کیا اُمید ممکن ہے؟-یاسر جواد

ہمارے معاشرے میں مایوسی کی باتیں کرنا جتنا آسان ہے، اُمید کی باتیں کرنا اُتنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔ کئی دوستوں اور پڑھنے والوں نے انباکس میں بھی بارہا اِس کا مطالبہ یا فرمائش کی ہے کہ کچھ جیتنے کی امید بھی تو ہونی چاہیے! گریہ و زاری، تباہی کی پیش بینیاں، کوتاہوں کو کوسنا، حماقتوں کی نشان دہی، مایوسی کا راج اتنا غالب آ گیا ہے کہ کوئی امید نظر نہیں آتی اور دل گھبراتا ہے۔ شاید میری طرح اور بھی بہت سے لوگ، یا اور بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی پریشانی بکھیر کر ہاتھ جھاڑتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہو گیا۔ تو اُمید اور زندگی کی بات کیسے اور کون کرے گا؟

آئن سٹائن سے پوچھا گیا تھا کہ تم اتنے بڑے بڑے تھیورم اور ریاضی کے مسئلے کیسے حل کر لیتے ہو؟ (آئن سٹائن کے دماغ کا سوچنے والا حصّہ بھی بڑا تھا) اُس نے جواب دیا کہ میں سب سے سادہ بات کو لیتا ہوں اور پھر اپنی ساری توجہ اور کوشش اُس میں انڈیل دیتا ہوں۔ شاید یہی بات ہم زندگی کے متعلق بھی سوچیں تو کافی کچھ سمجھ آ جائے گا۔ ایک دوست کے مطابق ساتویں آٹھویں کی ریاضی میں پڑھے ہوئے سادہ سے میتھمیٹکل فارمولوں کو اگر ہم اپنے حالات پر لاگو کریں تو کافی بہتر ی آ جائے گی۔ یا پھر اپنے گھریلو معاملات اور مالیات کو جس منطق کے تحت چلاتے ہیں، وہ طریقہ بھی کارگر ہو گا۔

لیکن اس میں بہت سی چیزیں ہلیں گی۔۔ ہم کسی دکان سے مونگ پھلی لیتے ہیں اور وہ اندر سے نہایت ناقص نکلتی ہے تو شاید ہم دوبارہ اُس کے پاس نہیں جاتے۔ ایک کمپنی کا فریج گھٹیا نکلے تو دوبارہ نہیں خریدتے۔ ایک برانڈ سے کوئی بُرا تجربہ ہو تو دوبارہ وہاں نہیں جاتے۔ کسی مٹھائی میں سے چھپکلی کا بچہ یا مکھی نکل آئے تو وہاں سے دوبارہ کچھ خریدنے سے توبہ کر لیتے ہیں۔ لیکن ہم نظریات، خیالات، تصورات، عادات، توقعات اور روایات کے متعلق ایسا نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ سب میرے اختیار میں ہے۔

ہم جنسی آزادی، محبت کی آزادی اور سوچ و فکر کی آزادی چاہتے ہیں، مگر دیتے نہیں۔ ہم سب کو معاشرے میں جمہوریت چاہیے مگر ذاتی اور نجی معاملات میں سارے ہی ہٹلر اور ہٹلریاں ہیں۔ اکثر ہمیں یہ جملے سنائی دیتے ہیں: ایک بار کہہ دیا نا، بس! مجھے یہ بات دوبارہ نہ کہنی پڑے۔ ہم ایسے بزرگوں کے دبدبے کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے جن جیسا حکمران ہم ناپسند کرتے ہیں۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں یونانی ریاست سپارٹا کا ایک قانون دہندہ لائیکرگس تھا جس نے بہت سے قوانین بنائے۔ جب ایک دور اندیش مفکر نے لائیکرگس سے جمہوریہ قائم کرنے کا کہا تو اُس نے جواب دیا، ’’ٹھیک ہے میرے دوست، اپنے گھر سے جمہوریت کا آغاز کرو۔‘‘ گھر یا دفتر میں جمہوریت اور برابری کسی کو نہیں چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی وہ جگہ ہے جہاں ساری اُمید کا گڑھ ہے۔ ہمیں سوچنے کی آزادی کو اظہار کی آزادی پر قربان نہیں کرنا چاہیے۔ ذہنی تربیت اور خود کو معاشرے کی دی ہوئی بیماریوں سے نکالنے کی کوشش میں ہی خوشی اور سکون مضمر ہے۔ بلاشبہ ہم کسی سڑک پر اندھی گولی یا بے ہنگم ٹریفک کا شکار ہو سکتے ہیں، لیکن اُس کا تو پوری تاریخ اور انسانیت میں کوئی حل نہیں۔ حل کا تعلق صرف اِس حادثے یا مرنے سے پہلے تک کے وقت سے ہے۔ معاشرے کو ٹھیک کرنا ہمارے بس سے باہر ہے، لیکن خود کو ٹھیک کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔ جس سوچ، نظریے اور مزار سے گندا مال ملتا ہے، وہاں نہ جائیں۔ اگر کسی معجزے کا انتظار ہے تو بیٹھتے رہیں۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply