آٹزم اور شادی/خطیب احمد

تحقیقات بتاتی ہیں کہ ACTL6B نامی جین کی میوٹیشن آٹزم، مرگی اور تقریباً تمام اقسام کی دانشورانہ پسماندگی Intellectual disability کی وجہ بنتی ہے۔ جنیٹک انجینئرنگ نے ابھی اتنی ترقی دنیا کے کسی کونے میں بھی نہیں کی کہ اس معلوم شدہ جینیاتی مرض کو درست کرکے والدین سے اگلی نسل میں منتقل ہونے سے روکا جا سکے۔

اب ایشیاء میں غلطی یہاں ہوتی کہ جب اوپر بیان کردہ تینوں کنڈیشنر معلوم بھی ہو چکی ہیں، تو مانا ہی نہیں جاتا۔ پڑھے لکھے والدین ایسے بچوں کو قبول کرتے ہیں اَن پڑھ کہتے ہیں ہمارے بچے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ اپنی من مرضی سے اسے بھوت پریت یا کسی اور وجہ سے جوڑ کر ساری عمر علاج کے نام پر دم درود تعویز گنڈے کروانے کو در در کی ٹھوکریں کھاتے رہتے۔ اور پھر ایسے افراد کی معذوری چھپا کر یا کم بتا کر شادیاں کرنے کی کوشش کی جاتی  اور وہ کوشش کامیاب بھی ہو جاتی۔

ان تینوں اقسام میں والدین کے پاس تو متاثرہ جین ہوتا ہے۔ جس کے اگلی نسل میں ٹرانسفر ہونے کے چانس 50 فیصد سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ یعنی دو میں سے ایک بچہ اسی کنڈیشن کے ساتھ پیدا ہوگا۔ اور جہاں بھی شادیاں ہوئی ہیں بالکل ایسا ہی ہوا بھی ہے۔ آپ بے شمار مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔

جن کا ایک ہی بیٹا ہوتا وہ یہ کہہ کر اسکی شادی کرتے کہ ہماری نسل نہ ختم ہو جائے۔ اور کچھ ایسے مرد جن کی غربت یا کسی اور وجہ سے شادی نہ ہو رہی ہو ،وہ ان تینوں کنڈیشنز سے کم درجے کی متاثرہ لڑکی سے شادی کر لیتے ہیں  کہ اولاد ہوجائے گی اور اگلی نسل میں معذوری ٹرانسفر ہو جاتی۔ ہاں مرگی سے متاثرہ لڑکی کے ماں بننے کے چانسز بہت کم ہوتے ہیں اگر وہ ریگولر دوا کھا رہی ہے۔ ظاہر ہے دوا چھوڑے گی تو پھر دورے پڑیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

شادی ہو اور اولاد پیدا نہ کی جائے تو ان میں سے کم درجے یعنی معمولی معذوری کے  حامل افراد کی شادی کرنے میں حرج نہیں ہے۔ مگر یہاں تو شادی کرنے کا پہلا مقصد کی اولاد ہوتا ہے اور کوئی بھی وجہ ان افراد کی شادی کے لیے نہیں ہوتی۔ تو شادیاں کرنا ان افراد کو اور خود کو مزید مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ شادیوں سے پرہیز ہی کریں۔ ان افراد کو اپنی کیئر کرنا اور خود کو سنبھالنا یا اگر ممکن ہو تو مالی طور پر خود مختار کرنا سکھایا جائے۔ تاکہ اپنی زندگی بغیر کسی سہارے کے گزار سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply