تعلیم کی تباہی۔۔۔زین العابدین

پاکستان بھر میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نئے داخلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ موسم گرما کے ان چند مہینوں میں تعلیمی اداروں کی خوب چاندی ہوتی ہے۔ بھاری فیسوں اور انٹری ٹیسٹوں کے نام پر خوب مال بنایا جاتا ہے۔

نوجوان طلبہ سنہرے مستقبل کے سپنے لئے ان تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ خود کو ’’ تعلیم کے زیور‘‘ سے آراستہ کرتے ہوئے زندگی کے میدان میں آگے بڑھ سکیں۔ مگر یہ سارا عمل جتنا سادہ نظر آتا ہے درحقیقت انتہائی پیچیدہ اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ان چند مہینوں میں تعلیمی اداروں کے چکر کاٹ کاٹ کر طلبہ اور ان کے والدین کے جوتے گھس جاتے ہیں۔ پھر کہیں جا کر وہ کسی تعلیمی ادارے کے مخصوص شعبے میں داخلہ حاصل کر پاتے ہیں۔ مقابلے بازی اس سارے عمل کو مزید کربناک بنا دیتی ہے اور اس سارے عمل میں بہت سا پیسہ بھی چند ہاتھوں میں اکٹھا ہوجاتا ہے۔
ایک طالبعلم جو کسی تعلیمی ادارے کے کسی مخصوص شعبے میں داخلہ حاصل کرنا چاہتا ہے، بظاہر تو ایسا ہونا چاہئے کہ وہ طالبعلم وہاں جائے، فارم بھرے، فیس ادا کرے اور اس کو داخلہ مل جائے۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا نہ ہونے میں بہت سے عوامل کار فرما ہیں جو باہم عمل کرتے ہوئے اس عمل کو انتہائی تکلیف دہ بنا دیتے ہیں۔ تعلیم، جو کہ بنیادی انسانی حق ہے، کے حصول کے لئے کئی تعلیمی اداروں کی خاک چھاننا پڑتی ہے، کئی طرح کی دستاویزات مہیا کرنی پڑتی ہیں، گھنٹوں طویل لائنوں میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ طرح طرح کے ٹیسٹ دینے پڑتے ہیں جس کے لئے ہزاروں روپے بھرنا لازمی ہوتا ہے۔ مگر اس سب کے بعد بھی اس بات کی گارنٹی نہیں کہ اس ادارے میں داخلہ مل جائے گا۔ کیونکہ سیٹیں کم ہیں اور امیدوار زیادہ یا ادارے کی فیس ہی اتنی ہے کہ عام آدمی کی بساط سے باہر ہے۔ اس سارے پراسیس کے بہت سارے پہلو ہین جن کا فرداً فرداً جائزہ لے کر ہی اس کے پیچھے چھپی ریاستی نااہلی اور تعلیم کے نام پر ہونے والی لوٹ مار کو سامنے لایا جاسکتا  ہے۔

پاکستان جیسے پسماندہ سرمایہ دار ملک میں سماجی انفرا سٹرکچر تو ویسے ہی انتہائی بوسیدہ ہے اور اس کو بہتر کرنے کی جتنی بھی کاشش کی جاتی ہے یہ مزید بوسیدگی کا شکار ہوتا چلاجاتا ہے۔ اس لئے ریاست خود کو اس کام سے بری الذمہ قرار دے چکی ہے۔ اور عوام کو بے سروپا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسی سماجی انفراسٹرکچر کا سب سے اہم حصہ ملک میں موجود تعلیمی ادارے ہیں جن میں سکول، کالج، فنی تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ نام نہاد آزادی کے بعد سے اب تک کبھی بھی آبادی کے تناسب سے تعلیمی ادارے قائم نہیں کئے گئے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند کہیں زیادہ ہیں مگر اس تعداد میں ادارے ہی موجود نہیں۔ اور اس خلا کو پھر پرائیویٹ تعلیمی ادارے پورا کرتے ہیں۔ بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لئے مختص حصہ انتہائی قلیل ہے اور جو مختص کیا جاتا ہے وہ بھی بیوروکریسی کے ہتھکنڈوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ تعلیم عام کرنے کے حکمرانوں کے بلند و بانگ دعوے اکثر سننے کو ملتے ہیں مگر ان دعووں کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ان دعووں کے برعکس گذشتہ چند سالوں سے اس قلیل بجٹ میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے اور اس کا سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ غیر ترقیاتی تعلیمی بجٹ کو ترقیاتی تعلیمی بجٹ میں شامل کر کے اس بجٹ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جو کہ در حقیقت وجود ہی نہیں رکھتا۔ اور اب تو اس سے بھی جان چھڑوائی جا رہی ہے اور سکولوں کو اصلاحات کے نام پر بیچا جارہا ہے۔ یونیورسٹیاں تو اس عمل کا بہت پہلے سے شکار ہو چکی ہیں۔ بورڈ آف گورنرز اور Autonomousدرجہ ملنے کے بعد یونیورسٹیاں اپنے معاملات میں خود مختار ہیں کہ وہ جیسے چاہیں جس مرضی طریقے سے طلبہ کو لوٹیں۔ تعلیمی اداروں کی کمی کی وجہ سے طلبہ کو مقابلے بازی کا شکار بنتے ہیں اور میرٹ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ایک کی جگہ کئی تعلیمی اداروں کی فیسیں اور فارم بھرنے پڑتے ہیں۔ چونکہ آبادی کے تناسب سے تعلیمی ادارے ہی موجود نہیں اس لئے طالبعلم کتنی ہی کوشش کر لیں تمام طلبہ کو سرکاری اداروں میں داخلہ نہیں مل سکتا۔ اور نتیجتاً وہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور یہاں سے لوٹ مار کے نئے سلسلے کا آغاز ہوتا ہے۔


ء کی دہائی سے پیشتر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر تھی۔ بھٹو دور حکومت میں کی جانے والی اصلاحات میں چند ایک کو چھوڑ کر تمام تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کیا گیا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں ملک بھر میں پرائیویٹ کالج اور یونیورسٹیاں کھلتی نظر آتی ہیں۔ مگر مشرف دور حکومت اور اس کے بعد سے تو پرائیویٹ کالج اور یونیورسٹیاں پاکستان کے کونوں کھدروں میں وبا کی طرح پھیل چکی ہیں اور دونو ں ہاتھوں سے طلبہ اور ان کے والدین کو لوٹ رہے ہیں۔ تعلیم، جو کہ ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے اور 1973ء کے آئین کے مطابق ریاست ہر شہری کو مفت تعلیم دینے کی پابند ہے، اس وقت سب سے منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ملک میں اتنی بڑی تعداد میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی موجودگی ریاست کی نااہلی اور خصی پن کا ثبوت ہے کہ یہ ریاست عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں دینے سے بھی قاصر ہے۔ یہ تعلیمی ادارے ریاستی اداروں کی آشیر باد سے کھل رہے ہیں اور متعلقہ ریاستی ادارے اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرتے ہیں۔ بیشتر نجی یونیورسٹیاں اور کالج بورڈ امتحانات کا رزلٹ آنے اور سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلے شروع ہونے سے پہلے ہی نئے داخلوں کا آغاز کر دیتی ہیں اور مجبوراً طلبہ کوکسی نہ کسی پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں بھی لاکھوں روپیہ فیس بھرنی پڑتی ہے کہ اگر سرکاری تعلیمی ادارے میں داخلہ نہ مل سکا تو وہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ مگر اس کھلی لوٹ مار پر کبھی کوئی ریاستی ادارہ حرکت میں نہیں آتا نہ ہی کوئی سوموٹو نوٹس لئے جاتے ہیں اور نہ ہی کبھی معطلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔یہ تعلیمی ادارے طلبہ سے من مانی فیسیں وصول کرنے میں آزاد ہیں۔ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں اور طلبہ مسلسل لٹتے چلے جا رہے ہیں۔


مگر کہانی ادھر ہی نہیں رکتی۔ اس سب لوٹ مار کے ساتھ ایک اور پیسے بٹورنے کا سلسلہ موجود ہے۔ انٹری ٹیسٹ مافیا اور ان ٹیسٹوں کی تیاری کے لئے کھمبیوں کی طرح اگی ہوئیں اکیڈمیاں ہر سال کروڑوں روپیہ ان نام نہاد ٹیسٹوں کے نام پر اکٹھا کرتی ہیں۔ مقابلے بازی پر مبنی تعلیمی نظام میں اصل مسائل کو چھپانے اور تعلیمی اداروں کی کمی کو جواز فراہم کرنے کے لئے میرٹ اور انٹری ٹیسٹوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ان اداروں میں داخلہ لینے کا کوئی بھی خواہش مند یہ ٹیسٹ دئیے بغیر داخلہ نہیں لے سکتا۔ تعلیمی اداروں میں داخلے سے پہلے انٹری ٹیسٹ کا اعلان کیا جاتا ہے اور ان ٹیسٹوں میں رجسٹریشن کے نام پر لاکھوں روپیہ اکٹھا کیا جاتا ہے۔ انجینئرنگ اور میڈیکل میں داخلے کے خواہش مند طلبہ سب سے زیادہ اس کا شکار بنتے ہیں۔ انجینئرنگ اور میڈیکل کالجوں میں سیٹیں محدود ہونے کی وجہ سے مقابلہ بڑھ جاتا ہے اور اس مقابلے بازی کا سب سے زیادہ فائدہ تعلیمی ادارے اور اکیڈمیاں اٹھاتی ہیں۔ انٹری ٹیسٹ کے لئے خوب مقابلے کا ماحول پیدا کیا جا تا ہے۔ ڈر کا کاروبارخوب چمکایا جاتا ہے۔ حسین مستقبل کے سپنے بیچے جاتے ہیں۔ مقابلے بازی کی مکروہ نفسیات معصوم ذہنوں پر مسلط کی جاتی ہے جو ان نوجوانوں کو ہی بدل کر رکھ دیتی ہے اور وہ بیگانگی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مگر چونکہ ان اداروں میں سیٹیں محدود تعداد میں ہیں اور مقابلے میں اترنے والے لاکھوں میں تو یہاں بھی جیت اکیڈمیوں اور انتظامیہ کی ہوتی ہے۔ کسی کو داخلہ ملے یا نہ ملے وہ تو فیسوں کے نام پر کروڑوں روپیہ اکٹھا کر کے فتحیاب ٹھہری ہیں۔


مگر یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے۔ کہانی میں ایک نیا موڑ ہے اور یہ نیا موڑ ہے شعبے کا تعین کہ تعلیم کے کس شعبے میں داخلہ لیا جائے۔اور یہ انتہائی اہمیت کا حامل بھی ہے کہ ایک نوجوان طالبعلم اپنی صلاحیتیں کس میدان میں بہتر صرف کر سکتا ہے۔ مگرسرمایہ دارانہ نظام کی مسلط کردہ نفسیات اور اخلاقیات یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی اور حتمی تجزیے میں اس بات کا تعین، کہ ایک طالبعلم کس شعبے میں داخلہ لے گا، مارکیٹ یا دوسرے لفظوں میں روزگار کی منڈی کرتی ہے۔جہاں وہ طالبعلم ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنی قیمت لگوانے کے لئے اترے گا۔ پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت( چند مٹھی بھر کو چھوڑ کر) کو وہ ماحول ہی دستیاب نہیں جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کو کھوج سکیں اور اپنے لئے کسی شعبے کا تعین کر سکیں۔ درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بنے۔ کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں خود کو یا بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہوتا ہے کہ جنھوں نے میڈیکل یا انجینئرنگ کی ڈگریاں لینے کے بعد ایک اچھا معیار زندگی حاصل کیا۔ مگر والدین جس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں وہ عہد کا کردار ہے۔ ان کی یادداشتوں میں جو عہد نقش ہے وہ ایک مختلف عہد تھا اور آج کا عہد یکسر مختلف ہے۔ ان کے ذہنوں میں جس عہد کی یادیں ہیں وہ سرمایہ دارانہ نظام کا نسبتاً خوشحالی کا عہد تھا اور آج ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ عالمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے تاریخی بحران کا عہد ہے جس میں کوئی بھی ڈگری بلند معیار زندگی کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ بے روزگاری کی دلدل ہر گزرتے دن کے ساتھ گہری ہوتی جا رہی ہے اورجس کا حل کسی ڈگری میں نہیں ہے۔ اس سب کا شکار بھی نوجوان بنتے ہیں جن پر پیدا ہوتے ہی ڈاکٹر یا انجینئر کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے اور مقابلے کے لئے سماج میں اتار دیا جاتا ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ داخلہ مل جانے کے بعد بھی طلبہ کی اکثریت اپنے شعبوں سے بد ظن نظر آتی ہے اوراپنے متعلقہ مضامین میں کوئی دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دیتے۔ بس سماجی اور معاشی بوجھ تلے اس سب کو جاری رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو شاید کبھی یہ موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ سوچ سکیں کہ وہ کیا کر سکتے ہیں؟ ان میں کون کون سی صلاحیتیں موجود ہیں؟ آیا یہ صلاحیتیں اس شعبے میں کام آ بھی سکتی ہیں یا نہیں؟ اور اس سب ظلم کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ مایوسی اور بیگانگی کا شکار ہو جاتے ہیں اور وقتی سکون کے لئے منشیات یا مذہبیت کا شکار بنتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors


وہ خوش قسمت نوجوان جو کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کا اس ادارے میں کوئی کردار موجود نہیں ہوتا۔ وہ مکمل طور پر انتظامیہ کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں اور انتظامیہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو ایک چرواہا بھیڑوں کے ریوڑ کے ساتھ کرتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں قیام کے دوران ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ ان زندہ نوجوانوں میں زندگی کی ہر رمق ختم کر دی جائے اور ان کو ایک پرزے میں تبدیل کر دیا جائے جو نہ اپنی مرضی سے سوچ سکے نہ کوئی کام کرسکے۔ ڈسپلن کے نام پر زندہ انسانوں کو روبوٹس میں بدلا جاتا ہے۔ اگر اس ظلم و جبر کے خلاف کوئی آواز اٹھے تو اس آواز کو دبانے کے لئے انتظامیہ کسی بھی حد تک جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کے نام پر جبر اور خوف مسلط کیا گیا ہے۔ انتظامیہ کو ان نوجوانوں کی سیکیورٹی سے کیا سروکار وہ جئیں یا مریں۔ سیکیورٹی تو ان کو دبانے کے لئے ہے کہ کہیں یہ اس سب سے بغاوت ہی نہ کر دیں۔ مگر ان تنگ ذہنوں کو کیا معلوم کہ بھلا کبھی بندوقیں اور اونچی دیواریں بھی اس پکتے لاوے کو پھٹنے سے روک پائی ہیں؟ آج ہر طالبعلم میں اس ظلم اور جبر کے خلاف ایک نفرت موجود ہے مگر اس نفرت کو اظہار کا موقع نہیں مل پا رہا۔ طلبہ کے لئے ایسا کوئی پلیٹ فارم ہی موجود نہیں جس سے وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر سکیں۔ طلبہ یونینز پر پابندی ہے۔ مگر زیادہ دیر ایسے نہیں چل سکتا کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا بحران حل ہونے کی بجائے گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس میں ان نوجوانوں کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں۔ حالات کی سختی کے زیر اثر طلبہ کو ان مسائل کا ادراک حاصل ہے مگر کمی درست نظریات اور تنظیم کی ہے۔ سوشلزم کے سوا کوئی اور نظریہ آج سماج میں موجود مسائل کی درست سائنسی اور ان کا حل بتانے سے قاصر ہے۔ دنیا بھر میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی جلد یا بدیر نوجوانوں میں پکنے والا یہ لاوا پھٹے گا۔ یہ ریاست اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ طلبہ کو ان کے حقوق کبھی بھی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دے گی۔ یہ حقوق جدوجہد سے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں مگر جدوجہد کی کامیابی کے لئے جدوجہد کا درست نظریات اور طریقہ کار پر مبنی ہونا لازمی ہے۔ اسی مقصد کے تحت پروگریسو یوتھ الائنس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا کہ نوجوانوں کے مسائل کے حل کی جدوجہد کے لئے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے تاکہ نوجوانوں کو سوشلزم کے انقلابی نظریات سے مسلح کرتے ہوئے نوجوانوں کے حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے اور سماج میں پکنے والے لاوے کے پھٹنے سے پہلے ہی وہ قوتیں موجود ہوں جو ان نوجوانوں اور محنت کشوں کی قیادت کر سکیں اور سماج کو اس کرب اور تکلیف سے نجات دلا سکیں۔
بشکریہ لال سلام

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply