توصیف جہاں بنتی ہے, کیجیے۔۔سید شاہد عباس

چین کرونا وائرس کا مآخذ ہے۔ وہاں سے کرونا وائرس کی ابتداء کے حوالے سے ابھی تک کم و بیش تمام تحقیق کرنے والے متفق نظر آتے ہیں۔ اور جب تک اس وائرس کا مرکز کوئی اور نہیں ملتا فی الحال تو سب اس پہ متفق رہیں گے۔ چین سے اس وائرس کی دوسرے ممالک تک منتقلی بھی چین سے ہی ثابت ہو رہی ہے۔ جیسے ایران میں اس وائرس کی منتقلی کا سبب قم شہر میں آنے والا ایک چینی شہری قرار پایا۔ اسی طرح دیگر ممالک میں بھی یہ وائرس چین سے پھیلنے کے مناسب شواہد موجود ہیں۔
پوری دنیا اس وقت اس عالمی وباء کے خلاف صف آراء ہے اور اس کے علاج کے حوالے سے کوششیں بھی جاری ہیں۔ کرونا کا دائرہ 40 سے زائد ممالک تک پھیل چکا ہے اور اس کے مریضوں کی تعداد محتاط اندازوں کے مطابق ایک لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس عالمی وباء کے حوالے سے صرف ایک مثبت بات جو ابھی تک موجود ہے کہ اس میں شرح اموات کا تناسب قدرے کم ہے کہ جو اس وقت پوری دنیا میں 3 سے 5 فیصد تک شمار کیا جا رہا ہے۔ عالمی تحقیقی ادارے اس حوالے سے اپنے لائیو کاؤنٹرز جاری رکھے ہوئے ہیں جو اعداد و شمار کے حوالے سے کافی حد تک موثر ہیں۔ لیکن ایران جیسے ممالک جہاں سہولیات ناکافی ہیں وہاں شرح اموات 7 سے 9 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو یقینی طور پر باعث پریشانی ہے۔ چین نے تو ایک ہفتے میں ہزار بستروں کا ہسپتال بنا دیا لیکن ایران کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں کہ وسائل ناکافی ہیں۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک جنوبی کوریا ہے۔ جب کہ شمالی کوریا کے حوالے سے میڈیا بے خبر ہے اس لیے وہاں کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات کا فقدان ہے لیکن کوئی شک نہیں کہ وہاں بھی صورتحال ایران جیسی ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ ممالک میں جہاں افغانستان جیسا جنگ زدہ ملک شامل ہے تو امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اس کا شکار ہے۔ لہذا ہم کسی بھی صورت اس عالمی وباء کو محدود علاقے سے منسوب اب شاید نہیں کر سکتے۔
پاکستان میں ابتدائی دو کیسز کے بعد حکومتی اقدامات پہ بیشک تنقید بھی کی گئی اور کی جانی چاہیے کہ تنقید کسی بھی کام میں بہتری کے لیے آبِ حیات ہے۔ اور آخری معلوم اطلاعات کے مطابق پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد انیس تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن یہاں تنقید صرف مقصد اس لیے بھی بہتر نہیں کہ کرونا وائرس نہیں دیکھ رہا کہ کون حکومت میں ہے کون اپوزیشن میں۔ حکومت نے ابتدائی مریضوں کو جس انداز سے سنبھالا ہے اس کی توصیف اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ وبائی مرض ہے، اور پاکستان میں اس وقت تک اسے وبائی صورت اختیار کرنے سے کسی نہ کسی طرح روک کر رکھا گیا ہے۔ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس وائرس کے مقامی سطح سے پھیلنے کے ابھی تک شواہد نہیں ملے اور یہ دیارِ غیر سے آنے والے افراد میں موجود پایا گیا اور انہی سے کسی حد تک پھیلا۔ وفاق کے ہسپتالوں میں اقدامات اس وقت تک قابل بھروسہ اس لیے ہیں کہ مریضوں کی تعداد کم ہے۔ دوسری جانب کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے راولپنڈی کے یورالوجی انسٹیٹیوٹ میں ہنگامی مرکز قائم کرنے کا فیصلہ یقینی طور پر بہترین ہے۔ اس ہنگامی مرکز میں سو بستروں کے ہسپتال کی سہولیات موجود ہوں گی۔ کراچی کا آغا خان ہسپتال و یا دیگر سرکاری ہسپتال وہاں ہنگامی اقدامات کیے گئے ہیں لیکن جس طرح یہ وباء دنیا کے 109ممالک کو اپنی لپیٹ چکی ہے ہمیں بہرحال ملک میں طبی ایمرجنسی نافذ کرنے کی جانب سوچنا ہو گا کہ کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ حکومت کو اپنے وسائل کا رخ جہاں اس ناسور کی جانب موڑنا ہو گا۔ وہاں ایسے مخیر حضرات جو ہر مشکل میں اخباری بیانات کا سہارا لیتے رہے ہیں انہیں بھی ایک قدم آگے بڑھ کے اپنے تمام دستیاب وسائل کا رخ پاکستانی عوام کی جانب موڑنا ہو گا۔ فیس ماسک کی قلت اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ہمیں ابھی بطور قوم مثبت رجحانات اپنانے میں وقت لگے گا۔ ہم بیشک ایٹمی قوت ہیں لیکن اخلاقیات کے حوالے سے ہمیں ابھی بہت سفر طے کرنا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے اس وائرس کے عالمی وباء بنتے ہی چند اہم فیصلے کیے جو ہو سکتا ہے وقتی طور پر ہمیں ناگوار گزرے ہوں لیکن ان اقدامات کے دور رس نتائج یقینی طور پر پاکستان کے لیے بہتر ہیں۔ چین میں موجود پاکستانیوں کے حوالے سے راقم الحروف نے حکومت کے لتے لیےلیکن حکومتی اقدامات یقینی طور پر بہتری کا عنصر لیے ہوئے ہیں۔ ایران کے ساتھ بارڈر بند کرنا ہو یا حالیہ فیصلے میں افغانستان کے ساتھ سرحد کی بندش، کسی بھی حوالےسے جہاں ہم حکومت کو تنقید کے ہدف کے طور پر تختہء مشق بناتے ہیں وہاں اچھے فیصلوں کی توصیف اس لیے لازم ہے کہ سراہے جانے سے حکومت مزید بہتر کام کے لیے ہمت پکڑے گی جو مجموعی طور پر پاکستانی عوام کے لیے ہی بہتر ہو گا۔ متاثرہ علاقوں سے پروازوں کی معطلی، سرحدوں کی بندش، ملک کے اندر ہنگامی حالات و سہولیات کی دستیابی یا متاثرہ مریضوں کو باقاعدہ علاج کی سہولیات دینا تمام حوالوں سے تنقید سہنے کو بھی اگر حکومت موجود ہے تو پھر ہمیں بہتر معاملات پہ توصیف کو بھی اپنا شعار بنانا ہو گا۔
کوئی بھی ملک اکیلے کرونا وائرس کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ عالمی ادارے اس حوالے سے کردار ادا کر رہے ہیں اور انہیں کردار ادا کرنا بھی چاہیے۔ پوری دنیا اس وقت تحقیق کرنے والوں پہ نظریں جمائے بیٹھی ہے کہ اس ناسور کا کوئی علاج، کوئی دوا، کوئی حل دریافت کیا جا سکے۔ گلوبل ویلیج میں تمام اکائیاں اس وقت اس عالمی وباء سے مشترکہ طور پر نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی حکومت بھی اس وقت عالمی اکائی کی صورت اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک اور اپنی حکومت کا تمام اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ صرف ساتھ دینا ہو گا بلکہ اپنی تجاویز بھی اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پیش کرنا ہوں گی تا کہ حکومت پاکستان بہتر انداز سے پاکستانیوں کو اس وباء سے محفوظ رکھ سکے۔۔۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply