فتویٰ برائے فروخت۔۔روبینہ فیصل

جو انسان بزدل اورکمزور ہو تا ہے، پستا رہتا ہے لیکن جب اسے موقع  ملتا ہے تو وہ ظالم سے بھی بڑا ظالم بن جا تا ہے کیونکہ بے حسی اس کی رگ رگ میں اتر چکی ہو تی ہے۔اس پر ایک کہانی لکھ رہی تھی کہ درمیان میں ایک نوجوان دوست کی پریشانی سے لبریز کال نے ڈسٹرب کر دیا اورعام طور پر جس چیز میں میں ہاتھ ڈالنے سے کتراتی ہوں اسی میں چھلانگ لگا نے کا سوچا۔۔ ایسے tabose کے خلاف میں بھی نہیں بولوں گی تو کون بولے گا؟ اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ صرف میں ہی کوئی بہادر ہوں، اس بات کا یہ مطلب ہے کہ میں ہی وہ بے وقوف ہوں جو زندگی میں بارہا  جان اور عزت کی پرواہ کئے بغیر، ایسے کئی شجر َ ممنوعہ کو چکھنے کے پنگے لے چکی ہوں۔اس لئے لوگ جب مجھے بہادر کہتے ہیں تو میں دل ہی دل میں خود کو یقین دلاتی ہوں کہ میں صرف ایک بے وقوف ہوں، جو نتائج کی پرواہ کئے بغیر، کسی بھی ناانصافی اور جھوٹ کے خلاف اٹھ کھڑی ہو تی ہوں اور بعد میں معصوم بنی سوچتی ہوں کہ یہ اتنے سارے لوگ میرے خلاف کیوں ہوگئے ہیں۔ (یہاں ہنسنا ہے، LOLکالمز میں رکھنے کا رواج نہیں پڑا ابھی)۔

بقول ڈاکٹر خالد سہیل، آدھے لوگ روبینہ سے شدید نفرت کرتے ہیں اور باقی آدھے اتنی ہی محبت۔۔ڈاکٹر صاحب چونکہ ہمدرد انسان ہیں، اس لئے پرسنٹیج میں ڈنڈی مار گئے میرے خیال میں یہ تناسب:10 90 ہے،کیونکہ مجھ سے نفرت کروانے والے کام زیادہ سر زد ہوجاتے ہیں اس کی وجہ بھی بڑی old fashioned ہے کہ جھوٹ اور ناانصافی مجھ سے برداشت نہیں ہو تی۔تب میرا غصہ کالا ہو جا تا ہے۔۔ جو کہ بہرحال دل کالا ہو نے اور لوگوں کی مصنوعی شرافت اور اخلاق سے بہت بہتر ہے۔۔ اس نقص کو ٹھیک کر نے کے لئے ڈاکٹرز کے پاس میرا علاج جاری ہے۔ امید ہے کہ عنقریب میں بھی upgradedہو جاؤں گی۔

خیربات ہو رہی تھی اس فون کال کی جو اس دوست کی تھی، جسے میں نئی نسل کے ان سپوتوں میں سے سمجھتی ہوں۔جو سچ کی کھوج میں بھی رہتے ہیں اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کر نے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ جو پاکستان کے معاشرے کا وہ نایاب حصہ ہیں کہ جب ہجوم کسی کو ناجائزمار پیٹ رہا ہو تو وہ خاموش تماشائی بنے کھڑے نہیں رہ سکتے اور جو جھوٹ اور سچ ذاتی مفاد کی خاطرنہیں گھڑتے۔ بلکہ دین، ملک، خاندان کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں۔مگر آج اس کی آواز اجنبی لگی جس میں نہ ہنسی کی پھوار تھی نا کوئی تازگی، سالوں پرانی دوستی ہے، مگر میں نے اسے بڑی سے بڑی تکلیف میں بھی مسکراتے دیکھاہے۔
میں نے کہا تم اتنے پریشان کیوں ہو۔؟ اس نے کہا ہاں روبینہ میں ایک پنگا لے بیٹھا ہوں اور یہ مجھ سے سنبھالا نہیں جا رہا۔
سنیں!!

ہمارے خاندان کی ایک عورت نے کسی مرتد سے شادی کر لی تھی،یعنی جو دینِ اسلام سے پھر گئے، اور شادی کے بعد وہ عورت بھی اپنے شوہر کی تقلید میں مرتد ہو چکی ہے۔میرے دوست کا خاندان پاکستان کے ایک بڑے شہر میں رہنے والا، پڑھے لکھے لوگوں کا خاندان ہے مگر اس وقت سب اس محاذ کا سامنا کر رہے ہیں کہ مرتد لڑکی تو بے شک بیاہ کے کسی اور ملک چلی گئی مگر اس کے بوڑھے ماں باپ اور باقی بہن بھائیوں کا پو را خاندان بائیکاٹ کر دے۔۔۔جو یہ نہیں کرے گا، وہ بھی کافر قرار پائے گا اور اس کا بھی بائیکاٹ کر دیا جائے گا۔ (یاد رہے لڑکی کا شادی کے بعد دوسرے ملک جانے کے بعد سے اپنے ماں باپ سے بھی رابطہ نہیں)۔قابل ِ تشویش یہ بات ہے کہ اس خاندان، کی پھرکی گھمانے والا، ایک میڑک پاس بندہ ہے۔ اور اس نے مفتیوں سے کفر اور بائیکاٹ کے فتوے لے لے کر اس لڑکی اور خاندان میں ان کے حمایتیوں جن میں میرا دوست بھی شامل ہے، کے  ناک میں دم کر رکھا ہے۔

جا ہلیت، چاہے ان پڑھ کر یں یا پڑھے لکھے، اس میں اتنی طاقت اور کشش ہو تی ہے کہ اس سے عام لوگ یا تو متاثر ہو جاتے ہیں یا خوفزدہ ہو کر ساتھ مل جا تے ہیں۔ لہذا آدھے سے زیادہ خاندان، اس بائکاٹ پر متفق ہے ۔ یہاں تک کہ  میرے دوست کی بھابھی جو،ا س جہادی کی بہن ہیں، اپنے گھر جا بیٹھی ہیں، کہ جب تک ان کا پورا خاندان لڑکی کے گھر والوں کا بائیکاٹ نہیں کرتا، تب تک وہ اپنے بچوں سمیت اپنے مومن بھائی کے گھر ہی رہے گی اور شوہر کے گھر پر تھو کے گی بھی نہیں۔ یعنی اپنی فیملی لائف برباد ہو تی ہے تو ہو، وہ کسی ایسے گھر میں نہیں رہ سکتی جہاں مرتد بیٹی کے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ ہو نے والی بے انصافی کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے، اور جو گھر ان کے فتوؤں کو خاطر میں نہیں لے رہا۔ میرے دوست کو خو ف یہ تھا کہ جس طرح جذباتیت کی لہر اٹھ رہی ہے اس حساب سے، ان والدین کے قتل کا فتوی نہ کوئی اٹھا کے لے آئے اور ان لوگوں کو اسلام کے نام پر مار دیا جائے۔۔یہ کہتے ہو ئے اس کی آواز لر ز رہی تھی اور یہ سن کر میں پو ری لرز اٹھی۔

مرتد۔۔۔ دین سے ارتداد۔۔دین سے پلٹ جا نا۔۔ دین سے مراد اسلام ہے۔ اور عام تاثر یہ ہے کہ مرتد کی سزا موت ہے۔
حامد رضا ایک پرانا،سچا دوست، اس سے جب بھی کوئی مذہبی، لٹریری بات ہو تی ہے، ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع  ہی ملتا ہے۔ اور مذہب کے معاملے میں ہم دونوں کی سوچ قدرے مشترک ہے۔اس سے اور ایک آدھ اور معتدل،دین کی آگاہی رکھنے والے، پڑھے لکھے مسلمان دوستوں سے رائے مانگی۔ کیونکہ میرا دماغ جو انسانیت کو ہمیشہ مذہب سے آگے رکھ دیتا ہے، اور اس معاملے میں مجھ سے مذہبی بھول چوک ہو نے کا امکان بڑھ جا تا ہے تو safe sideکے لئے ان سے پو چھا۔۔۔ ان کا جواب یہی تھا کہ مرتد سے رابطہ توڑنے کا حکم نہیں۔ بلکہ رابطہ رکھنا چاہیے  تاکہ دوبارہ مائل کیا جا سکے۔ بائیکاٹ یا قتل کا کوئی حکم، قرآن پاک میں کہیں پر نہیں ہے۔
حامد نے مجھے لنکس بھیجے، قرآن پاک کی آئیتیں بھیجیں، جن میں صاف صاف لکھا تھا کہ قرآن پاک انسانیت کے اوپر ایک احسان ہے، ایک انسان کو قتل کرنا، انسانیت کو قتل کر نے کے مترادف اور ایک انسان کو بچانا، پو ری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔ بار بار کئی آئیتوں میں، جگہ جگہ لکھاہے کہ” اسلام جبر کا مذہب نہیں ہے”۔ اور شرک، کفر اگر ناقابل ِ معافی جرم ہیں تو ان کی معافی اور سزا کا حق صرف خدائے برتر کی ذات کو ہے۔ تو خدا کی جگہ سزا اور جزا کے فیصلے کر نے والے کیا خود خدا کی jurisdiction مداخلت کر کے شرک کے مر تکب نہیں ہو رہے؟ کیا یہ blasphemyنہیں ہے کہ آپ قرآن ِ پاک کی بجائے، حدیثوں کے حوالوں سے فتوے تیار کریں اور انسانوں کو خدا اور قرآن پاک کے حکم کے بالکل برعکس جا کر قید ِ تنہائی یا موت کی سزا ئیں تجویز کر یں؟ ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوچیں!! ڈاکٹر اسرار احمد جب اپنے لیکچر میں یہ کہہ رہے ہیں کہ مرتد قابل ِ قتل ہے تو وہیں پر آگے چل کر خود ہی فرما رہے ہیں کہ قرآن ِ پاک میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے بلکہ یہ حضرت موسی کی” تورات “سے مستعار ہے۔ تو سوچیے  ایک مسلمان کے لئے قابل ِ عمل قرآن ِ پاک ہے یا متروک مذہبی کتابیں، جن کو تازگی اور عالمگیر،آفاقی وسعت بخشنے کے لئے ہی قرآن کو نازل کیا گیا تھا۔قرآن پاک کی توہین کرنے والے صرف وہی نہیں جو اسے جلا دیتے ہیں یا پھاڑ دیتے ہیں بلکہ اس سے بڑی توہین کر نے والے یہ نام نہا د مفتی ہیں، جو آئیتوں کو جھٹلا کر خو د ساختہ فتوے گھڑتے ہیں۔ اور انسانوں میں انتشار اور بد امنی پھیلاتے ہیں۔۔ یہ لوگ، یہ نام نہا د، فتوی فروش مفتی، الٹا لٹکائے جا نے کے قابل ہیں۔ خدارا سوچیے!! مولوی اور اسلام کو الگ الگ کر کے اسلام اور قرآن کو اکھٹا کر کے پھر سوچیں گے تو تصویر بالکل مختلف بنے گی، جس میں محبت، امن اور سچائی کے رنگ ہو ں گے۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”فتویٰ برائے فروخت۔۔روبینہ فیصل

  1. روبینہ جی! میں آپ کے کالم کے بیشتر حصے سے اتفاق کرتا ہوں مگر ایک نکتے پر مجھے اعتراض ہے۔ جہاں آپ نے حدیثوں کا حوالہ دیا ہے وہاں ضعیف حدیث لکھنا چاہیے بصورت دیگر کسی حدیث کو رد نہیں کیا جا سکتا اورقرآن پاک کو حدیث کے بغیر سمجھنا بھی بہت مشکل ہے اور آپ کے جملوں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے آپ خدانخواستہ احادیث کو قرآن پاک سے الگ اور متضاد ہونے کا الزام لگا رہی ہیں۔ براہ مہربانی اس پر نظرثانی فرمائیں۔ شکریہ

Leave a Reply