وحشی ماں(دوسرا،آخری حصّہ )۔۔۔رمشا تبسم

“جج صاحب اریبہ کا قتل نورالعین کے قتل سے کچھ روز قبل ہوا تھا۔اسی کے دکھ میں دیوانی ہو گئی  تھی یہ عورت۔ اور اتنی وحشی بن گئی  کہ  اس نے میری دوسری بچی کو بھی قتل کر دیا “۔

“جھوٹ ہے۔نورالعین سکون میں ہے۔” فرح نے اپنے الجھے ہوئے بال اپنی انگلی پر لپیٹتے ہوئے بے دھیانی میں کہا۔۔”جج صاحب آپ اریبہ کے مجرم پکڑیں وہ تکلیف میں تھی اسکا قتل ہوا ہے۔ میں نے قتل نہیں کیا۔نورالعین تو سو رہی ہے سکون سے ۔میں نے اسکو کھیر کھلائی تھی۔اسکو پسند ہے بہت کھیر۔اور اس نے ساری کھا لی۔”

“مائی لارڈ اسی کھیر میں زہر تھا۔جو ملزمہ نے اپنی بچی کو دے کر قتل کیا۔”وکیل نےاپنا کورٹ ٹھیک کرتے ہوئے سینہ تان کر جج کو مخاطب کیا

“ششش۔چپ بالکل چپ۔قتل نہیں کیا۔سکون پہنچایا ہے۔زہر تکلیف نہیں دیتا سکون پہنچاتا ہے۔”فرح سنجیدگی سے مخاطب ہوئی

“تو آپ مان رہی ہیں آپ نے زہر دیا؟”وکیل نے سوال کیا

“ہاں دیا تھا زہر۔”فرح نے ہاتھ سینے پر باندھ کر اعتماد سے جواب دیا

“تو آپ اپنے ہوش و حواس میں مان رہی ہیں کہ آپ نے اپنی بچی کا قتل کیا ہے؟”جج مخاطب ہوا

“ششش۔نہیں کیا قتل ۔تم نے دیکھا ہے نورالعین کو؟قتل ایسا ہوتا ہے؟میری نورالعین کا جسم پاک صاف تھا ایک خراش تک نہ تھی۔ وہ تو میرے ہاتھوں میں سو گئی  تھی۔ کھیر کھا کر تھوڑا روئی تھی تڑپ رہی تھی میں نے سینے سے لگا لیا زور سے، پھر خاموش ہو گئی ۔”فرح نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر آنکھیں بند کیں جیسے وہ کسی کو سینے سے لگا کر پُرسکون ہے۔
“بالکل سکون سے وہ سو گئی  یونہی خاموش ہوتی ہیں میری بچیاں، جب میں سینے سے لگا لوں ان دونوں کو۔”

دونوں؟ فرح نےیک دم آنکھیں کھول دیں۔۔

“دونوں ۔۔ مگر اریبہ وہ سکون میں نہیں سوئی ۔”فرح نے دونوں ہاتھ سامنے کر کے نہیں میں ہلانے شروع کیے۔”اس کو مجھ سے چھین لیا گیا۔قتل کردیا اس کو۔ ہائے میری اریبہ میری بچی۔”

“جانتے ہو قتل کیا ہوتا ہے؟ فرح نے چیخ کر کمرہ عدالت میں بیٹھے ہر شخص کی طرف نظریں دوڑائیں۔”جانتے ہو اشتیاق وحشی ہونا کیا ہوتا ہے؟ میں وحشی ماں ہوں؟میں؟”

“وحشی وہ تھے جنہوں نے میری اریبہ کو مارا۔قتل وہ تھا جو میری اریبہ کا ہوا۔اس کو سکول سے واپسی پر اٹھا لیا، سات سال کی میری بچی ننھا وجود نازک سی گڑیا۔کتنے دن ہم ڈھونڈتے رہے وہ نہیں ملی. پولیس نے مدد نہ کی۔بار بار کہتے رہے مل گئی  تو اطلاع دے دیں گے۔ مگر چار دن بعد اطلاع آئی  تو اتنی کہ  کوڑے کے ڈھیڑ سے ایک بچی کی لاش ملی ہے۔لاش نہیں تھی وہ اریبہ تھی میری ننھی اریبہ۔”فرح سینہ پیٹتے ہوئے زارو قطار رو رہی تھی۔”میری بچی کا جسم کوڑے کے ڈھیڑ پر پڑے ہوئے بھی کتوں نے نوچ لیا۔اور اس سے پہلے انسان نما کتے اسے نوچ چکے تھے۔”

کمرہ عدالت میں مکمل خاموشی تھی۔اشتیاق کے وکیل بھی اریبہ کی موت کی وجہ سے ناواقف تھے۔بظاہر اریبہ کا ذکر یہاں غیر ضروری تھا مگر اس وقت ہر زبان پر تالا تھا اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔

“میں وحشی ماں ہوں میں؟؟اریبہ کا ننھا وجود اپنے ہاتھوں میں اٹھایا تھا ۔جانتے ہو قتل کیا ہوتا ہے؟ اُس کے جسم پر انسانی وحشت کے نشان کتوں کے کاٹنے سے لگنے والے زخموں کے باوجود پہچانے جا سکتے تھے۔اُس کا نازک جسم کتنی وحشت اور اذیت سہہ چکا تھا یہ میں نے اپنے ہاتھوں میں اُس کا ننھا وجود تھام کر محسوس کیا تھا۔اسکی کلائیوں کو کئی بار تیز دھار آلے سے کاٹا گیا تھا۔اسکے چہرے پر کتوں اور انسانوں کے کاٹنے کے نشان تھے۔اسکی نازک ہڈیاں چکنا چور تھیں ۔اسکی ٹوٹی ہوئی گردن,ہاتھ سے کاٹی ہوئی انگلیاں,دھڑ سے الگ ہو چکے کان اسکے ٹوٹے ہوئے دانت سب میری نظروں کے سامنے تھا۔وہ کسی ٹوٹی ہوئی گڑیا کی مانند میرے ہاتھوں میں تھی۔جسے میں چاہ کر بھی جوڑ نہیں پائی کہ میں کیا کیا جوڑتی, کیا کیا اس کا واپس صحیح کرتی کہ اسکا وجود چیخ چیخ کر حیوانوں کی درندگی کو ظاہر کر رہا تھا”۔۔

“میری گڑیا ٹوٹ چکی تھی۔اسکو توڑنے والے آزاد تھے۔نہ جانے کتنی ماؤں کے کلیجے چھلنی کیا ہوں گے۔نہ جانے یہ درندے کتنی گڑیا کو توڑچکے ہوں گے۔کیسے کیسے توڑ چکے ہوں گے۔کتنا تڑپتی ہوں گی یہ گڑیا۔کتنا ماں کو پکارتی ہوں گی۔” فرح کی ہچکی بندھ گئی ۔کمرہ عدالت میں ہر آنکھ اشک بار تھی اکثر لوگ اپنے بہتے آنسوؤں  کی وجہ سے فرح کا چہرہ دیکھنے سے قاصر تھے۔مگر اسکی آواز اسکا درد ہر ایک کے دل کو تڑپا رہا تھا۔

اخباری نمائندوں تک اندر کی کاروائی پہنچ چکی تھی۔وہ اپنے اپنے چینل پر چیخ چیخ کر فرح بی بی کے کیس کا دلچسب رخ بتانے لگے ہر طرف عجیب شور برپا ہو گیا۔درختوں پر بیٹھے پنچھی ہوا میں یک دم اڑنے لگے۔

“اتنی اذیت سہتے سہتے نہ جانے کتنی بار انکی سانس کی ڈوری ٹوٹتی ہو گی؟۔پھر جب وہ مر جاتی ہیں تو حیوانیت کا کھیل کھیلنے والے انکو مزید نوچتے ہیں اور پھر کتوں کے لئے کچروں کے ڈھیڑ پر پھینک جاتے ہیں۔اس لئے پیدا کرتے ہیں ہم گڑیا کہ انسان اور کتے ان کو نوچ کھائیں۔؟”فرح روتے ہوئے کٹہرے میں بیٹھ گئی ۔چہرہ صاف کرکے بے بسی سے پھر بولی
“اریبہ کی ٹکڑے ٹکڑے ہوئی روح, بکھرا ہوا وجود مجھے خوفزدہ کر گیا۔کوئی میری گڑیا کو نوچ کھائے, کوئی اسے پل پل تڑپائے, کوئی اسکی ایک ایک ہڈی کو توڑے, کوئی اسکو بار بار چھری سے کاٹے ,کوئی اس پر حیوانیت دکھائے تو بہتر ہے میں میری دوسری گڑیا کو خود سکون پہنچا دوں۔میں خود اپنی دوسری گڑیا کو اپنے کلیجے سے لگا کر سکون کی نیند سُلا  دوں۔” یہ کہہ کر فرح سکون سے کھڑی ہوئی۔اسکے خشک ہونٹوں سے خون بہہ رہا تھا۔

“میں نے اپنی نورالعین کو صرف زہر دیا۔مگر نورالعین کا قتل نہیں کیا۔اریبہ اور نورالعین کا وجود دیکھو۔وہ وجود گواہی دیں گے کہ قتل کیا ہوتا ہے اور سکون کیا؟ میں نے اپنے ایک کلیجے کے حصے کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا۔اسکا ٹکڑے ٹکڑے ہوا وجود دیکھا۔اور دوسرے کلیجے کے ٹکڑے کو صرف زہر دے کر سکون پہنچایا۔ہاں اگر یہ سکون پہنچانا قتل ہے تو جاؤ پہلے میری اریبہ کے قاتلوں کو پکڑو۔ جاؤ پہلے پل پل ہماری گڑیوں کو نوچتے جانوروں کو پکڑو۔ جاؤ پہلے ہر جانور قید کرو کہ ہماری گڑیوں کی ہڈیاں چکنا چور کرنے والے فنا ہو جائیں پھر مجھ سے سوال کرنا۔میں نے میری نورالعین کو جانوروں سے پچایا ہے۔اور سینے سے لگا کر سکون کی نیند  سُلایا  ہے۔جاؤ پہلے ان درندوں کو پکڑو جو چند روپے کے عوض اور ہوس کی خاطر ہماری ننھی بچیوں کو نوچ کھاتے ہیں پھر مجھ سے سوال کرنا۔اشتیاق تم مجھے کہتے ہو وحشی ماں مجھے؟ تم ہو وحشی باپ۔تم ہو قاتل اپنی دونوں بچیوں کے۔” فرح چیخ کر اب سپاٹ چہرے سے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھی جو کٹہرے میں کھڑا تھا.
“تم ہو وحشی باپ میری اریبہ کے قاتل تم ہو۔تم نے اس کے قاتل اس وحشی درندے اپنے بھائی کو بچا کر اریبہ کے قتل میں حصہ ڈالا۔اریبہ کو نوچنے والا تمہارا بھائی تھا اور تم یہاں مجھے سزا دلوانے آئے ہو۔ایک چچا اپنی نازک بھتیجی کے ساتھ ایسا وحشی کھیل کھیلے اور باپ اپنے بھائی کے جرم کو معاف کردے ۔اور وحشی میں ہوں؟ تم ہو وحشی باپ۔اور وہ بیٹھا ہے تمہارا وحشی بھائی”۔فرح نے سامنے کرسی پر بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔جو اب ڈر کر کرسی سے اٹھ کر بھاگنے لگا۔مگر دروازے پر لگا ہجوم دیکھ کر خوف سے رک گیا اور پولیس نے دبوچ لیا۔

اشتیاق کے چہرے پر ایک دم خوف چھا گیا۔اس نے پولیس کی گرفت میں تڑپ رہے اپنے بھائی کو دیکھا۔اور کانپنے لگا۔

فرح نے اطمینان سے بات مکمل کر کے ہونٹ پر جمی پپڑی کھینچ کر اتار لی جس سے اسکے ہونٹ سے خون تیزی سے بہنے لگا اور وہ ہونٹوں کو دانتوں سے تیزی سے چبانے لگی ۔”میں وحشی ماں ہونہہ

جج نے سر جھکا لیا۔کمرہ عدالت میں مکمل خاموشی تھی۔اشتیاق سر پکڑ کر رو رہاتھا۔ فرح سینے پر ہاتھ باندھے دیوانوں کی طرح کھڑی تھی ۔
ہر شخص جان چکا تھا کہ  اپنا آنگن وہ اب خود مکمل اجاڑ چکی تھی۔اپنی گڑیا کو وہ خود بھی نوچ چکی تھی۔اپنی گڑیا کو وہ خود ہی تڑپا چکی تھی۔اپنے کلیجے کو وہ خود ہی چبا گئی  تھی۔سب کو اس درد کا احساس ہو گیا تھا کہ  ہیجان کی کیفیت ختم ہوتے ہی فرح کو اپنے ہاتھوں اجڑا ہوا چمن اب ہر پل تڑپائے گا آخری سانس تک یہ ماتم کناں رہے گی۔ شاید اب صرف سزائے موت ہی فرح کو مسلسل اذیت سے بچا سکتی تھی۔دیوانگی کے عالم میں موت کا کھیل کھیلنے والی ماں اسی دیوانگی میں موت کی آغوش میں چلی جائے تو شاید تکلیف سے بچ جائے ورنہ۔ ۔ ۔ ۔

“عدالت پولیس کو اریبہ قتل کیس میں اشتیاق اور اسکے بھائی کو گرفتار کرکے تفتیش کرنے اس معاملے میں جلد از جلد کاروائی مکمل کرنے کا حکم دیتی ہے۔اور ملزمہ نے چونکہ قتل کیا ہے۔اور اسکا اعتراف بھی کر لیا ہے۔لہذا وجہ جو بھی ہو کسی کو جان سے مارنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ۔عدالت فرح کی ذہنی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے انکا علاج کروانے کا حکم دیتی ہے اور فرح کو عمر قید کی سزا سناتی ہے ۔”

“علاج؟ علاج کیوں ؟میں پاگل نہیں؟میری بچیاں میرا انتظار کر رہی ہوں گی مجھے ان کے پاس بھیجا جائے۔ میری گڑیاں مجھے پکار رہی ہیں اریبہ , نورالعین ادھر آؤ میں ہوں یہاں ڈرو مت ”
فرح دیوانہ وار کرسی سے اٹھتے ہوئے جج کو دیکھتے ہوئے بولتی جا رہی تھی۔

“میری بچیاں ۔۔مجھے جانا ہے ان کے پاس۔” فرح ہتھکڑی کو منہ سے کھینچتے   ہوئے چیختے ہوئے بولتی جا رہی تھی۔ہتھکڑی کو دانتوں سے کاٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔اسکے دو دانت ہتھکڑی کے سوراخوں میں ٹوٹ کر پھنس گئے اور منہ سے خون بہنے لگا۔

اشتیاق اور اسکے بھائی کو اب ہتھکڑی لگ چک تھی۔اپنے سامنے سے پولیس کے ساتھ جاتی ہوئی فرح کو دیکھ کر اشتیاق نے ایک بار پھر کہا “وحشی ماں”

Advertisements
julia rana solicitors london

فرح نے خون آلود منہ سے ہنستے اور ہاتھوں سے بال نوچتے ہوئے اشتیاق کو منہ چڑایا۔فرح کے آنسو اس کے  گال سے ہوتے ہوئے تھوڑی پر آتے ہی اب خون آلود ہو رہے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply