کتنی مزے کی بات ہے کہ ان سیاستدانوں نے مل کر کیسے عوام کو اصل مدعا(مہنگائی) سے ہٹا کر اپنی تقریریں اور بڑھکیں سننے پر لگایا ہوا ہے۔
ایک کہہ رہا ہے میں تم کو نہیں چھوڑوں گا اور دوسرے فرما رہے ہیں کہ ہم تم کو لےڈوبیں گے ۔ حالانکہ ان کا اصل کام حکومت کرنا اور Govern کرنا تھا عوام کو ریلیف دینا تھا۔ وہ یہ کر نہیں پائے لیکن ایک دوسرے کو بچانے اور ہٹانے کی ایسی چنڈال چوکڑی سجائی ہوئی ہے کہ ہر ایک ہیرو لگ رہا ہے۔ نیازی 4 سالہ حکومت کرنے کے باوجود زیرو پرفارمنس بلکہ عوام کو عذاب میں مبتلا کرنے کے باوجود بھی نوری نتھ کی طرح بڑھکیں مار رہا ہے۔اور دوسرے چور لٹیرے اور بِن پیندے کے لوٹے سیاستدان ادھر اُدھر لُڑک رہے ہیں ،سیاسی چالوں سے عوام سے داد وصول کر رہے ہیں فلاں نے یہ کر دیا تو فلاں نے وہ کر دیا، اس نے اتنے لوٹوں کو توڑ لیا تو اس نے فلاں کی وکٹ اُڑا دی۔ عوامی سیاسی شعور کا یہ حال ہے کہ وہ عذاب میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی ان سیاستدانوں کی تعریفوں کے پُل باندھ رہے ہیں کوئی نیازی کی تعریف کر رہا ہے تو کوئی زرداری کی، تو کوئی نواز شریف کی۔ مطلب عوام کی اکثریت اپنے دکھ بھول کر ان کی تعریفوں پر لگی ہوئی ہے،اور بندر دور بیٹھا ہنس رہا ہے ان بلیوں پر بھی اور عوام پر بھی۔
یہ نئی نسل کا بندر اب صرف بلیوں ہی کی روٹی کو ہڑپ کرنے کے نئے نئے منصوبےنہیں بنا رہا ہے بلکہ اب اس کالالچ اپنی حدوں کو چھو رہاہے ۔ یہ بندر اپنے ابا بندر سے زیادہ چالاک ہے جس طرح ابا بندر نے ان بلیوں کی ماؤں کیلئے روٹی کا کوئی ٹکڑا نہیں چھوڑا تھا سب ہڑپ کر گیا تھا۔ نئی نسل کایہ بندر اب بہت تجربہ کار اور گھا ک ہو چکا ہے اسے اپنی چالاکی اور ہوشیاری پر گھمنڈ ہے۔ وہ اب ان بلیوں کی صرف روٹی ہڑپ نہیں کرنا چاہتا بلکہ اب بلیوں کو آپس میں لڑا لڑا کر بے بس بھی کرنا چاہتا ہے تاکہ کوئی بلی یہ سوال نہ کر پائے کہ اسے کم ملا یا دوسری کو زیادہ۔اب سارا ہڑپ کرنے کا دور بھی گذر چکا ،اب بندر بلیوں کو ساتھ ملا کر سب کچھ ہڑپ کرنا چاہتا ہے لیکن یہ بھی نہیں چاہتا اس کی سرداری اور منصف ہونے پر کوئی بلی یا عوام میں سے کوئی سوال کرے۔
بندر اور بلیاں اب آپس میں ایک ہو چکے ہیں۔ بلکہ بلیاں بندر کی مطیع ہو چکیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ دونوں ایک پیج پر آچکے ہیں اب بندر اور بلیوں کا اصل ٹارگٹ یہ عوام ہے۔ بندروں اور بلیوں کا بدترین سامراج عوام پر مسلط ہو چکا ہے۔ یہ دونوں اب جنگل کا قانون ملک میں رائج کرکے عوام کو بے بس کرنا چاہتے ہیں اور عوام ان بندروں اور بلیوں کی چالاکیوں کی تعریفوں پر لگی ہوئے ہے۔اب خود ہی اندازہ لگا لیجئے قصور کس کا ہے۔ اور آگے کیا ہونے والا ہے؟
بندر اپنی ہمنوا کسی ایک بلی کو تھوڑے چھیچھڑے زیادہ دے کر اور دوسری کو کم دے کر ایک کو ہیرو اور ایک کو مظلوم بنا کر عوام کے سامنے پیش کر دے گا اور عوام ہیرو کی تعریفیں اور مظلوم کا درد دل میں لئے مینڈک کی طرح ٹراتے ٹراتے کچھ عرصہ کیلئے پھر سے خاموش ہو جائے گی اور بندر اور بلیاں آپسی بندر بانٹ میں دوبارہ مشغول۔
اللہ بس باقی ماہوس!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں