کرونا اور ہمارے سماجی روئیے۔۔کوثر عروب

کرونا محض ایک وبا نہیں یہ ایک بحران ہے۔تاریخ انسانی کے بد ترین بحرانوں میں سے ایک بحران، جس کی لپیٹ سے نہ ہمارا معاش بچ سکا، نہ اخلاق اور نہ ہی سماج۔یہ وبا ہمارے جسموں میں داخل ہو کر صرف ہمارے پھیپھڑے ہی تباہ نہیں کر رہی بلکہ ہمارے دلوں کو بھی بیمار کر رہی ہے۔بے حسی کا خول جو اس بحران کے نتیجے میں ہمارے دلوں پر چڑھ چکا ہے اس خول کے اندر ہمدردی اور انسانیت کے تمام جذبے دم توڑ چکے ہیں۔اگر کچھ زندہ ہے تو وہ ہوس اور لالچ ہے۔ مرتے ہوئے انسانوں کی آخری سانسوں تک سے منافع حاصل کرنے کی سعی ہے۔اس وباء کے پھوٹنے کے بعد جس قسم کے حواس باختہ اور اخلاق باختہ  روئیے سامنے آئے ہیں، میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ تاریخ انسانی ان کے مشاہدے پہ لرز کر رہ گئی ہو گی ۔

راشن کی تقسیم کے نام پر عورتوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی، ماسک کی قیمتوں کا دگنا ہونا اور ان کی ذخیرہ اندوزی۔جان بچانے والی ادویات کی دگنے داموں   فروخت،اور کرونا کے علاج کے لیے تجویز کردہ ہر دوا کا فارمیسیز سے اس طرح غائب ہو جانا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔اسی طرح پلازمہ کے طریقہ علاج کی تجویز کے بعد صحت یاب ہو جانے والے مریضوں کا با قاعدہ اس کی فروخت کا سلسلہ,یعنی عام حالات میں جو خون ہم فی سبیل اللّٰہ دے دیا کرتے تھے آج جب ہمیں پتہ چلا کہ ہم اس خون کو لوگوں کی مجبوریوں کے عوض بیچ سکتے ہیں تو ہم نے اس خون کی قیمت تک لینے سے بھی گریز نہیں کیا۔وینٹی لیٹر جو کے کرونا کے مریض کے لیے زندگی کی آخری امید ہوتا ہے اس کو بھی بلیک مارکیٹ کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔جوں جوں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وینٹی لیٹرز کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے لیکن وینٹی لیٹرز بھی اول تو دستیاب ہی نہیں ہیں اور جو ہیں وہ عام قیمت سے دگنی تگنی قیمت میں فروخت ہو رہے ہیں۔

یہی حال ہسپتالوں میں بھی ہے۔نجی ہسپتال مریضوں کو سہولیات تو فراہم کر رہے ہیں لیکن ان سہولیات کے عوض وہ ان سے ان کی عمر بھر کی جمع پونجی طلب کر رہے ہیں۔اور سرکاری ہسپتالوں کی تو خیر کیا کہیے وہاں کی بدانتظامی تو صحت مند شخص کو کرونا کے مرض کا شکار کر دے۔

کرونا نہ صرف انسانی جسموں کو بیکار کر رہا ہے بلکہ اس نے انسان کی نفسیات کو بھی بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔ایک اَن دیکھے وائرس کے خوف نے لوگوں کو ڈپریشن اور انزائٹی جیسے امراض میں مبتلا کر دیا ہے۔لوگوں کے ذہنوں میں اس بیماری کو لے کر بہت سے خوف اور خدشات ہیں اور ان خدشات کے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر یہ خوف نفسیاتی الجھنوں کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ کرونا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔جس نے ہر قسم کا سماجی اور معاشرتی میل جول ختم کر دیا۔لوگ اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے۔وبا کے پھیلاؤ کے خوف نے لوگوں کو اپنے پیاروں سے ملنے سے روک رکھا ہے۔انسان جس کا دوسرا نام معاشرتی حیوان ہے اس نظر بندی کی کیفیت سے شدید پریشان ہے۔وہ وقت اور قوت جو وہ روزگار کی تگ ودو میں لگاتا تھا اب اسے اس کا کوئی مصرف نظر نہیں آ رہا۔یہ بے مقصد توانائیاں اب منفی سمت میں استعمال ہونے لگی ہیں۔گھریلو تشدد کے واقعات کی شرح پریشان کن حد تک بڑھ چکی ہے۔

اب پچھلے دنوں بلوچستان کی تحصیل برشور میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے جسم میں کیلیں ٹھونک کر اسے قتل کر دیا۔یہ تو ایک وہ واقعہ ہے جو میرے دماغ کو چپک کر رہ گیا اور میں نے یہاں بیان کیا،لاک ڈاؤن کے بعد سے ایسے سینکڑوں واقعات ہماری بصارتوں اور سماعتوں سے گزرتے ہیں۔اسی طرح لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد سے طلاقوں کی شرح میں بھی فکر انگیز حد تک اضافہ ہوا ہے۔ایسا معاشرہ جہاں برداشت اور رواداری کا مادہ برائے نام رہ گیا ہے۔اور حالات یہ ہیں کہ کئی کئی دن گھر کا چولہا نہیں جل رہا اور  بھوک اور ذہنی انتشار کا یہی نتیجہ نکلے گا کہ اپنے ارد گرد موجود ہر روٹی طلب کرتے شخص سے جان چھڑا لی جائے۔تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سماجی فاصلوں اور لاک ڈاؤن کے نفاذ سے خود کشی سے ہونے والی شرح اموات میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔تنہائی اور اکیلے پن نے لوگوں کو ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے اور مناسب کاونسلنگ کی عدم دستیابی کی اپنوں سے دوری اور تنہائی کی وجہ سے یہ ڈپریشن لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے۔ابھی پچھلے دنوں معروف بھارتی اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی خود کشی تنہائی اور ڈپریشن کے جان لیوا اثرات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اسی طرح کرونا سے متاثرہ مریضوں سے ہمارا غیر انسانی رویہ ان کو اپنی جانیں لینے پر مجبور کر رہا ہے۔اس کی ایک مثال کراچی کے پچیس سالہ جوان لڑکے کی خود کشی ہے۔وائرس کی تصدیق کے بعد اس کے گھر والے اس سے بالکل لا تعلق ہو گئے اور کوئی تسلی تشفی دینے کی بجائے اس کو کہنے لگے کے تم گھر کے اوپر والی منزل پر منتقل ہو جاؤ۔بحیثیت ایک جوان اور تندرست انسان وہ شاید کرونا سے تو زندگی کی بازی جیت جاتا لیکن اپنوں کی لا تعلقی نے اسے اس قدر دل برداشتہ کیا کہ اس نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے لی۔اور کل تک جو لوگ اسے اچھوت سمجھ کر اس کے قریب نہیں آ رہے تھے آج اس کی موت کا تماشا دیکھنے کے لیئے ریسکیو1122 کی گاڑی کے اردگرد کھڑے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لہذا یہود ونصاریٰ کی اس سازش سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف احتیاطی تدابیر اختیار کریں،حکومت کے احکامات پر عمل کریں بلکہ اپنے رب اور دین کی سکھائی گئی انسانیت پر مبنی تعلیمات پر بھی عمل کریں۔اپنے دلوں سے لالچ،حوس اور خودغرضی کے خول کو اتار پھینکیں۔یقین جانیے وہ نماز جو آپ کسی کا حق مار کے کسی کو تکلیف میں ڈال کر اور کسی کو لوٹ کر ادا کریں گے وہ کبھی آپ کو جہنم سے نہیں بچا سکے گی کیونکہ میرا اللّٰہ شاید اپنے حقوق تو معاف کردے لیکن اپنے بندوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں اور ان سے زیادتی کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گا۔اگر آج میں اور آپ تندرست ہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ وبا ہمیں کبھی نہیں لگ سکتی اور تڑپتی سسکتی موت ہمار مقدر نہیں ہو سکتی-بلکہ یہ مہلت تو ایک موقع ہے اس رحمان رب کی طرف سے اس کے لاچار بندوں کے کام آنے اور ان کی دعائیں سمیٹنے کا۔

Facebook Comments

Kausar Aroob
معاشرے کے دن رات بدلتے رنگوں سے کچھ رنگ چرا کر انھیں الفاظ کا روپ دیتی ایک لکھاری۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply