا مودودی رحمھم اللہ کے افکار سے بھی استفادہ کیا ہے اور یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ دو قومی نظریے پر یقین رکھتے تھے۔ اسلامی قومیت کو قومی ریاستوں کے مغربی نظریے سے ممتاز اور منفرد سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود جنھوں نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے اور عموماً انھیں قائداعظم اور تحریک پاکستان کے حوالے سےاتھارٹی سمجھا جاتا ہے، ان کی رائے بھی ڈاکٹر انیس احمد سے ہم آہنگ ہے۔

مغربی سیکولرازم کے تصور کو پروموٹ کرنے والے افراد کے پاس دو باتیں ایسی ہیں، جنھیں وہ اپنے نظریے کے اثبات کے لیے پیش کرتے رہتے ہیں۔ ایک پارلیمان سے 11 اگست 1947ء کو قائداعظم کا خطاب اور دوسرا 21 مئی 1947ء کو خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے نمائندے ڈوون کمبیل کو دیا گیا قائداعظم کا انٹرویو۔ اس سلسلے میں ہوا یہ کہ جسٹس منیر نے بغیر حوالے کے اس انٹرویو کا ذکر کیا اور محض یہ کہا کہ یہ 1946ء میں دیا گیا انٹرویو ہے اور انھوں نے قائداعظم سے اس حوالے سے ایسی عبارت منسوب کی، جسے محققین نے غلط ثابت کر دیا اور قائداعظم کی محفوظ کی گئی دستاویزات میں بھی وہ عبارت نہیں ہے، جو جسٹس منیر نے بیان کی۔ چنانچہ حکومت پاکستان کی طرف سے سید زوار زیدی کی مرتب کردہ قائد کی دستاویزات میں یہ بات یوں آئی ہے:

But the Government of Pakistan can only be a popular representative and democratic form of government. Its parliament and cabinet, responsible to the parliament, will both be finally responsible to the electorate and the people in general without any distinction of caste, creed or sect, which will be the final deciding factor with regard to the policy and programme of the government that may be adopted from time to time (Saleena Karim, 2010, p30-31(. پاکستان کی حکومت عوام کی پاپولر نمائندہ اور جمہوری حکومت ہوگی، اس کی پارلیمان اور کابینہ پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہوگی اور یہ دونوں آخرکار رائے دہندگان کو بلاامتیاز ذات، مسلک اور فرقہ جوابدہ ہوں گے۔ رائے دہندگان (یعنی عوام) کا نقطہ نظر وقتاً فوقتاً حکومت کی طرف سے بنائی جانے والی پالیسی اور پروگرام کے لیے فیصلہ کن ہوگا۔

11 اگست 1947ء کو قائداعظم نے جو تقریر کی، اس کے پس منظر کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح پوری تقریر کو سامنے رکھ کر کوئی مطلب اخذ کیا جانا چاہیے۔علاوہ ازیں قائد کے تصور پاکستان اور نظریہ پاکستان کو سمجھنے اور جانچنے کے لیے صرف ایک تقریر ہی کو پیش نظر رکھنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ ہمارے نزدیک قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر ہجرت مدینہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی میں تیار کیے جانے والے میثاق مدینہ سے ہم افق ہے۔ یاد رہے کہ میثاق مدینہ پر مسلمانوں ہی نے نہیں بلکہ یہودیوں اور اوس و خزرج کے ان کے افراد کے نمائندوں کے دستخط بھی تھے، جو ابھی تک بت پرست تھے اور مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ جب کوئی ایسی ریاست معرض وجود میں آتی ہے تو اسے اپنے ہر مذہب و مسلک اور دین و مرام سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ سب کو شہری حقوق دینا ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جو غیر مسلم پاکستان میں رہ گئے تھے، انھیں حقوق دینے کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔

اس خطاب میں ان دو پیروں کو زیادہ تر زیر بحث لایا گیا ہے۔
Now, I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State (Quaid -i-Azam M. Ali Jinnah Speeches and Statements, 1947-48 Ministry of Information, Government of Pakistan, Islamabad, 1989, P271( میرا خیال ہے کہ ہمارے پیش نظر ہمارے نصب العین کے طور پر یہ بات ہونا چاہیے اور آپ دیکھیں گے کہ جوں جوں وقت گزرتا ہے، ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان، مذہبی مفہوم میں نہیں کیونکہ عقیدہ ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے بلکہ سیاسی مفہوم میں ریاست کے شہریوں کے طور پر۔

دوسرا پیرا یہ ہے:
You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State. (Dr. Javed Iqbal, Ideology of Pakistan, Lahore,Sang-e-Meel Publication, 2005 P.16(. ریاست پاکستان میں آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں گرجوں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں مساجد میں جانے کے لیے یا دیگر عبادت گاہوں میں جانے کے لیے، آپ کسی بھی مذہب، ذات اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں اس کا ریاستی امور سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اس خطاب میں قائداعظم نے امن و امان کے لیے جان و مال اور مذہبی عقائد کے تحفظ کو مملکت کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ آپ نے کرپشن اور بدعنوانی کو معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ بلکہ زہر قرار دیا ہے۔ رشوت ستانی پر سخت تنقید کی ہے، اس کے خاتمے کا عہد کیا ہے اور اسمبلی کو مناسب اقدامات کی ہدایت کی ہے۔

چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی کو اسی خطاب میں قائداعظم نے لعنت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا کرنے والوں کو بہت کڑی سزا ملنی چاہیے۔ ایسا کرنے والے نظام کو تہ و بالا کر دیتے ہیں اور اس طرح فاقہ کشی، فقر اور موت تک کا باعث بن جاتے ہیں۔ اسی خطاب میں قائداعظم نے اقربا پروری کو بھی ایک لعنت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس برائی کو بھی سختی سے کچل دینا ہوگا۔ آپ نے کہا کہ میں واضح کردوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقرباء پروری کو برداشت کروں گا اور نہ ہی کسی اثر و رسوخ کو جو مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ آپ نے فرمایا کہ سب شہریوں کے حقوق و مراعات اور فرائض مساوی ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ کس کا کس فرقے سے تعلق ہے اور ماضی میں اس کے آپ کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات تھے اور اس کا رنگ و نسل یا عقیدہ کیا ہے۔ کیا ہم نہیں کہ سکتے کہ بانی پاکستان قائداعظم کے اس خطاب کا ایک حصہ لَآ إِكْرَاهَ فِى ٱلدِّينِ کی تفسیر ہے اور دوسرا حصہ اسلام کے معاشرتی عدل اور انسانی مساوات کے تصورات کا بیان اور معاشرے کی ہر ایسی برائی کے خاتمے کا اعلان جو عدل و انصاف کے تقاضوں کے منافی ہو اور انسانوں کو فقر اور تنگدستی میں مبتلا کر دے۔
جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply