• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امام بارگاہیں اور ان کی تاریخ(2،آخری حصّہ)۔۔ تحریر و تحقیق: سید فیضان عباس نقوی

امام بارگاہیں اور ان کی تاریخ(2،آخری حصّہ)۔۔ تحریر و تحقیق: سید فیضان عباس نقوی

اسی طرح عزا کا یہ سلسلہ گلی گلی کوچہ کوچہ تک پھیلتا گیا بعد میں آنے والے ائمہ کرام نے کربلا اور محرم کی روایات کو زندہ رکھا اور فروغ دیا۔ لیکن یہ تمام تر تقریبات مخصوص گھروں کے اندر بیان ہاتی تھیں حکومتی سختی کے باعث باقاعدہ طور پر کبھی نہیں منائی گئیں۔اموی دور حکومت سے 352 ہجری تک شعیوں کو محرم کی یہ تقریبات منانے سے منع کیا گیا تھا بعد ازاں محرم کی تقریبات باقاعدہ طور پر 963 عیسویں میں نواب معزالدولہ نے بغداد میں شروع کروائیں۔ جو کہ آل بویہ خاندان میں سے یہ خاندان آل بویہ محب اہلسنت تھے۔ اس دور میں پہلی مرتبہ محرم کی تقریبات عوامی طور پر منعقد ہونا شروع ہوئیں یوم عاشور پر شہر بھر میں تعطیل کا اعلان ہوتا اور سب کو خصوصی سوگ منانے کا کہا جاتا تھا۔ اور ماتمی جلوس منعقد ہوتا تھا۔ اس وقت شیعہ اپنے گھروں سے باہر آتے تھے سینہ کوبی کرتا ہوا یہ جلوس ایک احتجاج کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا اُس ظلم کے انتقام کا جذبہ لیے ہوئے جو کہ امویوں اور عباسیوں نے آلِ رسول ؐ اور علویوں اور کربلا میں امام پر کیے تھے۔ اس طرح عزاداری ایک رسم بلکہ رزم کی صورت میں کریہ کریہ، گلی گلی کوچہ کوچہ تک پھیل گئی اموی اور عباسی حکمران اپنے مظالم کے ذریعے اس تحریک اور جذ بے کو دبانا چاہتے تھے لیکن وہ آج امریکہ، یورپ، انگلینڈ، افر یقہ سمیت دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔
برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی تاریخ کم و بیش ایک ہزار سال پُرانی ہے جس نے برصغیر کی قدیم سماجی، ثقافتی زندگی پر بڑا گہرا اثر ڈالا۔مسلمانوں کی موجودگی سے برصغیر میں ایک نئی ثقافت کا آغاز ہوا تھا۔ لیکن 12 عیسوی کے آخر میں شیعہ مذہب کو عادل شاہ ہشیار پور میں قبول کر لیا گیا۔ شیعہ مدارس کا قیام ہوا لیکن پھر بھی اس دور میں محرم کے منا ئے جانے کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ لیکن ریاست گو لکنڈہ میں 1512؁ء میں قطب شاہ کی زیر سر پرستی باقاعدہ طور پر شیعہ تعلیمات کو سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا۔ اور اس طرح شیعہ تقریبات عوامی سطح میں منانا شروع کیا گیا اس طرح سے یہ سلسلہ پورے برصغیر میں پھیل گیا۔اس کے بعد رکن میں برہمن نظام شاہ، احمد نگر میں مغل، دہلی میں سلاطین، کشمیر اور ریاست اودھ نے براہِ راست شعیہ مذہب کو ترقی میں انکی مدد کی اور اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ دوسری جانب برصغیر سے باہر ایران، مصر، بغداد وغیرہ میں شعیہ مذہب سیاسی مذہب قرار پا چکا تھا۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر اپنے شائع ہونے والے بروشر میں لکھتے ہیں بادشاہ قطب شاہ نے شیعانہ تقریبات کو عوامی سطح پر منانے کا انعقاد کیا۔ تا کہ یہاں دوسرے مذاہب اور دیگر ثقافتی لوگ ایک ثقافت کا حصہ بن سکیں۔مصروف آرٹسٹ اکبر نقوی نے SOS میں لندن میں ہونے والے اپنے لیکچر میں کہا کی اسلامی اور دہندی تہذیبوں کے ملاپ سے جنم لینے والے س الہند کلچر میں یہ خاصیت تھی کہ اس نے پرانے ہندو کلچر کو مٹایا نہیں بلکہ نئی صورت میں قبول کیا جس سے نئی نئی چیزیں سامنے آئیں۔ دوسروں کی عزت اور مذہبی تقدس کی علامت جسے سب مذاہب مانتے ہیں یہ رواداری کی علامت ہے۔یہ کلچر حکومتی سطح پر مذہب سے لا تعلق نہیں تھا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ لوگ انتہائی مذہبی تھے لیکن مذہب کے درمیان رہتے ہوئے فرق کو انسانی قدروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ انسانی اقدار اور مذہبی عزت کا دور دورہ تھا اور یہ قدریں ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات میں ایک دوسرے کو قریب لانے کا بھی ذریعہ تھیں ” 20 صدی میں محرم کی تقریبات جو انڈیا کی مختلف جگہوں حیدرآباد، دکن میں دیکھیں ہیں۔ سب کسی نہ کسی طرح درشن کی خاطر جھکتا نظر آیا۔ جس میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی شریک ہوتے ہیں۔ “دو ماہر سماجیات لکھنٗو یونیورسٹی انڈیا سے جنکے ندیم حسین اور ابرار حسین محرم کی تقریبات کو تشکیل قوم سے تشبیہ دیتے ہیں۔اورلکھتے ہیں کہ بھارت کی بہت سی جگہوں ہندو مسلمان کی محرم کی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں جو کہ ثقافتی ہم آہنگی کی ایک اچھی مثال ہے بر صغیر میں امام بارگاہوں اور تعزیہ داری کی تاریخ بڑی دلچسپ اور روشن رہی ہے۔اس کا ذکر عہد مغلیہ میں بھی ملتا ہے۔مغل حکمرانوں نے جہاں مصوری،خطاطی،تعمیرات اور دیگر فنون کو ترقی و دوام بخشا وہاں تعزیہ داری کو وہ عروج حاصل ہوا کہ تعزیہ داری کو بھی نئی جہتیں اور رونقیں ملیں۔ماہنامہ رضاکار لاہور کے 1962 ء عزاداری نمبرکے صفحہ نمبر 158 پر شہنشاہ ہمایوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ہمایوں بادشاہ شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران کی جانب بھاگ گیا تھا۔پھر پندرہ سال بعد ایرانی بادشاہ شاہ طہماسپ کی مدد سے دوبارہ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔اس نے شاہ ایران کے ہاتھوں مذہب شیعہ قبول کرلیا تھا۔چنانچہ ہمایوں نے 959 ھ بمطابق 1552 ء میں اپنے وزیر اعظم بیرم خان جوکہ شیعہ تھا اور ہر سال کربلائے معلی جایا کرتا تھا۔اُسے خصوصی طور پر کربلا بھیج کر ایک قیمیتی ضریح مبارک بمطابق تمثیل روضہ مبارک حضرت امام حسین ؑ کے بنوائی۔اور قیمتی جواہرات سے مزین کر کے یہ ضریح اقدس شاہی محل میں رکھی گئی۔عہد ہمایوں کے مشہور شاعر حیدر توتیائی کا یہ شعر ہر جلوسِ تعزیہ میں لکھا ہوتا تھا۔
ماہ محرم آمد ہ شد گریہ فرض عین
کریمیم خون بیادِ لب ِتشنہ حسین ؑ
ترجمہ؛۔ ماہ محرم کے کے آتے ہی لوگوں پر آنسو بہانا،آہ بکا کرنا لازم ہے۔یہ آہ و زاری،خون کے آنسو بہانا،امام حسین کے پیاسے ہونٹوں کی یاد میں ہے۔
یہ ضریح اقدس شہنشاہ اکبر کے دور تک شاہی محل میں موجود رہی۔اور ایام محرم میں عزاداری کے بعد یہی ضریح برآمد کی جاتی تھی۔عہد جہانگیر میں ملکہ نور جہاں نے درگاہ مغنیہ اجمیری (تارا گڑھ) میں چند موضعات معافی دلائے تھے تاکہ وہاں عزاداری کی جائے۔اسی طرح شاہی فرمان کے تحت وہاں تعزیہ داری کی اجازت مل گئی۔ روایت کے مطابق آج کل جو تعزیہ قلعہ سے برآمد ہوتا ہے وہ عہد اکبری کی یادگار ہے۔رضا کا ر،ص ۴۰۱ پر درج ہے کہ سکھو ں کے عہد،مہا راجہ رنجیت سنگھ کے زما نے میں پنجا ب کے ہربڑ ے شہر سے تعزیہ کے بڑ ے جلو س نکلتے تھے۔اسی دور میں فقیر خا ندا ن کے ایک بز ر گ سید عز یز الدین،محبت ِ حسین ؑ سے سر شا ر اور غم ِ مظلو م کر بلا میں تعز یہ دار تھے۔الف شا ہ کے اما م باڑے میں چھٹی محر م کا جلو س اس خا ندا ن سے ا ٹھ کر جا تا ہے ا ور آ ج تک یہ خا ندا ن عز ا ئے حسین ؑاسی شا ن سے منا یا جا تا ہے۔
لاہور میں عزاداری کا آغاز زمانہ قدیم سے ہی ہو چکا تھا لیکن لاہور میں تعزیہ کی ابتداء سید غلام حسین شاہ المعروف گامے شاہ سے منسوب ہے۔گامے شاہ نے لاہور میں سب سے پہلا تعزیہ 1828 ؁ میں سکھ حکومت مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد حکومت میں نکالا۔روایت کی جاتی ہے کہ بابا گامے شاہ دنیا سے ماورا زمانے کی نظر میں دیوانے اور اہل بیت ؑ کی نگاہ پاک باز میں عارف کامل شیعہ عزادار تھے۔آپ ہمیشہ سیاہ لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔اور آپکا قیام دربار داتا صاحب کے پہلو میں جہاں قدیم برف خانہ تھا (جہاں اب آپکا مزار ہے) تھا۔آپ وہا ں بیٹھا کرتے تھے ااور تعلیمات اہل بیتؑ کا پرچار کرتے تھے۔اور لوگوں کو واقعہ کربلا میں خاندان رسول ؑ پر آنے والی مصیبتوں کا بتاتے تھے۔لاہور میں آپ نے سانحہ کربلا اور عزاداری کو عام کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔تاریخ لاہور کے مولف کنیہا لال ہندی اپنی کتاب تاریخ لاہور کے صفحہ نمبر 305 پر لکھتے ہیں کہ یہ بہت عالیشان مکان بیرون بھاٹی گیٹ داتا گنج بخش کے مزار کے سمت جنوب میں واقع ہے اس کے اندر گامے شاہ کی قبر ہے جو کہ اس امام باڑے کا بانی تھا۔1849 ء میں اس مکان پر سخت صدمہ آیا۔دس محرم کو جب ذوالجناح نکلا تو راستہ بین متصل شاہ عالمی دروازے کے خوب زدو کوب ہوئی قوم مخالف نے اس روز اس مکان میں گھس کر اندرونی مکانات گرا دئیے مقبرے اور قبریں بھی ٹوڑیں۔پانی کے کنویں کو اینٹوں سے بھر دیا۔گامے شاہ کو ایسا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا لاہور کے ڈپٹی کمشنر نے انارکلی چھاؤنی سے فوج کا دستہ طلب کیا تو لوگ منتشر ہوئے بعض کو سزا بھی ہوئی۔ابتدائے زمانہ لاہور میں عزاداری کے قدیم مراکز صرف اندرون شہر کی جانب ہی واقع تھے لیکن بعد ازاں لاہور کے مشرقی جانب قدیم علاقے دھرم پورہ جوکہ ہندؤں اور سکھوں کا مذہبی مرکز تھا۔یہاں بھی ہندو اور سکھ تعزیے بنا کر برآمد کرتے تھے۔جوکہ آج بھی اپنی سابقہ روایات اور شان کے ساتھ سجائے جاتے ہیں۔ مگر اب ہندوں کی بجائے سنی المسلک کے لوگ اس جگہ نو محرم کی رات کو تعزیے سجاتے ہیں جوکہ عاشورہ تک رہتے ہیں۔ساری رات حلیم کی دیگیں تیار کی جاتی ہیں جوکہ دس محرم کی صبح کو بانٹی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ تعزیے چو بچہ کے علاقے میں سجائے جاتے ہیں۔جہاں قیام پاکستان سے قبل سکھوں کا گردوارہ چوبچہ صاحب تھا۔ اس وقت لاہور میں تین سوسے زائد امام بارگاہیں قائم ہو چکیں ہیں۔(جن پر تحقیق کا کام جاری ہے عنقریب اس پر کتاب لکھی جائے گی)
لیکن تاریخی امام بارگاہیں زیادہ تر اندرون لاہور اور اسکے مضافات میں ہیں۔قیام پاکستان کے بعد بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے شیعہ حضرات نے اپنے بزرگوں کے قائم کردہ اما م بارگاہ جنہیں وہ انڈیا چھوڑ آئے تھے اسی سلسلے کو یہاں قائم کیا آج وہ شیعیت کے بڑے مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جہاں ایام عزا میں ہزاروں افراد کا اجتماع ہوتا ہے۔ اور لوگ رسول خدا ﷺ کو ان کے اہل خانہ کی دلدوز شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہیں۔اندرون لاہو رمیں اس وقت پرانے امام بارگاہوں میں امام بارگاہ سیدے شاہ محلہ پیر گیلانیاں اندرون موچی دروازہ اور امام بارگاہ ماتم سرائے کو ابتدائی امام بارگاہ رتصور کیا جاتا ہے۔ان کے علاوہ امام بارگاہ مائی آغا، امام بارگاہ سید رجب علی، امام بارگاہ سید الف شاہ اندرون دہلی دروازہ، امام بارگاہ سید اکبر علی شاہ،امام بارگاہ دولت شاہ،امام بارگاہ نادر شاہ سیفی، اندرون رنگ محل، ا مام بارگاہ حکیم ولی شاہ نزد چوہٹی مفتی باقرامام بارگاہ شیر گڑھیاں،امام بارگاہ باب، حسن موچی دروازہ،امام بارگاہ واجد علی شاہ وغیرہ شامل ہیں جوکہ زیادہ تر موچی دروازہ میں واقع ہیں۔اسکے علاوہ کٹڑی باوا چونا منڈی میں، حویلی فقیر خانہ بھاٹی گیٹ میں قدیمی امام بارگاہ ہیں۔اسکے علاوہ اسلام پورہ کرشن نگر میں عزا خانہ پانڈو سٹریٹ،امام بارگاہ کلسی ہاؤس، امام بارگاہ سید ریاض علی شاہ نکلسن روڈ، ایبٹ روڈ پر واقع امام بارگاہ گلستان زہرا ؑ، مغل پورہ میں امام بارگاہ ابو الفضل العباس، دھرم پورہ میں امام بارگاہ سید محمد طفیل شاہ اور امام بارگاہ سجادیہ، امام بارگاہ حسینیہ بستی سیدن شاہ کے علاوہ تین سو زائد امام بارگاہ گڑھی شاہو، دھرم پورہ، مغل پورہ، ہربنس پورہ، باٹا پور، برکی، ہڈیارہ، پڈھانہ، صدر کینٹ، آر اے بازار، ڈیفنس، ٹھوکر نیاز بیگ،جوہر ٹاؤن، اچھرہ، علامہ اقبال ٹاؤن، اسلام پورہ، انار کلی، کے علاقوں میں واقع ہیں جن پر الگ سے فیچر زشائع کیئے جائیں گے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply