قرطبہ کا قاضی پارٹ ٹو (اسلام آباد)۔۔ذیشان محمود

نوٹ: یہ قطعاً کسی ادارے کے خلاف نہیں۔ بلکہ ایک فطری تقابل کی کوشش ہے۔
عدلیہ عظمیٰ کے قاضی اعلیٰ نے ملک کے خوبرو اور لاڈلا کہلائے جانے والے وزیراعظم کی جانب سے آئین کے قتل کے جرم پر فیصلہ سنایا۔ فریق مخالف کی جانب سے مقدمہ ہذا میں موقف اپنایا گیا کہ یہ آئینی قتل ہے اور مدع علیہ نے اس کی محبوبہ ’کرسی‘ کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔ قاضی اعلیٰ نے عدل کے تقاضے  کے تحت چھٹی کے روز ہی عدالت لگائی اور شنوائی ہوئی۔ مقدمہ چلا اور فیصلہ ہوا کہ ہفتہ آٹھ اپریل سن 2022ء کو ایوانِ زیریں میں سب کے سامنے معاملہ پیش ہو اور کرسی صاحبہ اس کے دعویدار کو دے دی جائے۔

مقررہ تاریخ آئین کے قتل کے جرم میں قاضی اعلیٰ  کی جانب سے سزا کے فیصلہ پر عمل در آمد کے لئے دن بھر محفل سجائی گئی۔ لیکن اس فیصلہ سے مدعا علیہ، اس کے محبین، ہم نوا، وفادار اور ووٹر خوش نہ تھے اور اس پر عمل کرنے کو تیار نہ تھے۔ اس فیصلہ کو بالکراہت تسلیم کرتے ہوئے کھلم کھلا اس کی مخالفت کی اور عدلیہ کو اس کا حدود و اربعہ بتایا گیا۔ بلکہ اس سزا کے خلاف عہدو پیمان لئے گئے اور انہوں نے حتی المقدور کوشش کی کہ یہ وقت ٹل جائے لیکن ایسا نہ ہوا اور وہ وقت آن پہنچا۔

حابسِ بے جا کے حامیوں میں سے کوئی ایک فرد بھی قاضی کے فیصلے پر عمل کو تیار نہ تھا۔ حجتیں تراشی گئیں۔ تاویلات پیش کی گئیں۔ قاضی سے رحم اور نظر ثانی کا کہا گیا۔ لیکن وقت پَر لگا کر اُڑتا گیا۔ ہر کسی کو اس فیصلہ پر عمل سے روکا گیا لیکن عدل کا قیام بھی ضروری تھا۔ آخری ساعتوں میں قاضی اعلیٰ کو خبر دی گئی۔ انہوں نے خود اس فیصلے پر عمل در آمد کرانے کی ٹھانی۔ دفتر کھلوایا۔ عملہ بلوایا۔ گاڑی میں بیٹھ کر اپنے دفتر پہنچ گئے اور وقت پورا ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

ڈارمے کا سیکول ہے اس لئے وقفہ کے طورپر جملہ معترضہ پیش ہے۔

یہاں ہم عنوان کے لحاظ سے بتائیں کہ مورخ جب پاکستان کی حالیہ تاریخ سپرد قرطاس کر رہا تھا تو چینلز پر تمام تر کارروائی سن اور دیکھ کر ہمیں نصاب میں شامل امتیاز علی تاج کا شامل نصاب ڈرامہ یاد آگیا۔ جس کا عنوان ’قرطبہ کا قاضی‘ ہے۔ اردو ادب کے شاہکار اس ڈرامے کو پاکستان کی اُبھرتی یوتھ کے دل و دماغ میں سالوں ایسا راسخ کیا گیا کہ قرطبہ کا قاضی جیسا عادل و منصف شخص نظام عدل میں بطور رول ماڈل ٹھہر گیا۔ ڈرامے کی کہانی واقعی ڈرامائی انداز میں پیش کی گئی تھی۔

کہانی کے مطابق قاضی شہر کا اپنا بیٹا جوش رقابت میں محبوبہ کے عاشق کو قتل کر دیتا ہے اور مقدمہ کے فیصلہ پر جب قاضی اپنے خوبرو اور لاڈلے لخت جگر کو پھانسی کی سزا سناتا ہے تو قرطبہ کے اس چاکلیٹی ہیرو کی سزا کو عملی جامہ پہنانے   سے ہر یک شخص انکار کر دیتا ہے۔ بالآخر قاضی یعنی مجرم کا باپ خود اپنے ہاتھوں سے، اپنی دی گئی سزا کو، اپنا فرض سمجھ کر انجام دیتا ہے اور انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے پورے شہر کو عدل کا درس پڑھا جاتا ہے۔ یہ ڈرامہ نظام عدل کا یوں خلاصہ کئے جانے کے سبب تحت الشعور میں ہر قاضی کا عادلانہ تشخص قائم کئے ہوئے ہے۔

لیکن اس کے برعکس اب اخبارات ، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ ہمارےنظام عدل پر ہر کس و ناکس نےسوالیہ نشان بنا رکھا ہے جس کا اقرار بھی سابقہ چیف جسٹس ہائے سپریم کورٹ اپنے خطابات میں کر چکے ہیں۔ اصل انصاف کا یہ حال ہے کہ مدتوں پڑے کیسز میں عمر قید کے متوفی ملزم یا سگے بھائیوں کو پھانسی دیئے جانے کے سالوں بعد عدالت عظمیٰ سے بری قرار دے دیے گئے۔

ڈرامے کا سیکول ہے کچھ تو نیا ہونا چاہیے تو جناب بریک ختم کر کے پھر ڈرامہ یعنی کہانی شروع کرتے ہیں۔
مقررہ دن ختم ہونے والا تھا۔ لیکن ایوان زیریں کا نگران ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے اور عین وقت پر نوکری سے استعفیٰ دے جاتا ہے۔ اب کہانی میں نیا موڑ آتا ہے کہ اس کارروائی کا قائم مقام نگران اس فریضہ کی ادائیگی پر مسرور ہے کیونکہ اسے اس عہدے کی خواہش تھی۔ قاضی وقت عدل کے قیام پر خوش ہوتے ہیں۔ اور دفتر بند کرا کر چین کی نیند سوجاتے ہیں۔

بعض لوگوں کا یہ سیکول پسند نہ آئے کیونکہ پہلے ڈرامے میں قاضی شہر عدل کے مثالی قیام کے بعد جب لڑکھڑاتی ٹانگوں اور بوجھل دل سے اپنے کمرے کا کواڑ اندر سے چڑھاتا ہے تو پھر وہ کبھی اندر سےنہیں کھلتا۔ لیکن اس سیکول میں ایسا اختتام کیوں نہ ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تو جناب بات یہ ہے کہ وہ خوبرو نوجوان مجرم قرطبہ کے قاضی کا لخت جگر ، خون اور لاڈلا تھا اور عدل کے قیام کے بعد وہ ایک باپ کی حیثیت سے ٹوٹ گیا اور اسے پھر کوئی زندہ نہ دیکھ سکا۔ لیکن اب عدل کا بول بالا رہ جانے کے بعد قاضی اعلیٰ کو پرسکون نیند اس لئے آئی کہ شاید ا ب ملزم اس کا لاڈلا نہ تھا۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply