جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔۔عنائیت اللہ کامران

غریب عوام، غلام بے دام بن چکی ہے۔ آنکھوں میں سہانے سپنے سجا کر، تبدیلی کے ترانوں کی دھنوں پر مدہوش ، ملک کے فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر ایک نئے نظام اور نئے پاکستان کی بنیاد کا عزم لے کر پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والی عوام بالآخر چیخ اٹھی ہے، ابھی تبدیلی کے ترانوں اور ان ترانوں پر لگائے جانے والے ٹھمکوں کی بازگشت باقی ہے لیکن۔۔ “مئے خانے کے بادہ خواروں” کا نشہ ٹوٹنے لگا ہے۔صرف سات ماہ ہی تو گزرے ہیں، اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں نیب کے گھیرے میں ہیں تو باقی جماعتوں کا پتا صاف ہوچکا، میدان بالکل خالی ہے اور دور دور تک نہ “بندہ نظر آتا ہے اور نہ ہی بندے کی ذات”، کپتان میدان میں اکیلا ہی” کبڈی کبڈی “پکار رہا ہے لیکن اسے چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔اپنے وژن اور منشور پر اسے عمل کی کھلی آزادی حاصل ہے، بظاہر کوئی رکاوٹ اس کے سامنے موجود نہیں ہے لیکن معلوم نہیں ہے کہ کپتان کا منشور، نعرے اور دعوے کہاں گئے جو اس نے الیکشن کے وقت عوام کے سامنے پیش کئے تھے۔ ماضی میں اربوں روپے روزانہ کی کرپشن کرنے والے بھی “قصہ پارینہ” بن گئے، یعنی اب کرپشن نہیں ہونی چاہیے، قومی خزانہ محفوظ ہونا چاہئے، لیکن اس کے باوجود روپے کی قدر میں کمی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ، بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کی چیخیں نکال دیں، سبزی سمیت روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا، پاکستان شماریات بیورو کے مطابق مارچ میں 9.4 فیصد مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان شماریات بیورو کی جانب سے جاری اعدادوشمار میں کہا گیا ہے کہ” مارچ 2018ء کی نسبت مارچ 2019ء میں مہنگائی 9.41 فیصد بڑھی۔ جبکہ اپریل 2014ء میں مہنگائی کے بڑھنے کی شرح 9.1 فیصد تھی۔ اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال جولائی تا مارچ مہنگائی 6.7 فیصد بڑھی جبکہ فروری کی نسبت مارچ میں مہنگائی 1.42 فیصد بڑھی” ۔
اعدادوشمار میں کہا گیا ہے کہ” مارچ 2019ء میں 2018ء کی نسبت ٹماٹر 315 فیصد، سبز مرچ 151 فیصد، مٹر 54 فیصد مہنگے اور کھیرے 45 فیصد مہنگے ہوئے”۔
اس کے علاوہ” اندرون شہر بسوں کے کرائے 47 فیصد مہنگے ہوئے۔ سی این جی کی قیمت میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔ مارچ 2019ء میں 2018ء کی نسبت ڈیزل اور گھریلو سلنڈر 14 فیصد مہنگے ہوئے۔ اشیائے خورونوش کی بات کی جائے تو دال مونگ 22، چینی 18 اور گوشت 13 فیصد مہنگا ہوا”۔
تاہم دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے یہ دعویٰ کرکے مہنگائی کی ستائی ہوئی عوام کے زخموں پر گویا نمک چھڑکا ہے کہ”موجودہ حکومت کے پہلے 6 ماہ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں کی نسبت مہنگائی کی شرح کم ہے”۔
انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ “ملک میں مہنگائی ضرور ہے لیکن مہنگائی کی شرح 2008ء میں پیپلز پارٹی اور 2013ء میں ن لیگ کے پہلے چھ ماہ کی نسبت کم ہے”۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام کی قوت خرید کمزور ہوئی ہے، اندرونی  و بیرونی قرضے بڑھ گئے، زرمبادلہ کے ذخائر غیر تسلی بخش ہیں.حالانکہ کپتان کہتے تھے کہ وہ وزیراعظم بن گئے تو دنیا ڈالروں کے ڈھیر لگا دے گی اور تو اور اپنے مراد سعید نے دعویٰ کے ساتھ کہا تھا کہ جس دن تحریک انصاف کی حکومت آگئی، کپتان لوٹے گئے 200 ارب ڈالر اگلے دن ہی وطن واپس لا کر 100 ارب ڈالر قرض خواہوں کے منہ پر مارے گا، اب تو مراد سعید بھی خاموش ہے، کپتان بھی مہر بہ لب ہے اور ان لوٹے گئے 200 ارب ڈالر کا بھی کچھ اتا پتا نہیں ہے۔پاناما کیس میں ملوث باقی افراد کے خلاف کارروائی کے بارے میں بھی راوی خاموش ہیں۔ ان سب سے ہٹ کر سرکاری اداروں میں عوام خوار۔

وزیراعظم کے آبائی گھر کی کہانی بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں، ذرا دل تھام کر پڑھیے گا، خبر ہے کہ میانوالی کے ایک نواحی علاقے میں، ایک جونئر کلرک  جس کی ملازمت کا آخری دن تھا، کپتان کے ایک ایم پی اے صاحب کے انتقام کی بھینٹ چڑھ گیا اور اس آخری دن جبکہ سرکاری ملازم کو الوداعی تقریب میں ہار پہنا کر اچھی یادوں کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے، سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھا کر اسے ملازمت سے برخاست کر دیا گیا ہے۔ شاید اسے تبدیلی کی لذت سے آشنا کرنے کی کوشش کی گئی ہے  ۔یہ کپتان کی ٹیم کا وژن اور ثمرات ہیں تبدیلی کے  جس کے خواب لوگوں کو دکھائے گئے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عوام کو ایک بار پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا ہے، یہ پہلی بار کب ہوا ہے؟ قیام پاکستان سے لیکر ہمارے سیاسی اور “غیر سیاسی” بزرجمہر یہی کھیل تو کھیل رہے ہیں عوام کے ساتھ۔ پاکستان کے قیام کے مقاصد سے روگردانی سے لیکر اس کے آئین میں دئیے گئے عوامی حقوق کی پامالی تک۔
یہ ہے کل کہانی پاکستان کی اور پاکستان کے عوام کی!
“اسلام کی تجربہ گاہ” سے لیکر “مدینہ کی اسلامی ریاست” کے نعروں تک کی سیاہ تاریخ ہمارے “سیاہ ست دانوں” کی خود غرضیوں، ابن الوقتیوں، چاپلوسیوں اور مفادات کی کہانی ہے۔
وہ جو کل ٹی وی چینلز پر پٹرول کی اصل قیمتوں اور ان پر لگائے گئے ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف چیخ چیخ کر بولتے تھے، وہ جو بجلی کے بل جلا کر عدم تعاون کے اعلانات کرنے والے تھے، وہ جو کہتے تھے کہ ہم وطن عزیز میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے ایک بار ہمیں آزما کر تو دیکھو، آج وہی لوگ ، انہی ہاتھوں سے، اسی زبان سے انہی الفاظ میں مہنگائی کی وجوہات اور فضائل بیان کررہے ہیں، جن الفاظ میں ان سے پہلے اور ان سے بھی پہلے اور ان سے بھی پہلے کے حاکم اپنے غلاموں کے سامنے وجوہات اور فضائل بیان کرتے رہے ہیں۔ غرض جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اور ظلم کی ایک طویل داستان ہے ۔اقتدار میں آنے سے پہلے موجودہ حکمران کہتے تھے تبدیلی لائیں گے، لیکن کچھ تبدیل نہیں ہوا سوائے چہروں کے، غریب عوام۔۔غلام بے دام ہے، جس کا جب اور جہاں، جس طرف جی چاہتا ہے اسے ہانک کر لے جاتا ہے اور ہربار عوام اس سوچ کے ساتھ ہانکے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اس بار ہمارے ساتھ دھوکہ نہیں ہوگا لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی “فقیروں کی کمائی لٹ گئی” معلوم نہیں کہ کون سے” سلطان سے بھول ہوئی ہے”اور” جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں”۔

اپوزیشن کی باقی جماعتیں اخبارات کی حد تک تو مہنگائی کے خلاف بات کررہی ہیں لیکن جماعت اسلامی نے مہنگائی کے خلاف 5 اپریل کو میدان میں نکل کر احتجاج کیا ہے اور حکومت کو توجہ دلانے کی کوشش کی ہے کہ حالات عوام کے لئے اتنے نارمل بھی نہیں جتنے کہ حکومت کی جانب سے بیان کئے جا رہے ہیں۔ راولپنڈی، اٹک، سرگودھا سمیت پنجاب کے پیشتر اضلاع میں جماعت اسلامی کے کارکنوں نے مہنگائی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کراکے گویا حکومت کو پیغام بھیجا ہے کہ حکمران زبانی جمع خرچ کی بجائے عوام کو ریلیف دینے کے لئے عملی اقدامات کریں بصورت دیگر حکومت کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
چلتے چلتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر زیر گردش ایک لطیفہ پیش خدمت ہے کہ حکومتی پٹرول بم کی وجہ سے مرجھائے ہوئے چہروں پر شاید کوئی مسکراہٹ بکھر جائے۔ اس لطیفہ میں سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے طریقہ واردات سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں.
ایک کنجوس کا بیٹا گھر آیا تو خوشی خوشی باپ کو بتانے لگا کہ آج میں نے 200 روپے بچا لئے، باپ کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں نے رکشہ والے کو گھر کا ایڈریس بتایا تو اس نے 200 روپے مانگے اور میں اسے چھوڑ کر پیدل گھر آ گیا۔

باپ بھی تو آخر اسی کا باپ تھا۔۔

باپ نے رکھ کے منہ پر تھپڑ رسید کیا کہ کھوتے انسان، رکشہ کے بجائے ٹیکسی والے سے پوچھتے کونسی موت آجاتی تجھے۔ ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھتے تو ہمیں 500 کی بچت ہو جانی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

پٹرول 11 روپے کے بجائے 6 روپے مہنگا ہونے پر کچھ لوگ اسے بھی 5 روپے کی بچت اور غریبوں کا لحاظ کہہ رہے ہیں۔
اگر سمری 50 روپے کی جاتی اور 6 روپے بڑھ جاتے تو 44 روپے کی بچت ہو جانی تھی۔
حکومت کے معاشی افلاطونوں کی وجہ سے یہ دن بھی دیکھنے پڑ رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ اب صرف دو آپشن ہیں آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جائے یا پھر دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا جائے۔۔اس کے باوجود حکومتی کارپردازان “سب کچھ ٹھیک ہے” کا راگ الاپ رہے ہیں۔ان معاشی افلاطونوں کے وہ دعوے جانے کہاں گئے، معلوم نہیں معیشت میں ان کی مہارت کو کس کی نظر لگ گئی ہے؟ جانے موجودہ حکمرانوں کے پروفیشنلز کی وہ ٹیم کہاں غائب ہو گئی ہے جو اقتدار میں آنے سے کچھ دیر قبل تک تو بڑے جوش و خروش اور یکسوئی کے ساتھ کام کرتی بتائی جا رہی تھی لیکن اقتدار ملتے ہی اس طرح غائب ہو گئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔ ساری کہانی تو عیاں ہو چکی ہے، سمجھنے والے سمجھ چکے ہیں کہ “ان تلوں میں تیل”نہیں ہے۔لیکن شاید ابھی “کسی کو عوام کا مزید امتحان مقصود ہے”۔

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply