اقدار پر سودے بازی نہیں /ندیم اکرم جسپال

ہمارا مذہبی طبقہ تبلیغ بارے خاصا  مشہور ہے۔انہیں اپنے سِوا ہر شخص بگڑا شہزادہ یا کوئی بدکردار لونڈا ہی لگتا ہے۔تبلیغ بھی ایسی جس میں کردار سے زیادہ حلیے کی بابت تلقین ہوتی ہے۔کردار کے بارے ان کا ماننا ہے کہ یہ سوال و جواب قیامت کو ہوں گے ،البتہ ظاہری حلیے کو لے کے بھاشن مولوی کا پیدائشی حق ہے۔اچھے بھلے خوبصورت کلین شیو فواد خان ٹائپ لونڈوں کو شرعی حلیے کی تبلیغ شروع کر دیں گے،بس چلے تو اسکی پینٹ اتار دیں۔ ۔اور شلوار قمیض پہنا دیں کہ یہ پنجابی لباس شریعت کے زیادہ قریب ہے۔

ماضی قریب کی ہماری کرکٹ ٹیم اس بارے کچھ زیادہ ہی مشہور تھی، کہ ان کا دھیان کرکٹ سے زیادہ تبلیغ پہ ہوتا تھا۔پِچ سے زیادہ فوکس داڑھی پہ تھا، اور پوسٹ میچ پریس بریف سے زیادہ خیال تبلیغی بیانات کا رہتا تھا۔

یہ مسئلہ صرف مذہبی حلقوں کا نہیں،ہمارے ہاں لبرل دانشوروں کا بھی مدعا  یہی ہے ،کہ ہر بشر ویسا سوچے جیسے لبرل دانشور سوچتا ہے۔ہر بندہ چاہتے نہ چاہتے دوجے کی سپیس اور انفرادیت کو روندتے ہوئے اُسے اپنے جیسا بنانے کی دُھن میں ہے۔

پچھلے دِنوں لندن کے کسی چاہ کیفے پہ بیٹھے مغرب میں نوکریوں کے حوالے سے بات ہو رہی تھی۔میں نے غلطی سے کہہ دیاکہ میں نے آج تک کسی بار،کلب یا پب میں نوکری نہیں کی،میں نے بےروزگار رہنا بہتر سمجھا ہے مگر آف لائسنس پہ کبھی کام نہیں کیا۔ایک صاحب جن سے میرا واجبی سا تعارف تھامجھے کہتے ہیں کہ پھر آپ یوکے نہ آتے،یہاں تو “سب چلتا ہے”،پھر کھسیانی ہنسی ہنسے۔
تو کیا یوکے میں ان کے علاوہ ملازمت نہیں ملتی؟میں نے پوچھا۔
ملازمت مل جاتی ہے مگر یہ “مولبیوں” والا نخرہ یہاں نہیں چلتا۔اپنے اندر کا مولوی پاکستان چھوڑ کے آنا تھا۔

میں نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا،میرا ان سے اتنا تعلق ہی نہیں تھا کہ میں اپنے کردار یا نظریے بارے کسی کو صفائیاں دیتا پھروں۔جن صاحب کے وہ دوست تھے انہیں دیکھ کے بس “اچھا” کہنے پہ اکتفا کیا۔

تبلیغی(مذہبی و لبرل)بریگیڈ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر انسان کی اپنی اقدار ہیں،ہر بندہ اپنی ویلیوز کے ساتھ جیتا ہے،ہر آدمی کی اپنی حدود ہیں۔ضروری نہیں کہ آپکی بنائی حدود ہر بندے کے لیے کارگر ہوں۔میں اپنے آپ کو کوئی ولی اللہ پینٹ نہیں کر رہا،مگر میری کچھ حدود ہیں۔ہوسکتا ہے آپکے نظریات کے خلاف ہوں،مگر صاحب آپکو کیا دُھن ہے کہ ہر بندہ آپکے نظریات کا اسیر ہو؟آپکو کیوں لگتا ہے کہ راہ نجات کا نقشہ بس آپکے پاس ہے؟آپکو کیا مغالطہ ہے، کامیابی کا جو کلیہ آپکے پاس ہے وہ آفاقی ہے؟

مجھے پاکستان کے ایک بڑے ہوٹل چین کے وہ جی ایم ایچ آر یاد آ رہے ہیں جو مجھے آفر لیٹر اس شرط پہ دے رہے تھے کہ میں کلین شیو ہو کے دفتر آؤں۔2021 کے اوائل میں جب کرونا کے بعد مارکیٹ کھلنا شروع ہوئی تو مجھے لاہور کے ایک بہت بڑے ہوٹل چین سے کال آئی،پہلا انٹرویو ہو چکا تو مجھے کہا گیا کہ آپکو ایچ آر اور جی آر کے لیڈ کے طور پہ فیصل آباد پراپرٹی بھیج دیں تو کوئی اعتراض؟عرض کی کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
چند دِنوں بعد فیصل آباد سے فون آ گیا،جی ایم ایچ آر اور آپریشن ہیڈ اسی ہفتے فیصل آباد آ رہے ہیں،آپ انٹرویو کے لیے تشریف لے آئیں۔سر کی تازہ صفائی کی،مونچھوں پہ مہنگا تیل لگائے میں دیے وقت پہ فیصل آباد پراپرٹی پہ موجود تھا۔انٹرویو ہوچُکا تو مجھے وہاں بیٹھے آفر لیٹر کی شرائط و ضوابط بارے پوچھا جانے لگا۔اسی دوران مجھے دوبارہ جی ایم نے میٹنگ روم میں بُلایا۔
آپ پلیز ماسک اتاریں گے؟ کرونا کا زمانہ تھا،ماسک پہنے ہی پورا انٹرویو دیا تھا۔۔میں نے ماسک اُتارا،جی ایم میری مونچھیں اور داڑھی دیکھ کے ذرا ڈِم ہو گئے۔
کیا آپ کلین شیو کروا سکتے ہیں؟جی ایم صاحب نے مجھے کہا۔
کیوں؟مجھے نہیں لگتا میری کارگردگی میری مونچھوں کی وجہ سے متاثر ہو گی،میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
نہیں مگر کارپوریٹ میں اور خاص کر ہاسپٹیلٹی انڈسٹری کے اندر یہ امیج ذرا معیوب لگتا ہے۔اگر آپ کو مناسب لگے تو کلین شیو کروا دیں۔تب تک ہم آپکا آفر لیٹر ہولڈ کر رہے ہیں۔جی ایم صاحب نے کہا۔
مجھے تھوڑا وقت دیں،میں کل تک آپکو ای میل یا فون پہ بتا دوں گا۔میں نے کمرہ چھوڑتے ہوئے کہا۔

رات گھر آیا،کشمکش میں،عجیب فیصلہ تھا،کرونا میں ہوئے بےروزگار کو قریب ڈیڑھ سال بعد روزگار کا موقع مل رہا تھا مگر عجب شرط کے ساتھ۔خود کو کلین شیو امیجن کیا،ایسا نہیں کہ میں کوئی بڑا مذہبی یا عاشقِ رسول تھا،بس مزہ نہیں آیا۔

اگلی دوپہر کو مجھے کراچی کے ایک نمبر سے فون آیا،الف ب پہ بول رہا ہوں،جی ایم ایچ آر۔سلام،آداب کے بعد میں نے حلیہ بدلنے سے معذرت کرلی۔وہ صاحب تبلیغ پہ اتر آئے،دیکھیں دین میں آسانی ہے،دین میں داڑھی ہے،داڑھی میں دین نہیں ہے،روزگار فرض ہے،اس کے لیے سنت کو چھوڑ رہے ہو تو گناہ نہیں ہے۔اور اس طرح کی بےشمار توجیحات دینے لگے۔

میں نے کہا حضور آپ غلط بندے کو غلط تبلیغ کر رہے ہیں۔میرا یہ حلیہ دھارمک نہیں ہے،یہ گناہ ثواب کا معاملہ نہیں ہے،میں خود کو کوئی خود ساختہ عاشقِ رسول بنا کے نہیں پیش کر رہا۔آپ اسے ضد سمجھیں یا بےوقوفی،یہ حلیہ میرا تعارف ہے۔پچھلے چھ سال سے میں اس حلیے میں ہوں اس حلیے کو یکدم بدل دینا اتنا آسان نہیں ہے۔میں ایک نوکری کے پیچھے اپنا تعارف نہیں گنوا سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کے نزدیک بھی عین ممکن ہے یہ بےوقوفانہ فیصلہ ہو،لگے رزق کو لات ہو،یا ہٹ دھرمی،مگر میرے نذدیک میرا حلیہ زیادہ اہم تھا،ویسے ہی آج میرے لیے میری اقدار اور حدود اہم ہیں۔میں چند پاؤنڈز کی عارضی نوکری کے لیے نہ اپنا حلیہ بدل سکتا ہوں،نہ ویلیوز بدل سکتا  ہوں  ۔اسے ضد،ہٹ دھرمی یا انا کُچھ بھی سمجھ لیں،مگر اپنا حساب ایسا ہی ہے۔ہر انسان کی ایک سپیس ہے،ہر آدمی کی کُچھ اقدار،انہیں نہ چھیڑنا ہی مناسب ہوتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply