ہمارے بہت ہی محترم جناب فاروقی صاحب نے کچھ دن پہلے اپنی پوسٹ میں یہ انکشاف کیا کہ امریکہ کو ڈبل کراس کر کے پاکستان نے امریکہ کو شکست دے دی ہے۔ پاکستان اب ایک فتحیاب ملک ہے۔ اور امریکہ ایک شکست خوردہ۔ (انہوں نے لفظ “بج گئی” اور بینڈ بجا دی” کا استعمال کیا تھا)۔ انہوں نے اس بیانیے کی وضاحت کی جو اسلامسٹ نے پچھلے اٹھارہ سال سے اپنایا ہوا ہے۔
ہم نے جواب میں ان سے کچھ سوالات پوچھے۔
کہ کیا واقعی امریکہ کو ڈبل کراس کرنے کے بعد اس کی بج گئی تھی؟
کیا وہ اب سُپر پاور کی بجاۓ بھیک منگا ہے؟
کیا اس کی بجانے کے بعد ہم سپر پاور بن گے؟
اس کے بجانے کے عمل کے دوران ہمارے تو ساٹھ ہزار بندے مر گئے ، لاکھوں کے قریب اپاہج ہو گئے۔ جتنے فوجی چار جنگوں میں نہیں مرے اس سے زیادہ مریکہ کی بجانے میں مر گئے۔ہمارے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہماری انڈسٹری تباہ ہو گئی ، ہمارا نہ صرف سرمایا بلکہ برین ڈرین بھی ہو گیا۔ ایک کلو واٹ بجلی تک کے ہم محتاج ہو گئے۔ ہمارے پاس تو قرضے کی ایک قسط دینے کے لیے پیسے نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اب امریکہ کا کتنا جانی اور مالی نقصان ہوا، اس بجانے میں؟ کیا اس بجانے میں اب افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بن گیا ؟ کیا امریکہ افغانستان سے چلا گیا؟ کیا اب وہاں پر پاکستان دوست حکومت ہے اس بجانے کی وجہ سے؟ افغانستان کی کرنسی اس وقت 69 ہے ایک ڈالر کے مقابلے میں۔ ہماری 111. اور امریکہ کی کرنسی اُسی طرح مضبوط ۔ اس بجانے میں امریکہ کے کتنے بچے بے دردی سے ذبح ہوۓ؟ کتنی امریکی ماوں نے اپنے بچے کھوئے؟
انہوں نے بجاۓ جواب دینے کے ہمیں احمق کے خطاب سے نوازا۔ وہ ہمارے بزرگ ہیں، اپنے سے چھوٹے کو کسی بھی نام سے پُکاریں، ہم ان کے بزرگ ہونے کے احترام میں کبھی بھی بُرا نہیں مانیں گے۔ مگر جب سوال کیا، تو صرف احمق کہہ دینے سے جواب پورا نہیں ہوتا۔ سوال کا جواب تو ابھی بھی دینا رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوجی قیادت نے کسی ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد اچانک یہ طے نہیں کیا کہ امریکہ کی بجاتے ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ابھی امریکہ نے حملہ نہیں کیا تھا اورحملہ سے پہلے امریکہ نے پاکستان کی فوجی قیادت کے ذریعے یہ پیغام طالبان کودیا کہ اسامہ کو ملک بدر کر دو تو ہمارا تم سے کوئی جھگڑا نہیں۔ ستمبر سولہ 2001 کو جنرل محمود کی قیادت میں ایک وفد بھیجا گیا۔ جس میں مفتی شامزئی ، بنوری ٹاؤن، کراچی کے بھی شامل تھے۔ بجاۓ اس کے کہ اصل پیغام دیا جاتا، ملا عمر کو مفتی شامزئی کے ذریعے کہا گیا کہ امریکہ کو آنے دو، ہم اس کے ساتھ جنگ کریں گے اور اس کو روس کی طرح شکست دیں گے۔ (حسن عباس کی کتاب) تو بہت ہی محترم فاروقی صاحب، امریکہ کی بجانے کا فیصلہ اس کے آنے سے پہلے ہی طے کر لیا گیا تھا، مضرت کا سوچے سمجھے بغیر۔
ہمارے محترم فاروقی صاحب نے لکھا کہ پاکستان کا ہدف صرف امریکہ کی بجانی تھا۔ جبکہ امریکہ کا ہدف افغانستان پر قبضہ تھا۔ اس میں اگر پاکستان کا کوئی معمولی نقصان بھی ہوا تو یہ کوئی بُرا سودا نہیں ہے۔بہت احترام اور بہت عاجزی کے ساتھ اپنے بڑے بھائی سے یہ کہنا ہے کہ ہم دل اور دماغ سے سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔اور اس عمل میں پہلے اپنوں کے تحفظ کا خیال رکھتے ہیں۔ ہم روبوٹ نہیں کہ ہدف ملا اور اس پر عمل شروع اور ہدف کی تکمیل کے رستہ میں اپنے ہی ماں ، بہن بچے، باپ کو مارا جائے۔ ان کو کچلا جاۓ۔ یہ صرف جذبات سے عاری روبوٹ کرتے ہیں جن کے نہ کوئی ماں ہوتی ہے نہ کوئی بہن اور نہ کو ئی اولاد۔ اور یا پھر انسانوں میں ہٹلر کہ اپنے ہدف کی تکمیل میں پوری دنیا کو جنگ میں جھونک دیا۔ یا پھر تمو جن، کہ اپنے ہدف کی تکمیل میں کھوپڑیوں کے مینار بنا ڈالے یا پھر یزید کہ اپنے ہدف کی تکمیل میں رسول کی اولاد کو بھی قتل کردیا۔ یا پھر ہم کہ اپنوں کو بے دردی سے قتل کروا دیا اور ملک تباہ کروا دیا۔
انہوں نے لکھا کہ اس ڈبل گیم میں ہم نے اپنے ایٹم بم کو بچا لیا۔ ان سے بہت ادب اور احترام سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا ایک ایٹم بم پاکستانی عوام کی جان سے زیادہ قیمتی ہے؟ کیا یہ بم نے اس لیے بنایا گیا تھا کہ پاکستانی عوام کی حفاظت کرے یا پھر یہ اس لیے بنایا گیا ہے کہ ہم اس بم کی حفاظت کریں؟ یہ ہمارے لیے بنا ہے یا ہم اس بم کے لیے بنے ہیں؟
ہمارے بڑے بھائی اور تمام اسلامسٹ اصل میں composition fallacy کے شکار ہیں۔ اس کے مریض اکثر اس برہان کے شکار ہوتے ہیں جس میں ایسے اِستدلال کا سہارا لیا جاۓ، جس کے نتیجے کا دارومدار مکمل یا جزوی طور پرغلط حقائق پر ہو۔ اس کے مریض ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو خیالی دنیا انہوں نے بسائی ہے، وہ سب سے افضل ہے۔ مثال کے طور پر یہ سمجھنا کہ گاڑی کا ٹائر ربڑ کا بنا ہوا ہے، اس لیے پوری گاڑی ربڑ کی بنی ہوئی ہے۔ یا اگر کسی ایک تماشائی کو کھڑے ہو کر کرکٹ کا میچ صاف نظر آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام تماش بین کو کھڑے ہو کر میچ دیکھنا چاہیے کہ اس سے میچ صاف دیکھا جائے گا۔ اسی تناظر میں اسلامسٹ نے بھی یہ سمجھ لیا کہ چونکہ ہم نے اس امریکہ جنگ میں اس کو اس کا ہدف پورا نہیں ہونے دیا اس لیے ہم جیت گئے۔ چاہیے اس جنگ میں امریکہ کو ایک خراش بھی نہ آئی اور ہمارا پورا جسم جل گیا۔ ہم تباہ ہوگئے ۔ برباد ہو گئے، مگر ہم جیت گئے۔ اور امریکہ جس کا بال بھی بیکا نہ ہوا مگر وہ ہار گیا۔ کیا بات ہے اس پوچ خیالی کی۔
بڑے بھائی محترم فاروقی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ہم ڈبل گیم نہ کھیلتے تو امریکہ نے ہمارے ملک پر قبضہ کر لینا تھا۔ ہمیں تباہ کر دیتا۔ اس کو کہتے ہیں hypothises contrary to fact. مثال اس کی یوں ہے کہ اگر ہم کارگل کا قبضہ نہ چھوڑتے تو کشمیر ہمارا تھا۔ اگر افریدی آوٹ نہ ہوتا تو ہم ورلڈ کپ جیت جاتے۔ یہ تمام مفروضات ہوتے ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح کا ایک مفروضہ ہماری قیادت نے 2001 میں بھی سوچا کہ بس اب ہماری باری ہے اور اگر امریکہ نے ہم پر حملہ کر دیا تو ہم برباد ہو جایں گے۔ اسی مفروضہ کو بنیاد بناتے ہوۓ ملک کی قیادت نے ڈبل گیم کھیلی۔ اب بڑے بھائی سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا جس مفروضہ کے تحت اپ نے ڈبل گیم کھیلی، کیا پاکستان خاک اور خون کی اس جنگ سے بچ گیا؟ اور کیا ہم آج ایک ترقی یافتہ قوم ہیں؟ کیا امریکہ کا قبضہ ختم ہو گیا، افغانستان پر سے؟
بہت ادب کے ساتھ بڑے بھائی کی یہ غلط فہمی دور کرنی ہے کہ جو قومیں تبائی پھیلانے کے ہتھیاروں میں اپنی سلامتی ڈھونڈتی ہیں وہ اتہاس سے ناواقف ہوتی ہیں۔ قوموں کی سلامتی ہتھاروں میں نہیں بلکہ اپنی عوام میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ جس ملک کی عوام مُرفَّہُ الحال ہو، اس کو تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر ہوں، وہ قومیں طاقت ور ہوتی ہے۔ آجکل لڑائی جنگ کے میدانوں میں نہیں بلکہ تعلیم اور سائنس کے میدانوں میں لڑی جاتی ہے۔ قوم ایٹم بم بنانے اور کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے سے محفوظ نہیں ہوتی بلکہ اپنی قوم کی غربت، جاہلیت، بیماری، ناخواندگی دور کرنے سے محفوظ ہوتی ہے۔ ہمارے تحفظ کی ضمانت توپ اور بندوق نہیں ہے، بلکہ اپنی قوم کو فکراور تخلیق کی آزادی دینے میں ہے۔ملک کا تحفظ اپنی عوام کو روٹی، بجلی اور رہائش دینے میں ہے۔ مگر افسوس شاید اسلامسٹ کو زمین چاہیے، لوگ نہیں۔ ان کے خیال میں زمین کی حفاظت کرنی ہے، لوگوں کی نہیں۔ اور اس زمین کی حفاظت میں اگر چند لاکھ بے گناہ لوگ مر بھی جائیں تو فکر کی کوئی بات نہیں کہ ہدف پورا ہونا چاہیے۔ ماوں کی کوکھ اجڑ جاۓ پروا نہیں، مگر زمین کے ایک ٹکڑے پر آنچ نہیں انی چاہیے۔ بچے یتیم ہو جائیں، سڑکوں پر رُل جائیں، پروا نہیں، مگر اگر کسی نے زمین کے ایک اِنچ کی طرف بھی انکھ اُٹھا کر دیکھا تو انکھ نکال دیں گے۔ بس یہ ہی فرق ہے اسلامسٹ میں اور مثبت سوچ رکھنے والوں میں۔ اسلامسٹ جنگ کے ذریعے ملک کو بچانا چاہتے ہیں اور ہم امن، تعلیم، صحت اور روزگار کے زریعے۔ اسلامسٹ کا بیانہ جنگ کا ہے، نفرت کا ہے۔ جبکہ ہمارا بیانہ محبت کا، امن کا، صحت کا، تعلیم کا اورروزگار کا۔
ہمارے محترم بڑے بھائی نے لکھا کہ ہم امریکہ کے ذہنی غلام ہیں، بھائی ادب کے ساتھ ہم پوری دنیا اس غلامی کا اقرار کرتے ہیں، مگر پوچھنا یہ ہے کہ غلام کی توضیح کیا ہے؟ ہمارا نوے فیصد اسلحه امریکہ کا دیا ہوا ہے، ستر سال سے ہم امریکہ کے ڈالروں پر پل رہے ہیں۔ حتیٰ کہ گندم تک وہ ہمیں بھیک میں دے چکا ہے۔ ساری ٹیکنالوجی امریکہ کی ہے، یہ اپ جس فیس بک پر لکھتے ہیں، وہ امریکہ کا ہے، یہ اپ جس فون یا کمپیوٹر پر لکھتے ہیں، وہ امریکہ کا ہے، یہ بجلی جس کی روشنی میں آپ لکھ رہے ہیں، وہ امریکہ کی ٹیکنالوجی کی دین ہے۔ جس سواری پر آپ سفر کرتے ہیں، وہ امریکہ کی دین ہے۔ اپ کے گھر کی ایک ایک چیز امریکہ کی ٹیکنالوجی کی دین ہے۔ وہ صرف انٹرنیٹ کا سوئچ آف کر دے تو پورا ملک پتھر کے زمانے میں چلا جائے۔ قرضے کی ایک قسط آپ امریکہ کے تعاون کے بغیر نہیں دے سکتے۔ وہ فساد جس کو آپ جہاد کا نام دیتے ہیں، اور جو آپ نے رشیا کے خلاف لڑا، وہ ڈالرز امریکہ نے منشیات اور بلیو فلمز سے کما کر آپ کو دیے۔ جس اسلحه سے آپ نے وہ فساد لڑا وہ تمام کا تمام امریکہ کا تھا۔ اب جب ڈالر ملنا بند ہوۓ تو اچانک خیال آیا کہ ہم ایک خوددار قوم ہیں، اور ہم ایک ذہنی غلام نہیں ہیں۔ اب غلامی کی اور کیا تشریح ہوتی ہے، یہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ شاید پورے پاکستان میں اسلامسٹ ہی سرد و گرمِ زمانہ چشیدہ ہیں جن کی حکمت کو سمجھنے میں ہم نا سمجھ سمجھنے سے محروم ہیں۔ یا اس اکڑ کے پیچھے پھر سے امریکہ کو فرمائش ہے کہ بقول نور جہاں “مینو ڈالر وکھا میرا موڈ بنے.”
اسی غلامی کے تناظُر میں بڑے بھائی نے اپنے چھوٹے بھائی کو کچھ نامناسب الفاظ سے بھی نوازا جن کا جواب دینے سے ہم دامن بدنداں ہیں کہ ہماری پختونخوا کی روایات میں بڑے کی عزت کرنا ہے نہ کہ بے آبروئی۔ چاہیے ہمیں ہی نقصان اُٹھانا پڑے۔ ہم جوتیاں کھانے کے لیے تیار ہیں مگر اپنے بڑے بھائی کا اَپمان کرنے سے بہتر ہے کہ بندہ شرم سے مر جاۓ۔ یہ ہیں ہماری پختون خوا کی روایات جو ہمیں دھویا دیدہ بننے نہیں دیتیں ۔
اپنے محترم بڑے بھائی کو 2014 کا ایک واقعہ اسی امریکہ کو بجانے کے تناظر میں سناتے ہیں۔فہد اپنے والدین کا اکلوتا بچہ تھا۔ جو شادی کے کافی عرصے بعد منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوا۔ وہ پورے خاندان کی آنکھ کا تارہ تھا۔ جب سے فہد نے اسکول جانا شروع کیا تھا۔ تب سے اس کی ماں روز صبح اسے چھوڑنے آتی، اس وقت تک گیٹ کے باہر انتظار میں بیٹھی رہتی۔ جب تک اس کی کلاس نہ شروع ہو جائے۔ اسے لینے وہ چھٹی کے وقت سے کہیں پہلے پہنچ جاتی تھی کہ کہیں وہ کھو نہ جاۓ۔۔
دسمبر سولہ 2014 وہ منحوس دن تھا، جب فہد کی ماں نے اپنے بچے کو آخری بار سکول کے اندر کر کے الودع کیا۔ اور ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ اس دن کو لے کر وہ ہر روز مرنے لگی، جینے لگی۔ اس ماں نے اپنے بیٹے کی موت کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس نے ہر روز سکول آنا اور ایک خیالی بیٹے کوسکول چھوڑنا، مگر جب چُھٹی ٹائم بیٹا نہیں ملتا تھا تو زور زور سے چیخیں مارتی تھی۔ روتی تھی، اپنے آپ کو پیٹتی تھی۔ بہت مشکل سے اسے واپس گھر لے کر جایا جاتا۔ اب تین سال بعد حالت یہ ہے کہ اسے زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا ہے اور یا پھر نشے کی گولی/انجکشن جس سے یہ اپنے اپ کو بھول جاتی ہے۔( اس مضمون کی تصویر اُسی ماں کی ہے)
بڑے بھائی یعنی فاروقی صاحب کو اوران جیسے تمام اسلامسٹ کو ہم مبارک باد دیتے ہیں کہ آپ کے پاکستان کی زمین بچ گئی ، امریکہ کی آپ نے بجا دی۔ آپ نے اپنے ہداف مکمل کر لیے۔ آپ کو اپنی تزویاتی گہرائی مل گئی۔ مگر ہم پاکستانی قوم تباہ ہو گئے۔ بس اتنا پوچھنا ہے کہ اور کتنا ہمارے بچوں کا خون چاہیے آپ کو اپنے ملک کو ایک ہوائی دشمن سے بچانے کے لیے؟ اور اپنے ہداف پورے کرنے کے لیے؟ اور ڈرتے ڈرتے یہ سوال بھی پوچھنا ہے کہ آخر کب تک؟ آخر ہم کیوں؟ کیا ہمارے پاکستان کی ماؤں کو اتنا بھی حق نہیں کہ وہ بے خوفی سے اپنے بچوں کو سکول بھیج سکیں؟
اس مضمون کو اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، ہم کسی کو بد دعا بھی نہیں دے سکتے کیونکہ ہم خدا کا تقویٰ رکھتے ہیں- ہم یہ نہیں کر سکتے کہ ایک آدمی اگر ہماری ماں بیٹی پر ظلم کرے تو ہم بھی اس کی ماں بیٹی پر ظلم کریں- یہ ظلم کرنے والا بیانہ اسلامسٹ کا ہے، ہمارا نہیں کہ ہم امن پسند قوم ہیں۔
بقول ایک نامعلوم شاعر
اس آگ پہ تم نے کیا لکھ دیا
جس آگ میں سب کچھ راکھ ہوا
میرا مکتب بھی، میرا بستہ بھی
میرے جُگنو بھی میرے تارے بھی
میرے سکول کے ساتھی پیارے بھی
اس آگ پہ تم نے کیا لکھ دیا
جس آگ میں میرا بچہ جل گیا
میرا سہاگ بھی، میرا بابل بھی
اس کرب پہ تم نے کیا لکھ دیا
جس کرب میں جل کر خاک ہوا
میرا روزگاربھی، میرا خواب بھی
میری خوشحالی بھی، میرا مستقبل بھی
اے صاحبِ نظر! اے دیدہ ور!
اس آگ پر تم نے کیا لکھ دیا
کچھ نامناسب الفاظ استعمال کرنے پر معذرت کہ یہ محترم فاروقی صاحب کی تحریر سے نقل کیے گئے ہیں۔ اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل کتابوں سے مدد لی گئی ہے۔
بیانے کی جنگ ۔۔۔ یاسر پیرزادہ
طالبان یا جمہوریت؟ ۔۔۔۔ وجاہت مسعود
Hassan Abbas, book “Pakistan’s Drift into Extremism: Allah, the Army and America’s War on Terror (M E Sharpe, 2005)
“Luke harding” article published in “the guardian” oct 09, 2001
Inside story of mehmood and musharaf by Hassan Abbas
Taliban militant Islam by Ahmed Rashid
Ghost war by steve coll
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”محترم فاروقی صاحب اور اسلامسٹ کا بیانیہ۔۔عامر کاکازئی“