امت مرحوم کے ناسور

اسلام دین فطرت اور ضابطہء حیات ہے۔ ہم مسلمانوں نے اسلام پر سب سے بڑا ظلم تو یہ کیا کہ اسے بهرپور کوشش سے فقط مذہب بنا ڈالا اور آج دنیا اسے فقط ایک مذہب ہی کی حیثیت سے دیکهتی ہے۔ دوسرا ظلم یہ کیا کہ مذہب کو بهی خالص نہ رہنے دیا بلکہ مفادات کے حصول کی خاطر سابقہ مسخ شدہ مذاہب کے قریب تر کردیا۔ ستم بالائے ستم کہ اب ہماری یہ بهی خواہش ہے کہ اسی مذہب کے نام پر پاکستان کا نظام و انتظام ہمارے حوالے کردیا جائے. اقبال کو بهی شاید اسی لیے کہنا پڑا:
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجهیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
کامل و اکمل دین کو فقط مذہب بنانے میں اگرچہ سازشی عناصر کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا مگر عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ پہلے اپنے گریبان میں جهانکا جائے۔ جب ہم اپنے گریبان میں جهانکتے ہیں تو ہمیں انہی میں سے اکثر لوگ قصوروار نظر آتے ہیں جو اسلام کی حفاظت پر مامور تهے، مولوی اور ملانے۔
مولوی اور ملا کا لفظ عالم و فاضل اور صاحب تقوی کے لیے خاص تها۔ ملا علی قاری، ملا وجیہ الدین، مولوی عبدالحق شاہ دہلوی اور بابائے اردو مولوی عبدالحق اس کی مثالیں ہیں… مزید بہت سے نام بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ پهر مولوی اور ملا کا لبادہ اوڑهے مفاد پرستوں نے اسلام کا مذاق بنانا شروع کردیا۔ ترک دنیا کا تصور پیش کیا گیا، مذہبی تعلیم کو دینی تعلیم سمجهایا جانے لگا، عصری علوم کے خلاف فتوے دئیے گئے، قرآن کریم اور احادیث نبوی ص کی من چاہی تشریحات ہونے لگیں، قرآن کریم کو زبانی یاد کرنا اور چند مخصوص کتابوں کو پڑهنا ہی علم دین ٹهہرا، سائنسی علوم پر خود ساختہ تنقید شروع ہوئی، عام ذہن کو ورغلایا گیا، سوچنے سمجهنے اور غور و فکر کرنے پر پابندی لگی اور اس طرح شخصیت پرستی اور تقلید کی روش عام ہوئی۔ امت واحدہ فرقوں میں بٹ گئی۔ نبی کریم ص کی ذات اقدس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی نظر میں کافر گستاخ اور مشرک بنا دیا گیا۔ مسلک فروشی کے کاروبار کو پروان چڑهانے کے لیے نفرت آمیز مواد پر مشتمل بےشمار کتابیں لکهی گئیں جس سے عدم برداشت کو فروغ ملا، جذباتیت عام ہوئی ، مناظروں کی ضرورت پیش آئی اور تقاریر وغیرہ کے داموں میں اضافہ ہوتا گیا۔

ان دین فروشوں نے لفظ مولوی اور ملا کو اس حد تک بدنام کردیا کہ یہ لفظ امت کے لیے ناپسندیدہ ہوگئے اور علماء نے اپنے لیے ان الفاظ کا استعمال چهوڑ دیا. آج آپ کو کوئی بهی ایسا نامور عالم دین نظر نہیں آئے گا جس کے نام کے ساتھ مولوی یا ملا لکها ہو۔ مولانا روم سے لیکر سلطان باہو، بلهے شاہ اور اقبال علیہ الرحمہ تک مختلف صوفیاء و علماء مولوی و ملا کو اصطلاحی معنوں میں دین فروش مفاد پرست لوگوں کے لیے استعمال کرچکے ہیں بلکہ گزشتہ صدی میں تو علامہ عنایت اللہ مشرقی "مولوی کا غلط مذہب" کے نام سے کتاب بهی لکھ چکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ مولوی اور ملا خود کو سوال سے بالاتر سمجهتے ہیں لیکن اسلام میں کوئی بهی سوال سے بالاتر نہیں ہے۔ بہت سے ایسے سوالات ہیں جو ہر مسلمان کو پوچهنے چاہییں تاکہ علمی قحط اور حبس کا خاتمہ ہو شخصیت پرستی سے نجات ملے، معاشرے میں قرآنی تعلیمات عام ہوں اور عالم دین کی عزت بحال ہو۔ مثال کے طور پر
معاشرے کے ہر فرد پر سوال اٹهایا جاسکتا ہے تو مولوی پر کیوں نہیں؟
کیا ایک عام فرد اور عالم دین کی ذمہ داری برابر ہے؟
انبیاء کا وارث بننے کی کیا شرائط ہیں؟
قرآن و حدیث میں جس دین فروشی کا ذکر ہے، اس سے کیا مراد ہے؟
کیا ایک عالم دین کو ویسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ آج کے مولوی ہیں؟
ابوبکر و عمر رض سے جب ایک عام شخص مجمع میں کهڑا ہوکر سوال کرسکتا ہے تو مولوی سے کیوں نہیں؟
مسلمانوں اور اسلام کی اس حالت کا مولوی کس حد تک ذمہ دار ہے؟
کیا فرقہ پرستی کا خاتمہ ممکن ہے، آج تک فرقہ پرستی کیوں کنٹرول نہ ہوسکی؟
کیا سائنسی و عصری علوم پر مدارس کے طلباء کا حق نہیں ہے؟
گاؤں دیہات کا غریب مولوی جسے بیچارہ مولوی کہہ کر مثال دی جاتی ہے، کے مسائل حل کرنے کے لیے نامور مولوی صاحبان نے کیا کردار ادا کیا ہے؟
اکثر مولوی صاحبان اور ان کے پیروکار سوال کے جواب میں یہ کیوں کہتے ہیں کہ اپنا جنازہ کسی ہیجڑے سے پڑهوانا، نکاح کسی یہودی سے پڑهوانا، بچے کے کان میں اذان کسی ہندو سے دلوانا وغیرہ۔ کیا انبیاء کے ورثاء کی یہی ذمہ داریاں اور نشانیاں ہیں؟
یہ اور اس طرح کے بےشمار سوالات ہیں جو آج تک جواب طلب ہیں۔ ایسا نہیں کہ آج علماء کرام نہیں ہیں مگر ان پیشہ وروں کے اثر و رسوخ کے زیراثر وہ مصلحتاً خاموش ہیں۔ اکثر کا خیال ہے کہ اس پر بات کرنے سے نوجوان نسل اسلام سے مزید باغی ہو جائے گی۔
علماء سے گزارش ہے کہ خدارا یہ خاموشی توڑ دیجئے۔ اسلام کو خطرہ آپ کے بولنے سے نہیں، نہ بولنے سے ہے۔ یہ قزاق، یہ ڈاکو لٹیرے اسلام کو اغوا کرچکے، اسلام کو بازیاب کروانا ہے۔ اس لیے نہیں کہ اسلام کو دنیا کی ضرورت ہے بلکہ اس لیے کہ دنیا کو اسلام کی ضرورت ہے۔ دنیا بهر میں اسلام اور مسلمانوں کا تماشہ بن چکا… ہم رسوائی کی حدوں کو پار چکے۔ اب بهی نہیں بولیں گے تو کب بولیں گے؟ اس سے بڑھ کر اسلام کا مزید کیا نقصان ہوگا کہ اسلام کے نام پر لاکهوں لوگوں کا خون ہوچکا۔ مانتا ہوں کہ خون صد ہزار انجم سے سحر پیدا ہوتی ہے مگر خون ہونے اور خون دینے میں فرق ہے۔ آج امت مرحوم کو آپ کے فکری لہو کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

رانا تنویر عالمگیر
سوال ہونا چاہیے.... تب تک، جب تک لوگ خود کو سوال سے بالاتر سمجهنا نہیں چهوڑ دیتے....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply