پنجاب بے راہنما ہے/یاسر جواد

پنجابی زبان کے حق میں جلوس نکلتا ہے تو پچیس تیس لوگ سامنے آتے ہیں، پنجابی قوم پرست سوشلسٹ تنظیموں کے ساتھ مل کر مہنگائی کے خلاف کوئی احتجاج ریلی منعقد کرتے ہیں تو فی تنظیم ایک ایک دو دو لوگ شمولیت اختیار کرتے ہیں جن کی تعداد شاید ہی کبھی پچاس سے زیادہ ہوتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ 1993ء میں ایم کیوایم کی دہشت گردی کے خلاف جلوس نکالا تو بہ مشکل پندرہ دوست جمع ہو سکے۔ پولیس والے مذاق اڑاتے ہوئے کہتے رہے کہ چلو تمھیں گاڑی میں بٹھا کر ہی ناصر باغ سے چیئرنگ کراس تک چھوڑ آتے ہیں۔
کہیں سانڈے کا تیل بیچا جا رہا ہو، کہیں کوئی موٹرسائیکل والا پھسل کر گر جائے، وغیرہ وغیرہ، تو فوراً دو چار سو لوگ جمع ہو جائیں گے۔ پنجابیوں کو اب اپنے اوپر اعتبار نہیں رہا۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ آخری بار کب پنجابیوں کو کسی باشعور مسئلے کے لیے متحرک ہوتے دیکھا تھا۔ فیض امن میلہ ویسے ہی ایلیٹ ناٹک بن کر رہا گیا ہے۔ ایک عورت مارچ کی تھوڑی بہت سرگرمی شروع ہوئی تھی، اب وہ بھی دبتی جا رہی ہے۔ ہم نے خود 1990ء کی دہائی میں اور بعد میں بھی نواز شریف اور بے نظیر کی حکومتیں ختم ہونے پر لاہور میں مٹھائیاں بٹتے دیکھی ہیں۔
ایسے میں ماہ رنگ بلوچ کی باتیں ہمیں تھپڑ جیسی لگتی ہیں۔ ہم چونکہ خود کچھ نہیں کرنا چاہتے، لہٰذا اُسے بھی مختلف حیلوں بہانوں سے سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جب کسی تھانے میں یا کسی سرکاری ہسپتال میں بے اصولی کا شکار بنیں تو فوراً وہی سوالات کرنے لگتے ہیں جو ماہ رنگ کر رہی ہے۔
ایک طویل عرصے سے پنجاب کا کوئی لیڈر نہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب مخالف ہے اور بس پنجاب کی تقسیم کی بات کر کے ہی جنوبی پنجاب میں چند ایک سیٹیں لینے پر عناعت کرے گی۔ نواز شریف پنجابی بولتا ہے اور بس۔ وہ موٹروے بنانے کی بنیاد پر ہی ووٹ مانگتا ہے۔ اُس کا ایجنڈا ایک ٹھیکیدار سے زیادہ نہیں۔ عمران خان تو پتا نہیں کیا ہے۔ اہلِ کراچی اُسے اینٹی پنجاب ہونے کی وجہ سے سپورٹ کرتے ہیں۔
پہلے کی طرح اب بھی کوئی قوم پرست پنجابی دھڑا موجود نہیں۔ پنجاب لیڈر سے محروم ہے۔ چنانچہ ہمیں کسی اور کا بولنا بھی اچھا نہیں لگتا، اور ہم فوراً اپنا تماشا بازی کا ذوق لے کر اُسے چپ کروانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم طویل ذلت اور بیگانگی سہتے سہتے ہر نئی اور اچھی اور ایمان دارانہ چیز کے مخالف بن گئے ہیں۔ ولی خان نے کہا تھا کہ جب کوئی بڑی تبدیلی آئے گی تو پنجاب کی وجہ سے آئے گی۔ مجھے تو نہیں لگتا۔ ہم لوگ تو روٹی سے آگے سوچنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ ہماری قوم پرستی صرف دھوتی تک محدود ہے۔
اب تو شاید فیمنسٹ خواتین بھی اندر اندر سے ماہ رنگ کو ناپسند کر رہی ہیں، کیونکہ اُن کے خیال میں عروج اورنگزیب کا گیت گانا ایک بات ہے اِس پر عمل کرنا بالکل غیرضروری بات۔
(نوٹ: مجھے معلوم ہے کہ یہ باتیں کئی حضرات کو بری لگیں گی)

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply