ہم سات ، ایک ساتھ , سفر نامہ(3)-زید محسن حفید سلطان

رات ہم سوئے تو  پھر لمبی تان کر سو گئے ، پھر آخری پہر سردی کا احساس ہوا تو آنکھ کھلی ، سب ہی سوئے پڑے تھے ، بس بڑے خالو نظر نہ آتے تھے ، میں ابھی انہیں تلاش ہی کر رہا تھا کہ وہ پردہ کھول کر اندر داخل ہوئے ، اور کہنے لگے “باہر تو بڑی سردی ہو رہی ہے ، میں تھوڑی دیر کھڑکی پر بیٹھا کہ ٹھنڈ لگنے لگی، میں تو اندر آ گیا” ٹھنڈ کا سن کر میں کیبن سے نکل کر باہر کھڑکی پر جا بیٹھا ، واقعی موسم کافی بدلا بدلا محسوس ہوا ، مزیدار ہوائیں چل رہی تھیں اور سردی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا ، ریل بہت زیادہ سبک رفتاری سے چل رہی تھی ، اگر میں یہ کہوں کہ میں گاڑیوں کو تو فراٹے بھرتے دیکھا تھا لیکن ریل کس طرح فراٹے بھرتی ہے یہ مجھے اسی سفر میں معلوم ہوا تو غلط نہ ہوگا ، اس ریل عملے کا بس ایک ہی کام تھا کہ ہارن بجاتے جاؤ اور ریل بھگاتے جاؤ۔ ۔

ادھر رات کا آخری پہر اپنے اختتام  کی جانب  بڑھ رہا تھا اور اُدھر  صبح  کاذب کی گھڑیاں قریب آ رہی تھیں ، پھر یکایک آسمانوں پر ایک سرخی سی ابھری اور آہستہ آہستہ رات کی گہرائی بھی کم ہوتی گئی ، اور دور کہیں خطِ ابیض سر اٹھائے صبحِ روشن کی نوید سنانے لگا ، بالآخر ظلمتوں کی دبیز چادر اوڑھے رات کا آخری سیاہ پردہ سِرک کر الگ ہوا اور آہستہ آہستہ روشنی چہار سو پھیلنا شروع ہوئی ، یوں یہ صبح سیاہ لہروں سے نبرد آزما ہوتی ہوئی ، سرخ دریا کے کنارے پہنچی ، اور پھر اس کا استقبال روشنیوں نے کیا۔۔اور ہر نئی صبح اسی طرح ہوتی ہے اور ہمیں یہ سبق دے جاتی ہے کہ چاہے ، مشکلات کتنی بھی ہوں ، زندگی کتنی ہی اندھیر ہو جائے ، راستے کتنے ہی کٹھن ہو جائیں تم ہمت نہ ہارنا ، تم ایک ایک پردے کو چاک کرتے رہنا ، تم ہر ہر رکاوٹ کو ہٹاتے رہنا اور کوشش کرنا کہ رُکو نہیں جھکو نہیں ، ایک نا ایک دن تمہیں بھی کوئی سرخ و سفید سی روشنی نظر آئے گی ، تم اس تک پہنچنا اور جب تم اس تک پہنچ جاؤ گے تو تمہاری منزل قریب ہوگی ، پھر ہمت کرنا اور اس منزل تک پہنچ جانا ، جہاں ایک جہاں تمہارا منتظر ہوگا ، جس جہاں میں تم روشنی بن کر چمکو گے اور یہاں سے تمہارا وہ وقت شروع ہوگا جب تم اپنے لئے لڑنا ، جد وجہد کرنا اور اپنے لئے جینا چھوڑ دو گے کیونکہ تم سے ایک جہاں روشن ہوگا ، اور پھر تم جہاں بھر کیلئے بصورتِ ماہتاب بن جاؤ گے ، جہاں تم کبھی چند کرنوں کی طرح بکھر کر لوگوں میں زندگی کی ایک نئی کرن بکھیرو گے ، تو کبھی نرم گرم سی شعاؤں کی مانند راحت و سکون کا ذریعہ بنو گے ، اور پھر کبھی پوری تمازت کے ساتھ اُفق پر اُبھر کر ہمہ جہت روشنی کا سبب بنو گے ، اور یونہی زندگی کی صبح و شام ہوتی رہی تو پھر بعد از غروب بھی لوگ تمہیں یاد رکھیں گے ، ورنہ سب ہی جانتے ہیں کہ “مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے”۔

اِسی روشن ہوتی صبح کے ساتھ ہم سب نے نمازیں ادا کیں اور پھر انتظار کرنے لگے کہ کوئی اسٹیشن آئے تو ناشتے کا اہتمام بھی ہو سکے ، اور اسی تعاقب میں ہماری نگاہیں جو کھڑکی سے باہر گئیں تو لہلہاتے کھیت و کھلیان نے آنکھوں کو خیرہ کر دیا ، دور دور تک “جَو” کی تیار فصلیں پھیلی ہوئی تھیں ، کہیں کہیں سرسوں اور گنے کے کھیت بھی نظر آ رہے تھے جو خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔
اسی اثنا میں مبارک پور کی تختی نظر آئی تو ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ کوئی شہر تو آیا لیکن ہماری ٹرین کہیں رکنے کو ہی تیار نہ تھی ، لیکن اب یہ بات تشویشناک ہوتی جا رہی تھی کیونکہ ٹرین سے مسلسل کالا دھواں اٹھ رہا تھا ، کچھ جلنے کی بدبو آ رہی تھی اور ٹرین بھاگے چلی جا رہی تھی۔
بالآخر سمہ سٹہ آیا اور ریل رک گئی ، ہم سب ابھی جوتی وغیرہ پہن ہی رہے تھے کہ الیاس نے آواز لگائی “بھائی سچ میں آگ لگ گئی”
اللہ خیر۔۔۔
کیا ہوا بھئی؟ جب نیچے اترے تو سارے لوگ ہی انجن کے پاس جمع ہو چکے تھے ، قریب جا کر دیکھا تو ساری مشینری جل رہی تھی ، ریلوے عملہ مسلسل آگ بجانے کی کوشش کر رہا تھا اور لوگ عملے پر چیخے چلے جا رہے تھے۔۔

کوئی کہتا “چار گھنٹے ہو گئے ، تمہیں کوئی اندازہ ہی نہیں کہ گاڑی میں آگ لگی ہوئی ہے؟” آگے سے جواب آتا: چاچا۔۔۔پتا تھا اسی لئے تو بھگا رہے تھے۔۔۔
کوئی اے سی لوئر کا دل جلا کہتا ، “ابے سارا سسٹم خراب ہے تمہارا ، اے سی بند ہو گئے اور کھڑکیاں کھلتی نہیں ، خود تو مزے سے اے-سی میں بیٹھے ریل چلا رہے ہو مسافروں کا کوئی احساس ہی نہیں” پھر جواب ملتا ، انکل آپ ہی تو کہہ رہے ہیں کہ اے-سی بند ہو گئے تھے ، ہم بھی گرمی میں ہی مر رہے تھے۔

کہیں سے کسی ٹیکنیکل انجینئر کی آواز آتی “ہزار بار کہا ہے کہ کیمرے نصب کر لو ، تم خود تو کیبن میں ہوتے ہو ، یہاں سادی ٹرین جل جاتی ہے” اس پر ایک برجستہ سا منہ توڑ جواب ملا کہ: بھائی صاحب کیمروں سے کیا آگ بجھ جائے گی؟ ہم بھگاتے اسی لئے رہے ہیں تاکہ پانی والی جگہ پر روکیں اور آپ کیمرہ کیمرہ کر رہے ہیں۔

خیر عوام اور عملے کے درمیان یونہی سوال جواب چلتے رہے پھر آہستہ آہستہ لوگ خاموش ہو گئے اور آگ پر بھی قابو پا لیا ، جب ذرا عملہ سکون میں آیا تو ہمیں ایک سوال سوجھا کہ کیا ہم اسٹیشن سے باہر جا کر ناشتہ لے آئیں؟

ہم نے جب عملے سے پوچھا تو پتا چلا کہ ابھی کافی دیر لگنی ہے ، سمہ سٹہ اسٹیشن سے متصل ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جہاں سے ہم نے ناشتہ لیا ہنسی مذاق کرتے ہوئے واپس سمہ سٹہ اسٹیشن کی راہ لی۔
ویسے اس سمہ سٹہ کا بھی ہمارے ساتھ تعلق گہرا ہی ہوتا جا رہا ہے ، پچھلی بار جب یہ رات کے وقت آیا تھا محمد نے تختی پڑھ کر بتایا تھا کہ: “کوئی سموسہ رول ٹائپ کی جگہ آئی ہے” اور اس بار تو ہمارا انجن ہی بھڑک اٹھا۔

سمہ سٹہ اسٹیشن کے بارے میں خدا یار خان چنار لکھتے ہیں: “۔سمہ سٹہ سے بہاولنگر کے لیے ہر گھنٹہ بعد ایک ٹرین نکلتی تھی – اور یوں 24 گھنٹے میں 24 گاڑیاں مسافروں کو لے کر انھیں منزل مقصود تک لے جاتی تھیں – ان ریلوے اسٹیشنز پر خوب رونق اور چہل پہل ہوا کرتی تھی – آج بہاولپور سے لے کر بہاولنگر ، فورٹ عباس سے منڈی صادق گنج تک اسٹیشن بھوت بنگلہ بنے ہوئے ہیں” اور یہی ہمارا بھی مشاہدہ رہا ہے ، اس کے علاؤہ یہاں کی کسی اہم تاریخ سے میں واقفیت نہیں رکھتا لیکن یہاں پر لگی تختی پر ایک شہر ایسا ہے جس کا وجود پاکستان میں دیکھ بڑی حیرانگی ہوتی ہے اور وہ ہے “بغداد” یعنی سمہ سٹہ اسٹیشن پر اتر کر آپ آسانی سے بغداد جا سکتے ہیں ، لیکن یاد رکھئے یہ بغداد وہ عراق والا بغداد نہیں بلکہ یہ پاکستان کا ہی بغداد ہے ، جس کو ۱۸۳۵ میں بہاولپور کے کسی نواب نے “بغداد الجدید” کے نام سے آباد کیا تھا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے اگلے دو گھنٹے اسی اسٹیشن پر گزرے ، دو گھنٹے بعد نئی اور ہیوی پاور ملتان سے آئی (جسے ہم انجن کہتے ہیں اسے ریلوے عملہ پاور کہتا ہے) اور آخر میں ہم شیزان کی بوتلوں میں گھر کی بنے ہوئے عجیب و غریب مشروبات پینے کے بعد واپس گاڑی میں بیٹھ گئے ، اور سمہ سٹہ اسٹیشن پر ریل نے دو ہارن بجائے اور ایک بار پھر ، ہارن بجاتے جاؤ ریل بھگاتے جاؤ کا سلسلہ شروع ہوا۔
جاری  ہے

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاریسیک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply