کھیلن کو مانگے چاند(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

مجھے بھی شائستہ اور بچوں سے بہت محبت ہے مگر عظیم کا تو لیول ہی الگ تھا۔ وہ مجھ سے کوئی چار پانچ سال چھوٹا ہو گا مگر میں واقعی اس کے جزبہ محبت سے بہت انسپائر تھا۔ ایک آدھ دفعہ میں نے اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی مگر وہ ٹال گیا، سو میں سمجھ گیا کہ وہ دوستی دفتر تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے مگر میرے دل میں اس کے خاندان سے ملنے کی خواہش ضرور تھی۔ عظیم اپنے کنبے کی چھوٹی سے چھوٹی باتیں بھی مجھ سے شیئر کرتا تھا ، مثلاً ایک دن کہنے لگا کہ مجتبی آج دفتر سے فارغ ہو کر بازار جانا ہے تیمور(چھوٹا پوتا) کے لئے سائیکل لینے۔ ایک دن بہت خوبصورت سوئیٹر پہنا ہوا تھا(عموماً وہ سردیوں میں کوٹ یا واسکٹ پہنتا تھا) سوئیٹر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بتایا کہ بیٹی نے کوئٹہ سے بھیجا ہے۔ اکثر سردیوں میں بیٹی کے یہاں سے آئے ہوئے بہترین پستے سے میری تواضع کرتا تھا۔

زہرہ بھابھی سنیما بینی کی شوقین تھیں اور وہ دونوں مہینے دو مہینے پر فلم ضرور دیکھا کرتے تھے۔ مجھے اس کی فیملی سے لگاؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کے بیٹے حارث، بہو انجم اور پوتے بلال، تیمور اور نادیہ سے میں اتنا آشنا ہو چکا تھا کہ انہیں محسوس کرتا تھا۔ وہ اگر کہیں ملتے تو میں انہیں بنا کسی تعارف کے پہچان لیتا۔

زندگی اپنی مخصوص تیز رفتاری سے گزر رہی تھی۔ ہر شخص جانے کس چیز کی جلدی میں تھا، ایسے میں عظیم کی طبیعت کا سکون اور ٹھہراؤ بہت متاثر کن تھا۔
یہ میرے ریٹائرمنٹ سے کوئی دو مہینے قبل، سنچر کی برستی شام تھی۔ میری بہو پکوڑیاں تل رہی تھی اور پورے گھر میں دم پہ رکھی چائے کی خوشگوار مہک تیرتی پھر رہی تھی۔ میں برآمدے میں کرسی ڈالے برستی بارش سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ شائستہ کمرے سے آتیں نظر آئیں۔
آئیے جناب من کہاں غائب ہیں آپ اس قدر حسین موسم میں؟
شائستہ نے سنی ان سنی کرتے ہوئے فون میری جانب بڑھایا اور کہا کہ مستقل بج رہا تھا۔
دیکھیے کون ہے؟
میں نے نمبر دیکھا، کوئی انجان نمبر تھا۔ میں نے ڈائل کیا تو کسی نے بتایا کہ عظیم صاحب ہسپتال میں ہیں اور ان کے فون میں یہی نمبر سیو تھا لہذا وہ مجھے کال کر کے بتا رہا ہے۔ میں احمد کے ساتھ بھاگم بھاگ سول ہسپتال پہنچا۔ وہاں حارث نے بتایا کہ صبح بازار جاتے ہوئے عظیم کو ایک موٹر بائیک والے نے بری طرح ٹکر مار دی اور ان کو زخمی چھوڑ کر موقع پر ہی فرار ہو گیا۔ محلے والوں نے حارث کو بتایا اور یہ ان کو لیکر ہسپتال آیا۔ اب چونکہ رات سر پر ہے تو اس کو گھر جانا ہے کہ بیوی بچے اکیلے ہیں۔ مجھے حیرت تو ہوئی کہ کیسا بیٹا ہے کہ باپ کو اس بےکسی اور بےہوشی کے عالم میں چھوڑ کر جا رہا ہے؟

مگر مجھے عظیم نے بتایا تھا کہ بہو کے یہاں چوتھے بچے کی آمد آمد ہے۔ سو میں سمجھا کہ غالباً اس وجہ سے اس کو جانا پڑ رہا ہے۔ میں نے اس کو تسلی دی کہ بےفکر ہو کر جاؤ میں رات میں عظیم کے پاس رک جاؤں گا۔ چلتے وقت میں اس کو رخصت کرنے وارڈ کے دروازے تک آیا۔
اس نے مصافحہ کرتے ہوئے میرا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا کہ چچا بہت بھلے آدمی ہیں اور آپ کے آ جانے سے مجھے بہت ڈھارس ہوئی ہے۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ تم اپنے باپ کو چچا کہتے ہو؟
اس کے چہرے پر بےپناہ حیرت عود آئی، باپ؟
آپ کو شاید کچھ غلط فہمی ہے۔
چچا میرے گھر میں عرصے دراز سے کرائے دار ہیں۔ یہ دس سال پہلے سکھر سے کراچی آئے تھے اور ان کی خستہ حالی دیکھ کر میں نے ان کو نیچے کے حصے کا آدھا پورشن کرائے پر دے دیا تھا ۔ یہ نہایت منکسرالمزاج اور شریف آدمی ہیں اور ہمیں آج تک ان سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ یہ غالباً دنیا میں تنہا ہیں۔ یہ کم ہی کسی سے گھلتے ملتے ہیں۔
یہ کہہ  کر وہ چلتا بنا اور میں حق دق کھڑا رہ گیا۔
احمد نے آ کر میرے کندھوں پر ہاتھ رکھا تو میں حقیقی دنیا میں لوٹ آیا۔ میں نے احمد سے کہا کہ تم گھر جاؤ ، صبح ناشتہ لے کر آنا۔ احمد نے بہت ضد کی کہ رات وہ رک جاتا ہے اور میں صبح آ جاؤں مگر میں نہ مانا۔

احمد کے جانے کے بعد میں کرسی گھسیٹ کر عظیم کے نزدیک بیٹھ گیا اور غور سے اس کا زرد ستا ہوا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا اور ڈرپ قطرہ قطرہ اس کی نسوں میں تھکی ہوئی زندگی کو دوبارہ رواں کر رہی تھی۔
میں نہیں جانتا کہ یہ بے ریا اور مخلص انسان دوہری زندگی کیوں گزار رہا تھا مگر مجھے اس پر غصے کے بجائے بےانتہا ترس آ رہا تھا۔ فجر کے قریب عظیم نے ایک کراہ کے ساتھ آنکھیں کھولیں۔
میں جلدی سے بھاگ کر ڈاکٹر کو بلا لایا۔ عظیم ابھی بھی کچھ ہوش اور بےہوشی کے درمیان تھا۔
نو بجے احمد ناشتہ لیکر آیا تو میں نے اس سے کہا کہ جائے اور بڑے ڈاکٹر سے اس کی حالت پوچھے کہ میں عظیم کو دوسرے ہسپتال میں منتقل کرنا چاہتا تھا۔ دوپہر تین بجے تک یہ کاروائی مکمل ہو گئی اور میں اس کو انڈس ہسپتال لے آیا۔
اب عظیم پورے ہوش میں تھا مگر اس نے مجھے کسی بات سے نہیں روکا۔ احمد کو اس کے پاس چھوڑ کر میں گھر آیا۔ نہا دھو کر اپنی اور اسکی درخواست لکھی اور شائستہ کو تاکید کی کہ کل دفتر جاتے ہوئے احمد دونوں درخواستیں فیکٹری میں دیتا جائے۔
مغرب کی نماز کے بعد میں ہسپتال پہنچا۔ عظیم خاصا بہتر تھا۔ حال احوال ہوا پھر ہم دونوں کے درمیان ایک گونجتی خاموشی در آئی۔ تھوڑی دیر کے بعد عظیم نے کہا تم مجھ سے کچھ پوچھو گے نہیں؟
میری خاموشی پر ایک طویل وقفے کے بعد ایک ٹرانس کی کیفیت میں عظیم نے بولنا شروع کیا کہ
اس کو اپنی اوائل جوانی میں ہی احساس ہو گیا تھا کہ وہ نارمل نہیں ہے میں ایک نامکمل انسان تھا ۔ رہی سہی کسر رازداری کے چکر میں اناڑی حکیموں نے پوری کر دی تھی ۔ نوکری لگنے کے بعد جب ماں کی طرف سے شادی کا دباؤ بڑھا تو میں نے ماں کو شریک راز کر لیا۔ اماں نے ڈاکٹر سے مدد لینے کے سلسلے میں بڑے بھائی سے مشورہ کیا اور یوں یہ بات کھلتی چلی گئی۔ ڈاکٹروں نے مجھے لاعلاج قرار دیا۔ شروع میں میں خاندان میں قابل رحم اور پھر طنز و مزاح کا ہدف بن کر رہ گیا۔ یہ دکھ اور بےبسی مجھے تنہائی پسند اور گوشہ نشین کرتی چلی گئی۔ مگر تم تو جانتے ہو نا مجتبی کہ اپنوں کا وار کتنا کاری ہوتا ہے۔ وہ دکھتی رگ دبانا بخوبی جانتے ہیں۔

“مجھے جو بھی دشمن جاں ملا وہی پختہ کار جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خطا ہوا”۔

میں جیسے تیسے سکھر میں دن گزار رہا تھا۔ بس اماں کے مرتے ہی ان کے سوئم کے دن سکھر چھوڑ دیا۔ اسٹیشن پر کراچی کی گاڑی تیار کھڑی تھی اس پر بیٹھ کر کراچی پہنچ گیا۔ اسٹیشن پہنچ کر ٹیکسی والے سے قریب ترین سرائے کا پتہ پوچھا اور اللہ والا سرائے میں دو مہینے مقیم رہا۔
وہ سرائے حارث کے چچا کی تھی۔ اس بیچ مجھے اللہ کے فضل سے نوکری بھی مل گئی اور سرائے والے مشکور صاحب کی سفارش پر حارث کے نچلے آدھے پورشن پر کرائے کا گھر بھی۔
میں لوگوں سے بہت خائف تھا اس لئے میرا ملنا جلنا نہ ہونے کے برابر تھا۔ پھر کراچی جیسے مصروف شہر میں ویسے بھی “تو کون، میں کون” ۔ میں با آسانی اس درویش شہر میں بس گیا۔ نہ میں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا اور نہ وہاں سے کبھی کوئی میری تلاش میں آیا۔

میں نہیں جانتا کہ کب آہستہ آہستہ میرے ذہن نے حارث کی فیملی کو اڈاپٹ کر لیا اور میں نے اپنا تصوراتی گھر بسا لیا۔ جہاں زہرہ میری بیوی اور حارث کا خاندان میرا خاندان بن گیا۔ کبھی کبھی میں چاہتا تھا کہ کسی ماہر نفسیات سے مدد لوں مگر یقین کرو مجتبی میرا تصوراتی گھر اتنا بھرپور اور خوبصورت تھا کہ میں خود میں اس کو توڑنے کی ہمت نہیں پاتا تھا۔ میری یہ خیالی دنیا کسی کو نقصان بھی تو نہیں پہنچا رہی تھی۔
ہاں مگر یہ تصوراتی گھر میرے تپتے دل کے لئے مرہم تھا،
میرا نخلستان تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب تم دفتر میں میرے پکائے ہوئے کھانوں کی تعریف کرتے تھے تو یقین جانو مجھے ایسا لگتا تھا جیسے زہرہ کے سگھڑاپے اور سلیقے کی تعریف ہو رہی ہے۔ پھر میں نے زہرہ کے لئے ساڑھیوں کی شاپنگ بھی کی۔ جب میں فلم دیکھنے جاتا تھا تو دو ٹکٹ خریدتا تھا۔ میرے برابر کی سیٹ مجھے زہرہ کے وجود سے بھری بھری محسوس ہوتی اگر کبھی کوئی اس سیٹ پر بیٹھ جاتا تھا تو میں پکچر ادھوری چھوڑ کر اٹھ جاتا ۔ میں اپنے آپ کو کبھی حارث اور کبھی بیٹی کی طرف سے تحائف دیتا۔
میں جسمانی طور پر ایک نامکمل مرد ہوں۔
ہاں میں نامرد ہوں مگر کیا کروں کہ اس نامکمل وجود میں کمبخت دل مکمل ہے۔
اللہ جب جسم ادھورا بناتا ہے تو دل کیوں مکمّل بناتا ہے مجتبی؟
خواہشات اور ارمان کیوں دل میں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں، کیوں مجتبی کیوں؟
بتاؤ نا!
چاہے جسم ادھورا ہو یا دل اس سے بڑا آزار دنیا میں اور کوئی نہیں۔ ادھورا پن انسان کو کھا جاتا ہے۔
اس کا شمار نہ زندوں میں ہوتا ہے اور نہ مردوں میں۔
وہ اپنے ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کر بلک بلک کر روتا رہا۔
میں ایک ٹک اسے دیکھتا رہا۔ میرے پاس نہ اسے دلاسا دینے کی ہمت تھی اور نہ ہی اس کے کسی سوال کا جواب ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply