عوام تر نوالہ نہیں /ڈاکٹر حفیظ الحسن

میں اس اُصول پر کھڑا ہوں کہ عوام کے ووٹ کو عزت دی جانی چاہیے کہ یہی جمہوری رویہ ہے۔ جمہوریت یہی ہے کہ آپکا مخالف اگر جیت جائے تو اسے قبول کیا جائے کہ عوام یہی چاہتی ہے۔ چاہے مجھے کسی کی فا شسٹ  سیاست پسند ہو یا نہیں تاہم اسکا راستہ اِن بھونڈے طریقوں سے روکنا غیر جمہوری ہے اور اسکا فیصلہ چند سرکاری افسران نہیں کر سکتے۔ 2013 میں بھی جو ہُوا غلط تھا، 2018 میں بھی جو ہُوا غلط ہوا۔ تاہم یہ بات دلچسپ ہے کہ جب لوگ باہر نکل کر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں تو شب خون مارنے والوں کے پسینے ضرور چھوٹتے ہیں۔ اُنہیں یہ معلوم ضرور ہوا ہے کہ عوام ترنوالہ نہیں ،نہ ہی اتنی اندھیر نگری ہے کہ کروڑوں ووٹرز کی رائے کو اتنی آسانی سے بدلا جائے۔

میں بحیثیت عام شہری ہونے کے یہ چاہتا ہوں کہ جو بھی حکومت آئے، پی پی پی اسکا حصہ ہو کیونکہ وہ افہام و تفہیم سے ملک کو 2008 کی طرح آگے لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج بہت سے نئے ووٹر جو اس صدی میں پیدا ہوئے ہیں، نہیں جانتے کہ ملک میں سول سپرمیسی کے لیے پی پی پی نے کیا کچھ کیا ہے۔ اس میں سب سے بڑا پھندہ جو انہوں نے اشرافیہ کے گلے میں ڈالا وہ اٹھارویں ترمیم تھی۔ رہی بات پی پی پی کی گورننس اور روایتی سیاست کی تو اس پر بہت سے سوالات اور شکایات موجود ہیں اور رہیں گی۔

تاہم قانون سازی اور آئین کو اسکی رُو کے مطابق چلانا اور فاشیزم اور پنجاب کی گلو بٹ یا گنڈاسے کی سیاست سے نکل کر اشرافیہ کی طاقت اور “آئرن کرٹن” میں آہستہ آہستہ قانونی طریقے سے نقب لگانا ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے بہت سے ممالک نے اپنے آپ کو مضبوط اشرافیہ کے چُنگل سے نکالا۔ (تُرکی کی مثال ہمارے سامنے ہے)۔

اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا تمام سیاستدان ملکر افہام و تفہیم اور کچھ لو کچھ دو کی سیاست کے تحت اشرفیہ سے طاقت چھین کر عوام کو واپس کرتے ہیں یا نہیں کیونکہ تینوں جماعتیں اب اشرافیہ سے مار کھا چکی ہیں۔

اس حوالے سے تینوں بڑی جماعتوں کو ملکر چلنا ہو گا، اپنی انا اور بڑے بڑے آئیڈیلز اور پسند نا پسند سے نکل کر ملک کا سوچنا ہو گا۔

ہماری اصل جنگ یہ ہے کہ طاقت عوام تک منتقل کرنا ہے۔ کولونیل دور سے نکلنا ہو گا۔ استعماری سوچ کو ختم کرنا ہے۔ اور ملک کو انتشار سے بچانا ہے۔ صنعتی ترقی کرنی ہے، درآمدات و برآمدات کے حجم کے فرق کو کم کرنا ہو گا۔ اور ایک تسلسل سے اقتصادی اور معاشی پالیسیوں کو جاری رکھنا ہے تاکہ نوجوان نسل کا مستقبل درخشاں ہو۔

نتائج میں تبدیلی ہوئی یا نہیں اسکا فیصلہ ہر حلقے کے اُمید وار خود کریں گے۔ نتائج میں تاخیر اس حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ جمہوریت کا عمل ملک میں مضبوطی سے جڑ پکڑ رہا ہے۔ یہ چوتھا مسلسل الیکشن ہے جس میں سویلین حکومت سے سویلین حکومت تک کا سفر جاری ہے۔ جمہوریت کو چلنے دیں تو یہ اپنا راستہ خود بنانا شروع کر دیتی ہے۔ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے۔ عوام اب ترنوالہ نہیں۔ اشرافیہ کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نوجوان کی خواہشات و جذبات کو دبانا اور وہ بھی رابطوں کے تیز تر دور میں، آسان نہیں۔ اوچھے اور پرانے ہتھکنڈے جتنے چلا لیں، آج سب سامنے نظر آتا ہے۔ تاہم آج کے نوجوان کے مسائل تب ہی حل ہوسکتے ہیں جب انکی آواز دبانے کی بجائے انہیں عوامی دھارے کا حصہ بنایا جائے اور اُنہیں ایک پیج پر لانے والی گھٹیا سیاست کی بجائے اُنکے پیج پر اکٹھا ہوا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: یہ میری ایک عام شہری ہونے کے ناطے ذاتی رائے ہے، اس سے آپکا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply