اُمِّ فیصل (10)۔مرزا مدثر نواز

بھری جوانی میں بیوگی کا دکھ اور اس کے بعد اپنوں کی بے رخی و معاشی حالات کی پریشانیوں نے ہاجرہ کو شوگر کا مریض بنا دیا اور اس کی طبیعت اکثر خراب رہنے لگی۔ اپنے بیٹے کی شادی کے بعد اس نے گھر داری کی ساری ذمہ داری اپنی بہو کے حوالے کر دی جس نے بعد ازاں یہ ذمہ داری خوب نبھائی۔ زبیدہ جب بیاہ کر اپنی خالہ کے گھر آئی تو ایک مشکل و تھکا دینے والی زندگی اس کی منتظر تھی۔ ریلوے میں یحییٰ کی تنخواہ کم تھی جس کی وجہ سے اسے شام میں سادات آٹوز پر اپنی دوسری نوکری جاری رکھنا پڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے پرائیویٹ طور پر بی اے اور پھر ایم اے اسلامیات کیا۔ دو نوکریوں کے باوجود گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے زبیدہ کو سلائی مشین چلانا پڑی۔
زبیدہ کو خالقِ کائنات نے پہلے دو بیٹیاں اور پھر تین بیٹے عنایت فرمائے۔ سب سے بڑی بیٹی کو مرگی کی بیماری تھی جس کی وجہ سے ڈاکٹر نے تجویز کیا کہ کھانا  چاہے رہ ہو جائے لیکن دوا نہیں  رہنی  چاہیے۔ زبیدہ نے دس سال تک بلا ناغہ اپنی بیٹی کو دوا کھلانے کی ڈیوٹی سر انجام دی۔ دو بیٹیوں کے بعد جب رب کائنات نے بیٹے کی نعمت سے نوازا تو دائی نے ولادت کے وقت ہی بچے کو مردہ قرار دے  دیا لیکن زبیدہ یہ بات ماننے کو تیار نہ تھی۔ دسمبر کی یخ بستہ رات میں ساری رات اپنے نومولود کو روئی میں لپیٹ کر آگ کے آگے بیٹھی رہی‘ پو پھٹنے پر بچے نے ہلکی سی حرکت کی تو زبیدہ کی جان میں جان آئی۔ اس بچے کی پیدائشی طور پر ٹانگوں کی ہڈیاں ٹیڑھی تھیں جس کی وجہ سے وہ تین سال تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو سکا۔ زبیدہ اپنے بیٹے کو بیرون شیرانوالہ گیٹ سے پیدل اٹھا کر روزانہ میؤ ہسپتال تقریباََ چھ ماہ تک ریڈی ایشن کے لیے لے کر جاتی رہی تا کہ گاڑی کا کرایہ بچ سکے۔ اس بچے کا نام فیصل شہزاد رکھا گیا اور زبیدہ محلے میں اُمِّ فیصل کے نام سے پہچانی جانے لگی۔ خانہ داری‘ سلائی و کڑھائی کا کام‘ ساس‘ بڑی بیٹی و بڑے بیٹے کو بیماری سمیت اکیلے سنبھالنا کو ئی آساں کام کہاں تھا۔
؎ اک اک قدم پہ رکھی ہے یوں زندگی کی لاج
غم کا بھی احترام کیا ہے خوشی کے ساتھ (کیفی بلگرامی)
ہاجرہ کے ماموں عبدالرّحمٰن کی ایک ہی بیٹی تھی جو یحییٰ سے عمر میں کافی بڑی تھی۔ یحییٰ اسے اپنی بڑی بہن ہی کہتا اور اس کے بچے بھی اسے پھوپھو اور ہاجرہ کی ممانی کو دادی ہی کہا کرتے۔ یحییٰ کے بچے اپنا زیادہ تر وقت انہی کے گھر گزارتے۔ بعد میں عبد الرّحمٰن کی بیٹی کی شادی کراچی میں کسی رشتہ دار کے ہاں ہو گئی اور وہ کراچی چلی گئی۔
قرآن کی رو سے صبح کے وقت قرآن کی تلاوت باعثِ برکت ہے اور اپنے بچپن میں ہم بھی ناظرہ کی تعلیم کے لیے فجر کی نماز کے بعد ہی مسجد جایا کرتے جبکہ موجودہ دور میں بچے شام کو مسجد جاتے ہیں۔ زبیدہ نے اپنے بچوں کو صبح فجر کی نماز کے وقت نیند سے بیدار کرنااور گھر کے قریب ایک مدرسہ میں لے کر جانا۔ وہاں پر بچوں کی ایک گھنٹہ کلاس کے دوران خود باہر بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرنا۔ اس کے بعد بچوں کو ناشتہ کروا کر ان کا یونیفارم تبدیل کرا کے انہیں پیدل سکول چھوڑ کر آنا۔ غربت کی بدولت ان کا گھر ابھی تک فریج جیسی سہولت سے محروم تھا لہٰذا بچوں کو سکول چھوڑ کر واپسی پر تازہ آٹا گوندھنااور روٹی پکانا‘ ساس و شوہر کو ناشتہ دینا اور شوہر کو دوپہر کے لیے کھانا پیک کر کے دینا۔ اس کے بعد گھر کی صفائی‘ سلائی کا کام‘ ساس و دوسرے چھوٹے بچوں کی اکیلے دیکھ بھال۔ لنچ بریک میں دوبارہ لنچ لے کر سکول پہنچنا۔ سکول سے چھٹی کے وقت دوبارہ بچوں کو لینے جانا اور رستے میں بچوں کو اپنی سلائی کی کمائی سے تازہ جوس پلانا لیکن خود نہ پینا تا کہ پیسوں کی بچت ہو سکے۔
؎ ہم کسی بات پر نہیں روتے
اپنی اوقات پر نہیں روتے (فیض الامین فیض)

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply