• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • “خوراک کا بحران آنے والا ہے”؟ ۔ کیا آپ اس کا مطلب سمجھتے ہیں، محترمہ حکومت صاحبہ؟۔ غیور شاہ ترمذی

“خوراک کا بحران آنے والا ہے”؟ ۔ کیا آپ اس کا مطلب سمجھتے ہیں، محترمہ حکومت صاحبہ؟۔ غیور شاہ ترمذی

حکومتی ذرائع سے موصول خبر ہے کہ وفاقی کابینہ کے چند اہم وزراء میں صلاح و مشورہ جاری ہے کہ چینی کے بعد آٹے کا شدید بحران آنے والا ہے لہذٰا اس کی ابھی سے تیاری کر لیں۔ دوسری طرف فلور ملز ایسوسی ایشن والے کہہ رہے ہیں کہ آٹے کی قیمت بھی چینی کی موجودہ قیمت یعنی 92 روپے فی کلو تک طے ہونی چاہیے۔ اپنے بھولے بھالے عامۃ الناس کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ مبینہ طور پر ملک کو لوٹ کھسوٹ کر کھانے والے آصف زارداری اور پیپلز پارٹی کے دور ِ حکومت میں آٹے کی قیمت صرف 35 روپے کلو ہوا کرتی تھی اور چینی بھی 45 روپے کلو تک ملاکرتی تھی۔ زبانی کلامی دعوؤں کے مطابق اس نیکو کار حکومت کی شروعات میں بھی آٹا 50 روپے فی کلو اور چینی 55 روپے فی کلو تک ہی مارکیٹ میں بآسانی مل جایا کرتی تھی۔ مگر پھر یوں ہوا کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب اور اُن کی کابینہ نے چینی کی تھوڑی بہت قلت کا نوٹس لیا اور چینی پہلے 65 روپے فی کلو ہوئی جبکہ آج کل 92 روپے فی کلو تک ہی ملتی ہے۔ سُنا ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر 65 روپے فی کلو مل جایا کرتی ہے مگر وہاں لگی لمبی قطاروں کے بعد حوصلہ نہیں ہوتا کہ ہم سستی چینی خریدیں۔ اس لئے عام سٹورز سے خود مہنگی چینی خرید کر اپنے جیسے غریب ہم وطنوں کو یوٹیلٹی سٹور سے خریدنے والوں میں ایک گاہگ کی کمی کر دیتے ہیں۔ آٹے کی بھی یوٹیلٹی سٹور میں 41 روپے فی کلو کے حساب سے فراہمی کی خبر سنی ہے مگر اُس کے لئے بھی چکی سے 70 روپے فی کلو مہنگا آٹا خرید کر اپنے جیسے کسی دوسرے کو یوٹیلیٹی سٹور سے خریدنے کا موقع فراہم کر دیتے ہیں۔

پنجاب حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ 20 مئی تک گندم خریداری کا 45 لاکھ ٹن کا ہدف پورا کر لے گی جبکہ پنجاب کے 9 ڈویژنوں نے 9 مئی تک 30 لاکھ ٹن گندم خریدنے کی کنفرمیشن بھی کر دی تھی جو کہ اصل ٹارگٹ کا 67٪ بنتا ہے۔ وزراء اس موقع پر چھلانگیں لگاتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کہ چند دنوں میں حکومتی ٹارگٹ کے تحت خریداری کا ہدف پورا ہوجائے گا تو کورونا اور ٹڈی دل کے حملہ کے باوجود بھی ملک میں آٹے کی ہرگز کوئی قلت پیدا نہیں ہوگی۔ ابھی جشن اور خوشیوں کی تھاپ مدہم بھی نہیں ہوئی تھی کہ حکومتی دعوؤں کے برعکس تحریک انصاف سوشل میڈیا ٹیم اور حکومتی حمایت یافتہ صحافیوں نے یہ خبر بھی چلا دی کہ ملک میں گندم کی قلت کو پورا کرنے کے لئے 10 لاکھ ٹن گندم دوسرے ممالک سے درآمد کی جائے گی۔ حکومت کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ کو بھی گندم امپورٹ کرنے کی اجازت ہو گی اور اس کے لئے کوئی ٹیکس یا ڈیوٹی بھی عائد نہیں کی جائے گی۔ اب سمجھ یہ نہیں آ رہی کہ جب حکومت کی طرف سے گندم خریداری کا ٹارگٹ 20 مئی تک ہی پورا ہو جانے کی خبریں چلائی جا رہی تھیں تو یکا یک گندم کی قلت کا یہ بحران کیسے پیدا ہو گیا؟۔ کل بروز ہفتہ 8 اگست وزیر ریلوے شیخ رشید کیوں یہ بیان دے رہے تھے کہ گندم اور چینی کی امپورٹ کر رہے ہیں؟۔ یہ ہر وقت دو غلی اور یو ٹرن والی پالیسی کیوں چلائی جا رہی ہے؟۔ اب تو حکومت چلاتے 2 سال ہو گئے ہیں، ہن تے پچھلیاں دا کھیڑا چھڈ کے اپنے اُتے وی کجھ پا لو۔

اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں مئی کے دوسرے ہفتے کے وسط تک پیچھے جانا پڑے گا۔ اُس وقت ملک بھر میں گندم کی کٹائی مکمل ہو چکی تھی اور ماہرین کا کہنا تھا کہ امسال گندم کی فصل بھی شاندار رہی تھی اور فی ایکڑ اوسط میں خوب اضافہ ہوا تھا۔ مثال کے طور پر جنوبی پنجاب میں گندم کی پیداوار 50 من فی ایکڑ رہی جبکہ پچھلے سال یہی پیداوار 15 من سے 20 من فی ایکڑ کے درمیان تھی۔ یعنی یوں کہہ لیں کہ امسال گندم کی پیداوار پچھلے سال کے مقابلہ میں 3 گنا زیادہ رہی تھی اور اُس کی کوالٹی بھی بہت اچھی رہی تھی۔ جنوبی پنجاب میں گندم کی کاشت میں فی ایکڑ 35 ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے۔ امسال سرکاری طور پر گندم کی خریداری کا ریٹ 1400 روپے فی من رکھا گیا تھا۔ یعنی اگر فی ایکڑ 50 من گندم پیدا ہوئی ہو تو کسان 70 ہزار روپے فی ایکڑ کی گندم بیچنے میں کامیاب رہا۔ اس طرح اُسے فی ایکڑ 35 ہزار روپے کا نفع ہوا جو کہ گندم کی فصل کے حوالہ سے بہت اچھی آمدنی سمجھی جاتی ہے۔ امسال کسان کو اس منافع سے خاصی آسودگی محسوس ہوئی ہو گی۔ گندم کی فصل میں ہونے والے اس مثبت تغیر کے نتیجہ میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گندم وافر مقدار میں مہیا ہوتی اور اس کا ریٹ کم لگتا مگر ہوا بالکل اُلٹ۔ مئی کے اختتام تک صورتحال یہ تھی کہ مارکیٹ میں گندم مہیا ہی نہیں تھی۔ اگر ملتی تھی تو وہ 1400 روپے فی من کی بجائے 2700 روپے فی من کی بلیک مارکیٹنگ میں مل رہی تھی۔

میری طرح آپ بھی چکرا گئے نا کہ یہ ہوا کیا؟۔ تو عزیز قارئین ہوا یہ کہ حکومتی نااہلی کے عینی شاہدین بیوپاریوں نے اس دفعہ اپنی حکمت عملی ہی تبدیل کر لی۔ انہیں یہ اچھی طرح معلوم تھا یا مبینہ طور پر انہیں خود حکومتی وزراء کی طرف سے یقین دلا دیا گیا تھا کہ ہم کچھ نہیں کریں گے، تم اپنی کاروائی ڈال لو۔ اس آشیر باد کے بعد بیوپاریوں نے “بار” لگتے ہی کسانوں کو کھیتوں میں ہی اپروچ کر لیا اور وہاں سے ہی گندم سرکاری ریٹ یعنی 1400 روپے فی من کے حساب سے اُچک لی۔ ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ کسان گندم کو باد دانوں میں لوڈ کرتے، پھر انہیں ٹرالیوں میں لاد کر پاسکو (گندم خریدنے والا سرکاری ادارہ) کے گوداموں میں لے جاتے، وہاں سرکاری اہلکاروں کی مٹھی گرم کرتے، سفارشیں لڑواتے اور پھر کہیں جا کر حکومتی نرخوں پر گندم فروخت کر پاتے۔ بیوپاری ان سب مسائل اور مراحل سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں لہذا وہ گندم کی خریداری کا ریٹ سرکاری ریٹ سے 150 روپے فی من کم رکھا کرتے تھے۔ چونکہ اس دفعہ بڑے لوگوں کا ہدف یہ تھا کہ آٹے کی قیمت کو 90 روپے سے 95 روپے فی کلو تک لے جانا ہے، اس لئے انہوں نے اپنی پرانی حکمت عملی میں تبدیلی کی اور کسانوں سے گندم 1400 روپے فی من کے آس پاس کھیتوں سے ہی خرید کر اپنے ٹھکانوں میں پہنچا دی۔اس سارے عمل میں فلور ملز مالکان کی ہی پلاننگ شامل ہے۔ ان فلور ملز مالکان کے بڑوں میں حکومتی پارٹی کے عہدے داران کی واضح اکثریت ہے۔ انہوں نے کسانوں سے ساری گندم کی خریداری تھرڈ پارٹی ایجنٹس کے ذریعہ کی وگرنہ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ مئی کے دوسرے ہفتہ میں کھیتوں سے کاٹی جانے والی گندم یکایک مئی کے آخر میں ہی نایاب ہو گئی۔

دوسری طرف کسان کے لئے بھی یہ بلاشبہ فائدہ کا ہی سودا تھا۔ حکومتی نرخوں اور پرائیویٹ نرخوں میں صرف 20 روپے سے 25 روپے فی من کا ہی فرق تھا۔ مگر حکومتی نرخ زیادہ ہونے کے باوجود بھی کسان کو لگ بھگ 80 روپے فی من تک کا نقصان بھی تھا اور پیمنٹ ملنے میں بھی خواری۔ نیز پیمنٹ جلدی لینے اور وزن صحیح کروانے میں سرکاری اہلکاروں کی منت سماجت اور مٹھی گرم کرنے سے بھی آزادی۔ پچھلے سال تک اصول یہ تھا کہ حکومت کو گندم بیچنے کے لئے کسان کو بار دانہ (گندم کی پیکنگ والی بوری) پاسکو کے گودوام سے حاصل کرنے کے لئے ایڈوانس یا زر ضمانت جمع کروانا پڑتا تھا۔ امسال کورونا اور ٹڈی دل کی وجہ سے حکومت نے یہ شرط ختم کر دی تھی اور کسان کو بغیر زر ضمانت کے مگر شخصی گارنٹی یا شناختی کارڈ رکھوانے پر مطلوبہ تعداد میں بار دانہ جاری کر دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد کسان کھیتوں سے حاصل کردہ گندم کو ان بوریوں میں بھرائی کے پیسے ادا کرتا، ٹرالی پر لاد کر پاسکو کے گودام تک پہنچانے کے اخراجات، وزن کروائی وغیرہ 100 روپے فی من تک پہنچ جاتے۔ اس کے بعد پاسکو گودام سے ملنے والی رسید / بل کو بنک میں جمع کروانے کی کوفت اور مزیدف ایک ہفتہ بعد پےمنٹ ملنے کا انتظار۔ ایک طرف تو پاسکو کو گندم دینے میں 80 روپے فی من کا نقصان اور اوپر سے سرکاری اہلکاروں اور طریقہ کار کی خواری۔ لہذا کسانوں کی جگہ اگر ہم آپ بھی ہوتے تو ہم بھی پرائیویٹ پارٹیوں کو ہی گندم بیچنے میں آسانی محسوس کرتے۔

اس صورتحال میں ہوا یہ کہ حکومتی دعوؤں اور کھوکھلی منصوبہ بندی کے برعکس پاسکو گندم کی خریداری کے اہداف پورے کرنے میں پوری طرح ناکام ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاسکو اپنے اہداف کا 50٪ شئیر بھی پورا نہیں کر سکا۔ دوسری طرف پرائیویٹ فلور ملز مالکان نے 80٪ تک گندم کی پیداوار خرید کر ٹھکانے لگا دی ہے۔ اس منظر نامہ میں بہت بڑا بحران پیدا ہو چکا ہے اور وہ ہے خوراک کی کمی کا شدید بحران۔ فلور ملز کو گندم کی سپلائی پر حکومتی کنٹرول ختم ہونے کی وجہ سے سٹاک مافیا / بلیک مارکیٹنگ والوں کو اپنی من مرضی کرنے کا کھلا لائسنس مل چکا ہے۔ عوام ان خون آشام درندوں کے سامنے بےبس کھڑی ہے۔ چکی سے ملنے والا آٹا 70 روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے۔ راقم کے لئے سب سے پریشان کن امر یہ ہے کہ اس صورتحال کا نوٹس وزیر اعظم نے لے لیا ہے اور وہ بھی بہت سخت والا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے اور وزیر اعظم صاحب کسی بھی معاملہ کا سخت نوٹس لیتے ہیں تو وہ صورتحال آؤٹ آف کنٹرول ہو جاتی ہے۔ چینی کے معاملہ میں بھی یہی ہوا اور نتیجتاً  چینی آج 65 روپے فی کلو کی بجائے 92 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ پھر ایران، عراق زیارات کے لئے جانے والے معاملہ میں وزیر اعظم نے نوٹس لیا اور جو زیارات 65 روپے میں ہو رہی تھیں، اب وہ اڑھائی لاکھ میں ہوا کریں گی جبکہ انتظامی خواری مزید بڑھے گی۔ اب وزیر ااعظم صاحب نے سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ آٹا مہنگا بیچنے والوں کی فوری طور پر گرفتار کرنے کے ساتھ ان کے گودام سیل کر دئیے جائیں۔ راقم کی درخواست ہے کہ حکومتی اہلکار تشریف لائیں اور لاہور میں آٹا چکیوں کو بھی چیک کر لیں اور بڑے سٹورز کو بھی۔ آٹا مل ہی نہیں رہا اور اگر کہیں سے مل رہا ہے تو وہ 70 روپے فی کلو میں یعنی 2800 روپے فی من۔ وزیراعظم صاحب کو شاید خبر ہی نہیں ہو سکی کہ گندم کی خریداری کا ہدف پورا نہ ہونے کے باوجود بھی آٹا پنجاب سے دیگر صوبوں اور افغانستان میں بھی بھجوایا جاتا رہا ہے۔ظاہری حکومتی پابندی کے باوجود آٹا باہر بھیجوانے میں محکمہ خوراک اور ضلعی افسران ملوث تھے۔ واضح رہے کہ آٹے کے بحران پر محکمہ خوراک پہلے ہی آگاہ تھا لیکن اعلیٰ افسران اس صورتحال پر کوئی خاطر خواہ ایکشن لینے میں مکمل ناکام رہے جبکہ دوسری طرف بیوروکریسی اور تحریک انصاف کے بادشاہ مزاج ممبران پارلیمنٹ کے باہمی اختلافات کے باعث آٹے کا بحران سنگین صورتحال اختیار کر گیا۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ فلور ملز مالکان اور چکی مالکان کی جانب سے ملک بھر میں عام غریب آدمی کو سرعام لوٹا جا رہا ہے۔ میڈیا ہر پل گندم، آٹے اور روٹی کے ستائے عوام کی دہائی دے رہا ہے مگر لگ یہ رہا ہے کہ وفاقی وصوبائی حکومتوں کی آنکھیں بند ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بند آنکھوں، بہرے کانوں اور احساس سے عاری سٹاک مافیا اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کے سرپرست حکومتی عہدے داران کو دست بدستہ ایک حقیقت دکھانی ہے کہ جب گندم کی فصل کٹائی کے بعد کھیت سے اٹھائی جاتی ہے تو اس دوران گندم کے کچھ سٹے زمین پر گرتے رہتے ہیں۔ غریب بچے ان گرے ہوئے سٹوں کو اٹھالیتے ہیں۔ سرائیکی اور پنجابی زبان میں اس کو “وڈھ چننا” کہتے ہیں۔ سخت گرمی تپتی دھوپ اور گندم کی نوکیلی ناڑیوں میں ننگے پاؤں یہ بچے ایک کھیت سے 2 سے 3 گھنٹے کی مشقت کے بعد تھیلے میں کچھ سٹے جمع کر لیتے ہیں۔ پھر یہ ان کو گھر لے جا کر تھیلے سمیت ان سٹوں کو ڈنڈے کی طرح لکڑی سے مارتے ہیں۔ مزید 20 سے 30 منٹ کی اس مزید محنت کے بعد گندم کے سٹوں میں سے گندم کے دانے الگ ہو جاتے ہیں تو ایک چھج کی مدد سے اس کو ہوا میں اچھال کر گندم کے دانے اور بھوسہ علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔ گندم کے ان دانوں کو یہ بچے پھر گاؤں کی مقامی دکان پر بیچ دیتے ہیں۔ دوکاندار بھی لٹیرے ہوتے ہیں اور بچوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ حالانکہ گندم کا ریٹ آج کل 60/65 روپے فی کلو تو چل رہا ہے مگر دوکاندار ان بچوں سے گندم صرف 20 سے 25 روپے فی کلو خریدتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق فی بچہ اوسطاً ایک کلو گندم بنا لیتا ہے۔ زیادہ تر بچے ان پیسوں سے گھر کے لئے سبزی لے لیتے ہیں, کچھ سیکنڈ ہینڈ سکول بیگ خریدنے کے لئے پیسے جمع کر رہے ہوتے ہیں جبکہ چند ایک پیسے جمع کر کے اپنا نیا جوتا خریدنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں کے ایسے بچوں کے ساتھ ساتھ غریب بوڑھی خواتین بھی گندم کے گرے ہوئے سٹے چنتی ہیں اور وہ بھی اپنی کسی چھوٹی سی ضرورت کے لئے اس طرح کی بڑی سخت محنت کرتی ہیں۔ ایسے غریب لوگوں کی بے بسی و محنت کسی کو نظر ہی نہیں آتی اس لئے آپ نے ایسے محنت کش لوگوں کو نہ کبھی میڈیا پر دیکھا ہو گا اور نہ اخباروں میں پڑھا ہو گا۔ درخواست ہے کہ ملک بھر میں موجود کبھی ان جیسے غریبوں کی غربت کا دکھ درد محسوس کیجیے گا۔ جب شہروں میں رہنے والے متمول گھرانوں کے ہم جیسے لوگ بھی خوراک کی بڑھتی قیمتوں سے عاجز آ چکے ہیں تو ان غریبوں کا کیا حال ہو گا؟۔ یاد رہے کہ آپ اپنی نااہلی اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کو مجرمانہ تحفظ دے کر ان غریبوں کی آہوں اور خاموش بد دعاؤں سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ اگر اب بھی آپ لوگوں نے اپنی اکڑی ہوئی گردنوں کا غرور توڑ کر اپنے انتخابی وعدوں پر عمل درآمد نہ شروع کیا تو آپ کا سیاسی انجام بہت بھیانک دکھائی دے رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply