• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیاجدید غزل کا تصور سمجھانے کے لئے نئے تصورات یا اصطلاحیں ایجاد کرنا پڑیں گی ؟۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کیاجدید غزل کا تصور سمجھانے کے لئے نئے تصورات یا اصطلاحیں ایجاد کرنا پڑیں گی ؟۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​پہلے تو ہمیں ’جدید‘ کے حوالے سے قدیم کو سمجھنا پڑے گا، یا ’قدیم‘ کے حوالے سے جدید کو سمجھنا پڑے گا۔ اگر جدید غزل ابھی تک اپنی پوری جسامت کے ساتھ معرض ِ وجود میں نہ آ سکی ہو اور گھٹنوں کے بل ہی چل رہی ہو یا اس کے جھنڈے کے نیچے چار پانچ عجیب الخلقت ورثا ِ صلبی چل رہے ہوں جن میں ہر ایک کی وراثت کا کلیم ابھی ثابت ہونا باقی ہو، تو اس کے حوالے سے قدیم کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہاں، قدیم کو جدید تھیوریوں، نئے تصورات اور اصطلاحوں سے (جو پہلے نا پید تھیں) بہت آسانی سےسمجھا جا سکتا ہے۔غزل کا ایک خاص مضمون اس مجموعی قسم سے تعلق رکھتا ہے جسے خود ترحمی کہا جا سکتا ہے،(اور جس کے تحت غزل کے بیشتر اشعاررکھے جا سکتے ہیں) یہ ہے، ’’تنہائی‘‘ ، جس کے تحت منڈرجہ ذیل قسم کی ضمنی یا ذیلی یا تحت التحریر مقاطعی اصطلاحات رکھی جا سکتی ہیں۔ عزلت، بیگانگی، اعتکاف، بیراگ، تیاگ، دست کشی، اجنبیت، سُونا پن، اداسی، جوگ وغیرہ۔

میں یہ جواب لکھ رہا تھا کہ غالب اور میرؔ کے دو اشعار سامنے آئے۔ اواپنا ایک شعر یاد آیا

وحشت دل سے شبِ تنہائی میں

صورت ِ دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے

(غالبؔ)

کوئی جہت یاں ایسی نہیں جو خالی ہووے اس سے میرؔ

یہ طرفہ ہے شور ِ جرس سے چار طرف ہم تنہا ہوں

(میر تقی میرؔ)

اب آپ کے تفنن طبع کے لیے بھی اور یہ نکتہ سجھانے   کو  یہاں اپنی ایک نظم لکھ رہا ہوں، جو جنت، دوزخ اور (عالم لاسوت) کے مابین دنیا ـ’’اعراف‘‘ یعنی مندرجہ بالا دنیائوں میں جانے کے بجائے اس ’صحرا‘ میں بھٹکنے کو بہتر سمجھتی ہے۔” دیکھیں اور سمجھیں، داد نہ بھی دیں تو کوئی مضائقہ نہیں”کے زیر عنوان یہ نظم پہلے انگریزی میں لکھی گئی

’خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا

کوئی دروازہ نہیں تھا قفل جس کا کھولتا

سر نکالے کوئی سمت الراس بھی ایسی نہیں تھی جس سے رستہ پوچھتا

ایک قوس ِآسماں حّدِنظر تک لا تعلق سی کہیں قطبین تک پھیلی ہوئی تھی

دھندتھی چاروں یُگوں کے تا بقائے دہر تک ۔۔۔

اور میں تھا!

اور میں تھا

لاکھ جنموں کی مسافت سے ہراساں بھاگ کر

اعراف کے لا سمت صحرا میں بھٹکتا

کوئی روزن، کوئی در، کوئی دریچہ ڈھونڈتا،پر

یہ بھٹکنا خود میں ہی بے انت، ابدالدہر تھا

ایسی سناتن، قائم و دائم حقیقت

جس سے چھٹکارہ فقط اک اور قالب میں دخول ِ عارضی تھا

اس جنم میں جو نئی زنجیر میں پہلی کڑی تھی

ان گنت کڑیوں کی صف بستہ قطاروں سے مرتب!

اور میں خود سے ہراساں

یہ کہاں برداشت کر سکتا تھا

جس زنجیر سے میں ، تسمہ پا ، اک لاکھ جنموں کی مسافت سے صیانت پا چکا ہوں

اس میں پھر اک بار بستہ بند ہو کر چل پڑوں

بے انت جنموں کے نئے پیدل سفر پر؟

ہاں مجھے تسلیم ہے یہ

خانۂ مجنونِ صحرا گر د کی بے در مسافت!

میرے ’ہونے ‘اور ’بننے‘کے گزرتے وقت کا دورانیہ

برزخ کے باب و در سے عاری دشت میں ہی

تا بقائے دہر تک

جنموں کے دوزخ سے رہائی کے لیے!

میں نے مندرجہ بالا متن کے کچھ حصص کو اپنی کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ سے لیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو محبی، مکرمی و محترمی : آپ کے سوال یعنی’’جدید غزل کا تصور سمجھانے کے لئے کیا نئے تصورات یا اصطلاحیں ایجاد کرنا پڑیں گی ؟‘‘ کا جزوی جواب تو میں نے دے دیا لیکن ابھی آپ کواور مجھے، قدم سے قدم ملاتے ہوئے، غزل کے حوالے سے بہت سا راستہ طے کرنا ہے، کچھ اور اصطلاحات کا لیکھا جوکھا آگے آنے کی امید ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply