جس کے گرد قائم وہ چاہتوں کا گھیرا تھا
اس کی کالی آنکھوں میں چیختا اندھیرا تھا
تم جو آج آئے ہو سرخوشی کا عالم ہے
کل یہیں اسی گھر میں درد کا بسیرا تھا
اس کے خیمہء ابرو اپنے گھر سے لگتے تھے
اس کے نور سے پُر نور ہر طرف سویرا تھا
میں نے سانپ دیکھے تھے نیلے بدگمانی کے
وحشتوں کے جنگل میں گھومتا سپیرا تھا
تم نے ہجر جھیلا ہے میری بات سمجھو گے
کھل کے مسکرانا تھا سسکیوں پہ پہرا تھا
میری تجھ سے نسبت بھی خواب نہ بچا پائی
میری آنکھیں خالی اور اس کے سر پہ سہرا تھا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں