شدت پسندی اور جہالت۔۔تنویر حسین

چند سال پہلے کی بات ہے جب میں نے یہ سنا تھا کہ باپ نے اپنی بیٹی کا گلہ بلیڈ سے کاٹ کر اسے ذبح کردیا ہے۔ یہ وہ عمر تھی جب مجھے تھوڑا بہت ہوش آرہا تھا اور یہ واقعہ کسی اور جگہ کا نہیں میرے اپنے ہی گاؤں اور اپنی بستی کا تھا۔

پھر وہ دن بھی آیا جب میرے چچا کو میرے سامنے جاہلوں کے ایک گروہ نے ایک چھوٹی سی بات پر لاٹھیوں سے مار مار کر قتل کر دیا۔

ہوش سنبھالنے کے بعد مہینے میں یا سال میں ایسا کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور گزرتا جسے سن کر زمین واقعی پاؤں تلے  سے نکل جاتی۔

کچھ سال پہلے اخباروں میں یہ خبر گردش کرتی رہی کہ ایک شخص نے اپنے گھر والوں کو رات کے وقت جب وہ سورہے تھے کمرے میں بند کرکے جلا دیا، جس میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔یہ شخص بھی میرے علاقے سے تھا۔

میں وہ شخص نہیں جو زمین کے اس خطے پر فخر کروں جو جاہلوں کے جتھے سے بھرا پڑا ہو۔ یہاں قتل کے واقعات عام ہیں لوگوں کی پگڑیاں اور انائیں انسانی جانوں سے زیادہ قیمتی تصور کی جاتی ہیں۔

کچھ دن پہلے دو لڑکوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔

کل ایک باپ نے اپنی بیٹی کو گھر سے باہر جھانکنے پر سر پر لاٹھی ماری اور سر پھٹنے پر جب وہ بے ہوش ہوئی تو اسے بجلی کے جھٹکے دے دے کر بے رحمی سے قتل کردیا۔

کہتے ہیں کہ چودہ سو سال پہلے لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا میرا مورخین سے اس بات پر اختلاف ہوسکتا ہے مگر آج جو ہمارے معاشرے میں خصوصاً عورتوں اور عموماً ہر پسے ہوئے طبقے کے ساتھ ہورہا ہے وہ زندہ درگور کرنے سے کہیں زیادہ خوفناک اور گھناؤنا ہے۔

قانون، پولیس عدالت کورٹ کچہری کا تو کوئی حال نہیں ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ پولیس اور کورٹ کو تو ظالموں کے خلاف ہونا چاہیے مگر ان قاتلوں کے اصلی سہولت کار یہی ہیں۔

اس کورٹ سے انصاف کی کیا امید لگائی جاسکتی ہے جو پانچ دن کے مجرم کو اپنی غفلت کی بدولت پانچ سال تک جیل میں قید رکھتی ہے۔ میں نے اوپر جو واقعات درج کیے ہیں ان واقعات کے سبھی مجرم معاشرے میں عزت دار گردانے جاتے ہیں اور وہ کھلے گھوم رہے ہیں۔ میں اس ملک کے قانون سے مایوسی کی حد تک ناامید ہوں اور مجھے اس سے اگلے سات جنموں تک اچھائی کی امید نہیں۔ ان کے اپنے مفادات اور جھوٹی اناؤں کی جنگ میں انصاف اور انسانیت کی باتیں کرنا ہذیان بکنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

ہمیں جہالت سے زیادہ اس شدت اور غصے کا سامنا ہے جو اس جہالت کی بنیادی وجہ بن چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ شدت روز بروز ہمیں جہالت کی اتھاہ  گہرائیوں میں دھکیلتی جارہی ہے۔ہمیں اس شدت اور جنونیت سے جنگ کرنا ہوگی جو ہمارے رویوں میں آچکی ہے۔ یہ شدت اور جنونیت مذہب،قوم پرستی، وطن پرستی اور کسی بھی صورت میں ہوسکتی ہے۔ جب تک ہم اپنے انفرادی رویوں میں جنونیت کا قلع قمع نہیں کریں گے جہالت بڑھتی رہے گی اورسنسنی خیز خبروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply