آبلے۔۔سکندر پاشا

ہمیں تو ان فرضی کہانیوں سے کبھی دلچسپی رہی اور نہ اتنی فرصت میسر رہی کہ “ایسے فارغ ترین مصنفین کو پڑھا جائے جن کو اتنی فرصت ہو کہ اپنے فرضی خیالات سے صفحات  سیاہ  کرتے ہوں اور پھر قاری پر احسان عظیم سمجھ کر شائع کرنے تک کی ہمت بھی کر لیتے ہوں۔ ”ایسے مصنفین کو سنگسار کرنے کے علاوہ کسی دوسری سزا کو ہم جائز ہی نہیں سمجھتے۔“

احمد ندیم قاسمی صاحب کی ان تین طویل کہانیوں کے مجموعہ سے ہم کیا متفق ہوتے، ہم تو سرے سے کتاب کے نام سے ہی اتفاق نہیں کرتے، “جس کتاب کا نام ہی “آبلے” ہو وہ کسی قاری کیلئے کہاں فرحت کا باعث ہوگی۔؟” پڑھتے پڑھتے ہماری زبان، دل اور دماغ پہ ہی گویا آبلے   پڑ گئے۔

”ہم متاثر اگر ہوئے تو اس بات سے کہ قاسمی صاحب نے انتساب ”سعادت حسن منٹو“ کے نام ”اس کے دماغ سے زیادہ اس کے دل سے متاثر ہوکر“ اس جملے سے کیا ہے۔“

آخر یہ بھی کوئی لکھنے کی بات ہے۔؟

۱- “کفارہ” میں چار کردار ہیں: پِیرو، بڑھیا، کمّو اور میِرا، کہانی میں محض لفاظی ہے اور لفاظی بھی وہ جو ایک عورت ذات کے حسن و توصیف سے جڑنی چاہیے تھی، لیکن مصنف نے “ایک جوان پیرو” کے ساتھ جوڑ دی، “ہمیں تو یہاں بھی مصنف پر ہم جنس پرستی کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ ”خدا بھلا کرے، مصنف کم ابلیس کے ہمزاد زیادہ نکلے، جو شکوک و شبہات کو جنم دے رہے، ایسا ہم بالکل نہیں کہتے۔“

ایک پیرگراف کا کچھ حصہ ہمیں پسند آیا۔ آپ بھی پڑھیے۔

ایک مرتبہ چند نوجوانوں نے کموں دھوبن کا ذکر چھیڑتے ہوئے کہا۔ ” دو دو گاگریں تو خیر ہر لڑکی اٹھاتی ہے، مگر کموں تین گاگروں کے بغیر رکتی ہی نہیں۔ اور پھر تین بھری ہوئی گاگروں کے بوجھ تلے جب اس کا سینہ تھل تھل ناچتا ہے اور اس کے بھرے بھرے کولہے چکی کے پاٹوں کی طرح۔۔“ اور قریب ہی بیٹھے ہوئے پیرو نے نوجوان کے ایک تھپڑ جڑ دیا۔ نوجوان پیرو سے گتھم گتھا ہوگئے۔ چند لوگوں نے بیچ بچاؤ کرالیا۔

غرض اس کہانی میں پیرو اور کموں کی محبت کا قصہ بھی تھا جس کا اختتام ناتمام ہوا اور جب کہانی کا اختتام ایسے ہو تو یقیناً آپ بھی چار حرف بولنے پہ مجبور ہوں گے۔ ہم نے تو بولنے کا شوق پورا کر ہی دیا۔

۲- “ہیروشیما سے پہلے، ہیروشیما کے بعد” کہانی کے عنوان سے ہی آپ سمجھ گئے ہوں گے کسی جنگ یا سپاہی کی کہانی گھڑی گئی ہے۔

تاہم پھر بھی پچھلی کہانی سے یہ ذرا دلچسپ تھی اور اس کے فرضی واضح کردار شہباز خان، شمشیر خان، دلیر خان اور شیر خان تھے، شیر خان کی اماں شاداں کا بھی کردار اچھا تھا لیکن مصنف نے آخر میں چھید کر ڈالا، لیکن ایک سپاہی کن حالات کا سامنا کرتا ہے اور اس کے گھر والے کن حالات سے گزرتے ہیں، یہ سب تو ہوتا ہی ہے۔

لیکن اس کہانی کا اختتام ایسے وقت میں کیا جاتا ہے جہاں سپاہی قید سے آزاد ہوکر گھر لوٹ آتا ہے، ”وہیں مصنف نے اس کی بیوی شاداں کو پڑوسی دھوبی کے ساتھ بنوں بھگا دیا ہے“ اب اس سے ہم وہی نتیجہ اخذ کر رہے ہیں جو اس وقت آپ سوچ رہے ہیں، ” کہ ایک سپاہی کی بیوی خلوت میں کسی اور کے ساتھ۔۔“ ارے ہاں وہی جو آپ سوچ رہے ہیں۔

۳- “عبد المتین ایم۔اے” یہ کہانی نو حصوں میں لکھی گئی ہے، انتہائی پھیکی کہانی تھی، ”اگرچہ پڑھ کر ہی اندازہ ہورہا تھا کہ مصنف نے انتہائی بیروزگاری اور فرصت کے لمحات میں لکھی ہے، لیکن پھر بھی مناسب نہ سمجھا کہ کتاب سے بیوفائی کی جائے، اس لئے یارانہ کرتے ہوئے یہ من گھڑت کہانی بھی پڑھی، جس پر ہمیں واقعی افسوس ہے۔“

Advertisements
julia rana solicitors london

اگرچہ متین نام کا کردار نبھانے والا پڑھا لکھا جوان ضرور تھا، ”لیکن وہیں مصنف نے اس کو بیوقوف ثابت کرنے میں ہاتھ بالکل ہولا نہ رکھا، اور گاؤں گاؤں ذلیل و خوار ہوکر رہ گئے تھے، جبکہ نکالے بھی ایسے گئے کہ بس جان ہی بچی، باقی بوری بستر بھی بابا حاجی کے ڈیرے پہ چھوڑ گئے، ہمیں اگر متین ایم اے صاحب کی عقلمندی والی بات کوئی سمجھ آئی تو یہی کہ جان بچانے کو ترجیح دی جس میں وہ ضرور کامیاب ہوئے۔“ سو یہاں کتاب سے ہماری بھی جان چھوٹ گئی۔ جس پر ہم واقعی شکر ادا کرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply