ہم اور گستاخانہ خاکے۔۔فاخرہ گُل

دنیا بھر میں کسی بھی انسان کو اشتعال دلانے کا سب سے آسان طریقہ اسکے والدین یا مذہب کے بارے میں غلط گفتگو کرنا ہے، کیونکہ یہی دو ایسے حساس موضوعات ہیں جن پر کوئی انتہائی ٹھنڈے مزاج کا انسان بھی طیش میں آ سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مجموعی آبادی کے پانچویں حصے سے تعلق رکھنے والے ۱ ارب ۸۰ کروڑ مسلمانوں کی دل آزادی کے لیے ہمیشہ مذہب کا استعمال کیا گیا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی متنازعہ فلم “فتنہ” کے ہدایتکار اور سیاستدان ملعون ‘گیرٹ ولڈرز’ کی جانب سے ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں نبی اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد کروانے کا اعلان بھی تھا ،جو 14 جون 2018 کو ہالینڈ کی قومی سلامتی اور محکمہ انسدادِ دہشت گردی کی اجازت سے ہوا۔

چند برس پہلے اسی طرز کے فعلِ قبیح کے بعد ڈنمارک کے جریدے جیلانڈ پوسٹن کے ایڈیٹر فلیمنگ روز نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد اپنے مضمون “میں نے محمد(ﷺ) کے خاکے کیوں شائع کیے “ میں لکھا:

“میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو آزادی ء اظہار کے وہ تمام حقوق حاصل ہوں جو دوسروں کو حاصل ہیں۔ انہیں تو میرا مشکور ہونا چاہیے کہ میں ان سے کچھ لینا نہیں، انہیں کچھ دینا چاہتا ہوں، یعنی وہ حق جس میں وہ جو چاہیں کہہ سکیں۔ میرے لیے یہ اہم ہے کہ میں ایک خوفزدہ معاشرے کے مقابلے میں آزاد معاشرے کے لئے آواز بلند کرتا رہوں۔جو لوگ سمجھتے ہیں کہ محمد ؐکے خاکے بنانا آزادی اظہارنہیں، توہین مذہب ہے وہ اپنے تقدس کو دوسروں پہ تھوپ رہے ہیں جو کہ سیکولر جمہوریت کی نفی ہوگی۔ حقیقی جمہوریت وہی ہے جہاں کچھ بھی مقدس نہ ہو، اور تمام موضوعات اور سربراہان پر لکھا اور بات کی جائے”۔

اور پھر بات صرف 2018 تک ہی نہیں رُکی بلکہ اب 2020 میں فرانس کی طرف سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے ذریعے مسلمانوں کے صبر کو آزمایا جا رہا ہے۔

جہاں اسکول میں ایک استاد کی طرف سے بارہا یہ گستاخانہ خاکے نہ صرف کلاس میں دکھائے گئے بلکہ طالب علموں سے ان خاکوں پر بحث بھی کروائی گئی جس پر ایک اٹھارہ سالہ چیچن طالب علم نے خنجر کے وار سے استاد کو قتل کر دیا اور بعد ازاں پولیس نے اُسے بھی موقع  پر فائر کر کے شہید کر دیا۔

اب اُس اُستاد سے اظہارِ یکجہتی اور نام نہاد آزادی ء اظہار کی حمایت میں یہ گستاخانہ خاکے دو روز قبل فرانس کی سرکاری عمارات پر آویزاں کرکے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا گیا، اور بات صرف اتنی نہیں بلکہ فرانس کے صدر نے گستاخانہ خاکوں کی مذمت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میگزین کا اپنا فیصلہ ہے۔ اور اسلام تو خود ایک بحران میں گھرا ہوا مذہب ہے انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مسمان فرانس میں علیحدگی پسند جذبات بھڑکانا چاہتے ہیں۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان خیالات کا تعلق کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کےلیے صرف کائنات کی مقدس ترین ہستی تک رہا۔۔ یعنی آزادی اظہار کیا صرف محبوبِ خدا ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کا نام ہے؟

اگر نہیں تو بتایا جائے کہ کیا کبھی اسرائیلی وزیراعظم نے  فلسطینی بچوں کو مارنے کے مناظر کا کارٹون بنایا؟؟
شامی مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم کی ترجمانی کی ؟؟
برما میں زندہ جلائے اور ذبح کئے جانے والے مسلمانوں کےلیے آواز اٹھائی ؟؟
کشمیر میں حاملہ خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹنے پر کبھی کسی کی طرف سے بھارتی حکومت کےلیے کوئی مذمتی الفاظ ہی لکھے گئے ؟؟
چین میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و بربریت کے خلاف کبھی کوئی بولا ؟؟؟

نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا کیونکہ بقول انکے یہ سب کرنا نسل پرستی کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔۔ یعنی اس حد تک دہرا معیار کہ جسکی مثال ملنا مشکل ہے، اور پھر اپنی نوعیت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں،2004 سے لگاتا ہر سال 2018  تک  یہی حرکات کی جاتی رہی ہیں، تو سوچنا یہ ہے کہ اب 2020میں جبکہ سوشل میڈیا اکثریت کی رسائی میں ہے تو ہم ایک طاقت بن کر ان گستاخانہ خاکوں کے خلاف کیا کر سکتے ہیں جن سے اس شیطانی حرکت کے خلاف “مزاحمت” کی جا سکے ؟

دھیان رہے کہ اس معاملے میں حکومت ،میڈیا یا کسی بھی تیسرے فرد کی طرف دیکھنے کے بجائے خود مجھے اور آپکو آواز بلند کرنی ہے، کیونکہ پاکستانی وزیرِ اعظم نے سرکاری سطح پر بھرپور مذمت کا اظہار تو کیا ہے لیکن شاید اتنا کافی نہیں ہے ہمیں مطالبہ کرنا چاہیے کہ فرانس کے سفیر کو واپس بھیجا جائے۔

فرانس کے سفیر کو فرانس نے تُرکی سے صرف اس لیے واپس بلا لیاہے کہ ترکی نے فرانس کے صدر کو اسلام مخالف بیان دینے پر دو ٹوک جواب دیا تھا جو اُنہیں اپنی توہین لگا۔ ایسے میں ہمیں بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی پر اُنکے سفیر کو واپس بھیج کر بھرپور احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے۔

کیونکہ ذرا سوچیئے کہ اگر قیامت کے روز سوال ہوا کہ “جب تمہاری موجودگی میں اللہ کے حبیب حضرت محمد ﷺ کے انتہائی غلیظ خاکے بنائے گئے تو تم نے اس معاملے میں کیا کردار ادا کیا؟”

تب جواب کیا یہ ہوگا کہ “اُس وقت تو سوشل میڈیا پر اشعار پوسٹ کیے جا رہے تھے، سیاست پر بات ہو رہی تھی ، مختلف جماعتوں کے جلسے اور عوامی مسائل زیرِ بحث تھے یا یہ کہ اس معاملے میں تو حکومت ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو کردار ادا کرنا چاہیے تھا جو انہوں نے جتنا کیا سو کیا۔”
یعنی کیا خدا صرف حکومت اور میڈیا مالکان کا تھا ؟ کیا نبی اکرم ﷺ سے محبت کے ہر دعویدار کےلیے یہ شرم کا مقام نہیں کہ اُنکی آنکھوں کے سامنے یہ گھٹیا حرکتیں ہوتی رہیں اور وہ محض افسوس کے علاوہ کچھ نہ کر سکے ؟”

ایسے میں خود سے یہ سوال کیجیے کہ ہم اس معاملے میں کیا کر سکتے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ مت بھولیے کہ ہمیں گھر بیٹھے جہاد میں حصہ لینے کا موقع  مل رہا ہے ،اس لیے تمام مصروفیات ترک کر کے جہاد بالقلم کا حصہ بنیں، اس شیطانی مہم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں یہ ہی وقت ہے کہ جب سوشل میڈیا کو صرف تفریح اور وقت گزاری کےلیے استعمال کرنے کے بجائے اپنی آخرت سنوارنے کے لیے استعمال کیا جائے، کیونکہ ہم تو آج ہیں کل شاید نہ بھی رہیں، لیکن کسے معلوم گستاخانہ خاکوں کے خلاف ہماری یہ چھوٹی سی کوشش ، ہمارے یہ چند الفاظ ہی ہمارے لئے توشئہ آخرت بن جائیں اور حساب کتاب کے وقت ہم سر جھکا کر رب العزت کے سامنے عاجزی سے کہہ سکیں کہ
“اے پروردگار، جب دنیا میں چند نا فرمان اور سرکش لوگ تیرے محبوب حضرت محمد ﷺ کی بے ادبی کرنے پر اتر آئے تب میں نے اپنی استطاعت اور اوقات کے مطابق تیرے محبوب ﷺ کی حُرمت کےلیےجو بن پڑا ،وہ کیا۔ اے خدا ، تو اپنے محبوب ﷺ کے صدقے میری ان ادنٰی  کوششوں کو قبول فرما لے۔ بیشک تو قطرے کے بدلے سمندر عطا کر دینے پر قادر ہے ۔”
اللہ ہم سب کا مددگار ہو!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply