پنجابی ٹپے ماضی قریب میں پنجاب کی ثقافت و رسم ورواج میں موسیقی کے سنگ میل کی حیثیت رکھتے تھے۔ ٹپّے کو موسیقی کی زبان میں صنف گیت کہتے ہیں۔ ٹپّہ دو مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے، پہلا مصرعہ بے معنی صرف سر اور ردھم بنانے کے لئیے دوسرے مصرعے سے جوڑا جاتا۔ اصل بامعنی بات دوسرے مصرعے میں ہوتی۔ جس میں خوشی، غم، شکوہ، شکایت وغیرہ جیسے جذبات و احساسات کا اظہار ہوتا۔
کوئی لال رومال ہووے
دکھ فیر کس گل دا جد ماہی میرے نال ہووے
پنجاب ایک وسیع الثقافت و زبان والا صوبہ ہے۔ ہر علاقے کے لوگ اپنے اپنے لہجے اور زبان میں ٹپّے ،ماہئیے لکھتے اور گاتے ہیں۔ پنجابی زبان میں بولے جانے والے ٹپّے اپنی مثال آپ ہیں۔ خواتین گھروں میں شادی بیاہ کے موقع پر ڈھولکی کی آواز پر ٹپّے اور ماہیے گاتی رہی ہیں۔
آج کل پنجابی گانا “نک دا کوکا” سارہ الطاف اور ملکو کی آواز میں گایا گیا گیت، کامیابی کی منزلیں طے کر رہا ہے اور وہ بھی صرف ایک ٹپّے کی وجہ سے۔
اس گانے کے بول سارے کے سارے ٹپّے ہیں۔ اور جس ٹپّے کی وجہ سے یہ گانا تین ہفتوں میں ٹرینڈنگ میں آیا ،وہ یہ ہے
جیل اڈیالہ قیدی 804 ہووے
اوہو ڈگا دیندے جناں نال ڈھیر پیار ہووے
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس گانے کی ویڈیو کو 6 ملین سے زیادہ کے ویوز مل چکے ہیں۔ اور ابھی تک ٹاپ پلے لسٹ میں، ٹک ٹاک ، فیس بک اور انسٹا وغیرہ پر چل رہا ہے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی اس مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس گانے کی ٹیم نے ” نک دا کوکا -2″ بھی اپنے چینل پر چلا دیا ہے۔ اور اس میں سارے کے سارے ٹپے عمران خان کے بارے میں ہیں۔ کوئی بھی ٹپہ ایسا نہیں جس میں خان کا ذکر نہیں ۔
خان کے چاہنے والوں کو موسیقی کی اس رمز کے ذریعے اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار کا بھرپور موقع مل گیا ہے۔ کیونکہ عوام اس کو امنگوں کی عکاسی کا راستہ سمجھتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو موسیقی ہر دور میں انسانی جذبات کی بہترین ساتھی رہی ہے۔ چاہے وہ قوالی کی شکل میں ہو، لوک گیت ، مرثیہ یا نوحہ ، انسانوں نے اپنے اپنے جذبات کے مطابق موسیقی کو ڈھالا ہے۔ اور یہ اجتماعی پیغام رسانی کا منافع بخش ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔
مختصر یہ کہ ایک ٹپے کی وجہ سے سارا سوشل میڈیا ایک جگہ اکٹھا ہو سکتا ہے تو سمجھیں کہ آنے والے 8 فروری کے الیکشن میں تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے۔ اگر زمینی حقائق کی بات کریں تو اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ ریسرچ کی فیلڈ میں کسی بھی مقولے کو ثابت یا رَد کرنے کے لیے ایک ٹرم استعمال ہوتی ہے جس کو ” امپیریکل ایویڈنس ” کہتے ہیں ،مطلب زمینی اور حقائق پر مبنی ثبوت۔
آج کل ٹی وی ہو، اخبار ہو یا کوئی خبر رساں ادارہ ،سب لوگ ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں کس سیاسی جماعت کا پلڑا بھاری رہے گا۔ ؟
اس پر زیادہ بحث نہیں کرتا ،بلکہ سیدھے نتیجے پر آتا ہوں۔ جو کہ زمینی حقائق پر مبنی ہے ۔ 23 دسمبر کو ایاز میر صاحب کا کالم ” ایسا سماں کبھی دیکھا نہ تھا” کے عنوان سے، میں ضیاء دور میں ہونے والے انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اس وقت بھی مقتدر حلقے کس قدر مضبوط تھے اور سارے نظام پر کنٹرول ہونے کی وجہ سے مرضی کے نتائج لیے گئے۔ جیت کے بعد جب ضیاء ٹی وی پر خطاب کے لیے آیا تو اعتماد کھو چکا تھا۔ ایاز صاحب نے مقتدر حلقوں کو زمینی حقائق سے واقف ہونے کی تجویز دی ہے کہ اکثریت عوام کی رائے تحریک انصاف کی جانب ہے۔ لوگ پرانے چہروں، بوسیدہ سیاست اور پسماندہ نظام سے تنگ آچکے ہیں اور شعوری طور پر بھی آگاہ ہیں۔
24 دسمبر کو امتیاز عالم صاحب نے ” اک طوفان کی آمد” کے عنوان سے کالم میں بتایا کہ غریب اور سفید پوش کلاس مہنگائی، بے روزگاری جیسے مسائل کا ذمہ دار ن لیگ اور پی پی پی کو ٹھہرا رہے ہیں۔ عوام میں اکثریت تحریک انصاف کے لیے کھڑی نظر آرہی ہے۔ کیونکہ پچھلے چند مہینوں میں لوگوں کی ہمدردیاں خان اور اس کی پارٹی کے ساتھ بڑھ گئی ہیں۔ زمینی حقائق کو بدلنا اور مرضی کے نتائج لینا ناممکن سا کام ہے۔
اس ساری بحث میں ایک خوبصورت کالم سہیل وڑائچ صاحب نے ” سوتیلا کیا کرے” کے عنوان سے لکھا۔ جس میں انہوں نے مفاہمت، صبر، تعاون اور صلہ رحمی کی اپیل مقتدہ حلقوں سے کی ہے۔ سہیل وڑائچ صاحب ایک دانشمند اور دور اندیش سوچ کے حامل ہیں ۔ انہوں نے ماضی میں ہونے والی غلطیوں کو بھول جانے اور آگے مل کر کام کرنے کی سفارش رکھی ہے۔ کھل کر بتایا کہ کس دور میں کون سگا اور کون سوتیلا تھا۔ جو آجکل سگا ہے وہی کل کو سوتیلا ہو گا اور جو آج سوتیلا ہے وہی کل کو سگا ہوگا۔
اس سارے معاملات کو اگر پرکھا جائے تو 8 فروری کو کس کے پاس عوام کا ووٹ جائے گا شیشے کی طرح شفاف اور ہیرے کی طرح چمک رکھتا جواب سب کے پاس ہے۔ میں خود مفاہمت، صبر اور تعاون پر یقین رکھتا ہوں تو میں سہیل وڑائچ صاحب سے متفق ہو کر یہ کہوں گا کہ سب اختلافات بھول کر ایک دوسرے کو گلے لگا کر سب وطن پاکستان کی خوشحالی و ترقی کا عہد کرتے ہوئے آگے بڑھیں ۔ سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ میسر ہو، شفاف انتخابات کروائے جائیں اور جو بھی جماعت جیتے باقی جماعتیں ملکی مفاد کے لیے اس کے ساتھ کھڑی ہوں ۔ سب کو انفرادی مفاد سے باہر نکل کر اجتماعی مفاد کے لیے کام کرنا ہو گا ،تو ہی ملک پاکستان دنیا میں باقی ممالک کے ساتھ برابری سے کھڑا ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں