غزل۔۔سلمیٰ سیّد

‏جس کے گرد قائم وہ چاہتوں کا گھیرا تھا
اس کی کالی آنکھوں میں چیختا اندھیرا تھا

تم جو آج آئے ہو سرخوشی کا عالم ہے
کل یہیں اسی گھر میں درد کا بسیرا تھا

اس کے خیمہء ابرو اپنے گھر سے لگتے تھے
اس کے نور سے پُر نور ہر طرف سویرا تھا

‏میں نے سانپ دیکھے تھے نیلے بدگمانی کے
وحشتوں کے جنگل میں گھومتا سپیرا تھا

تم نے ہجر جھیلا ہے میری بات سمجھو گے
کھل کے مسکرانا تھا سسکیوں پہ پہرا تھا

Advertisements
julia rana solicitors

میری تجھ سے نسبت بھی خواب نہ بچا پائی
میری آنکھیں خالی اور اس کے سر پہ سہرا تھا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply