سفیروں کا قتل ، اللہ کافر کی آہ بھی سنتا ہے۔

سید عبدالوہاب شیرازی
گذشتہ کچھ عرصے سے پوری دنیا میں اسلام دشمنوں کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہاءکردی گئی ہے۔کچھ ملکوں میں براہ راست مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور کچھ ملکوں مثلا پاکستان وغیرہ میں کافروں کے ایجنٹ نہتے شہریوں، تعلیمی اداروں کے بچوں اور بے گناہ مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔وہ وقت دور نہیں جب بچوں اور بے گناہوں کے تڑپتے لاشے آسمان سے ایسے عذاب کو کھینچ لائیں گے جو اسلام دشمنوں کو خَس وخاشاک کی طرح بہالے جائے گا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، اللہ تو بے گناہ اور مظلوم کافروں کی آہوں اور سسکیوں پر بھی ظالم مسلمانوں سے ایسا انتقام لیتا ہے کہ تاریخ اسے یاد رکھتی ہے۔ ہماری اسلامی تاریخ میں چنگیز خان اور ہلاکو خان کی مہموں کوبدترین ظلم وسربریت سے یاد کیا جاتا ہے لیکن اس کے پس منظر کو دیکھا جائے توایسی حیرت انگیز باتیں سامنے آتی ہیں کہ انسان حیران ہوجاتا ہے کہ اللہ کا قانون تمام ظالموں کے لئے ایک جیسا ہی ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر۔
چنگیز خان نے مغولستان کی جب بہت ساری چھوٹی چھوٹی ریاستوں کوختم کرکے ایک ریاست قائم کرلی تو اس نے مناسب سمجھا کہ مسلمانوں کے حکمران سلطان محمد خوارزم شاہ سے دوستی اور امن معاہدے کرلیے جائیں تاکہ آپس میں تجارت بھی کی جاسکے۔ چنانچہ چنگیز خان نے سلطان کو دوستی کا خط لکھا اورپھر دونوں مملکتوں میں تجارت بھی شروع ہوگئی۔پھرسلطنت عباسیہ کے خلیفہ ناصرالدین عباسی نے چنگیز خان کو خط لکھا کہ آپ سلطان خوارزم شاہ پر حملہ کردو میں تمہارا ساتھ دوں گا، لیکن چنگیز خان نے کہا میں نے دوستی کرلی ہے میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔اس کے بعد چنگیز خان نے سلطان کی طرف اظہار محبت سے بھرا ایک اور خط لکھ کر اپنا سفیر تاجروں کے قافلے کے ساتھ روانہ کیا، لیکن راستے میں سلطان کے نائب نے اس سفیر سمیت تمام تاجروں کو جاسوس قرار دے کرقتل کردیا اور تمام سامان بھی لوٹ لیا۔اتنے بڑے واقع کے بعد بھی چنگیز خان مشتعل نہیں ہوا پھرایک اور خط سلطان کو لکھا کہ تمہارے نائب نے بڑا ظلم کیا ہے، بے گناہوں کو قتل کیا ہے، لہٰذا اسے سزا دو۔لیکن بدقسمتی دیکھیے سلطان خوازم شاہ نے اس خط کو پڑھتے ہی خط لانے والے سفیر کو بھی قتل کردیا۔ اب کی بار بھی چنگیز خان مشتعل نہیں ہوا اور ایک تیسرا خط لکھا کہ بادشاہوں کے لائق نہیں کہ وہ سفیروں کو قتل کریں، ایسا کرنا آپ کے شایان شان نہیں۔ یہ خط جب سلطان خوارزم شاہ کو ملا تو اس نے پھر وہی حرکت کی یعنی خط لانے والے اس تیسرے سفیر کو بھی قتل کردیا۔چنانچہ اب مشیت الٰہی میں یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ کافروں کے ذریعہ فاسق مسلمانوں کو سزا ملنی چاہیے۔ چنگیز خان غم اور غصے کی حالت میں رات کی تاریکی میں اکیلا ایک پہاڑ پر چڑھا اور آسمان کی جانب منہ کر کے بولا: اے مسلمانوں کے اللہ! تیرے ماننے والوں نے میرے ساتھ دھوکا اور میری رعایا کے ساتھ ظلم کیا۔ مجھے پتہ ہے کہ تو مظلوم کی دعا رد نہیں کرتا چاہے وہ مسلمان نہ ہو۔ چنانچہ میں ایک کافر تموجن عرف چنگیز خان آج تجھ سے مدد مانگتا ہوں تاکہ ظالموں کو ان کے ظلم کا مزہ چکھا سکوں۔
چنگیز خان نے لشکر تیار کرنا شروع کیا۔ یہاں سوچنے کی بات ہے کہ مسلمان بادشاہ کیسی نالائقی کا مظاہرہ کرتا ہے اور کافر بادشاہ کن مجبوریوں میں حملہ کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ چنانچہ چنگیز خان منگولوں کا لشکرعظیم لے کر ایران اور ممالک اسلامیہ کی طرف روانہ ہوا، اب سلطان خوارزم شاہ نے بجائے مقابلہ کرنے کے فوج کمانڈروں کے حوالے کرکے بھاگنا شروع کردیا۔ چنگیز خان اس کا پیچھا کرتا رہا، سلطان کبھی سمرقند بھاگتا تو کبھی ہرات، کبھی بلخ تو کبھی ماوراءالنہر۔ سلطان کی اس بزدلی کو دیکھ کر چنگیز خان اور دلیر ہوگیا۔ کئی ملکوں میں بھگاتے بھگاتے بالاخر اکثر شہر چنگیز خان نے اپنے قبضے میں لے لیے، اس کے بعد خراسان،سمرقند، بخارا، ہرات وغیرہ میں چنگیزخان نے اتنا خون بہایا کہ کسی نفس کو زندہ نہیں چھوڑا۔ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے بچوں کی گردنیں کاٹی گئیں۔ یہاں تک کہ چنگیز خان نے یہ حکم بھی دیا کہ شہر کے پرندوں کو بھی قتل کردو۔ کوئی نفس زندہ نہیں ہونا چاہیے اور پھرایسا ہی کیا گیا،کسی کو زندہ نہیں چھوڑا۔ چنگیز خان کی اتنی دہشت تھی کہ ان کی کوئی عورت کسی گلی میں داخل ہوتی، وہاں اگر سو مسلمان کھڑے ہوتے تو وہ ان کو کہتی ابھی یہیں رکو میں تلوار لے کر آتی ہوں اور تمہیں قتل کرتی ہوں، چنانچہ وہ جاکرتلوار لاتی اور ایک ایک مسلمان کو ذبح کرتی لیکن کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ اور مقابلہ کرتے تو بھی کیسے کرتے، یہ تو اللہ کا عذاب تھا، اللہ کے عذاب کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دنیائے اسلام کا عظیم حادثہ بغداد کی تباہی تھا جو چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔ یہاں بھی مسلمانوں کے بادشاہ کی نالائقی اس سانحے کی وجہ بنی، بادشاہ کے وزیرعلقمی نے خود ہلاکو خان کوحملے کی دعوت دی۔ ہلاکوخان نے بغداد پر حملہ کرکے ایک کروڑ چھ لاکھ انسانوں کو ذبح کیا، دریائے دجلہ کا پانی خون سے سرخ ہوکربہہ رہا تھا، عورتیں سرپر قرآن رکھ کر پناہ مانگ رہی تھیں لیکن تاتاریوں نے کسی کو نہیں بخشا، وہ منظر دہرایا گیا کہ کوئی نفس زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ چاہے بچہ ہے یا بوڑھا سب کو قتل کردو، ایک دن کے بچے کو بھی ذبح کردو۔ ہلاکوخان نے بادشاہ مستعصم کو زندہ گرفتار کرلیا۔ کئی دن تک خونریزی جاری رہی، کیاسردار اور کیا علماءسب کو لائنوں میں کھڑا کرکے باری باری ذبح کیا گیا۔خلیفہ نے لاکھوں لوگوں کو اپنی آنکھوں سے ذبح ہوتے دیکھا، جب سب انسان ختم ہوگئے پھر ہلاکو خان شاہی محل میں داخل ہوا، خلیفہ کو طلب کیا اور کہاہم تمہارے مہمان ہیں کوئی ضیافت کرو۔خلیفہ اتنا کانپ رہا تھا کہ خزانے کے تالے نہیں کھول سکتا تھا، تالے توڑ کرخزانہ نکالا گیا، پھر ہلاکوخان نے وہ خزانہ اپنی فوج میں تقسیم کردیا اور کہا یہ خزانہ توویسے بھی ہمارا تھا، اب وہ خزانہ جو تم نے زمین میں دفن کیا ہوا ہے وہ بھی نکالو، خلیفہ نے اس کا پتا بتایا تو زمین کے اندر سے سونے جواہرات کے بڑے بڑے حوض نکلے۔پھرخلیفہ کو ایک کمرے میں بندکردیا گیا، خلیفہ نے کہا مجھے بھوک لگی ہے، ہلاکو خان نے حکم دیا ایک پلیٹ میں سونے کے جواہرات اور اشرفیاں اس کو کھانے کے لئے دی جائیں۔ خلیفہ نے کہا یہ میں کیسے کھاوں، ہلاکو خان نے کہاجس چیز کو تم کھا نہیں سکتے، اسے اتنا سنبھال کر کیوں رکھا تھا، اگر اپنے عوام اور سپاہیوں پر خرچ کرتے تو وہ آج تمہاری طرف سے مقابلہ بھی کرتے۔بالاخر خلیفہ کو ایک بوری میں بند کرکے لاتیں اور مکے مارمار کرختم کردیا گیا۔ دراصل باپ کے بعد بیٹا حکمران اور پھر پوتا حکمران کی ایسی روش چل نکلی تھی کہ یہ عقیدہ بن گیا تھا کہ خاندان عباسیہ کے علاوہ کوئی شخص خلیفہ بن ہی نہیں سکتا۔ان خطرناک اور نازک ترین حالت کی اصلاح آخر اللہ تعالیٰ نے خود ہی کی کیونکہ مسلمانوں کی حالت انتہائی پستی کو پہنچ چکی تھی۔ چنگیز خان اور ہلاکوخان غیرمتمدن، جاہل،اور وحشی لوگ تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو فاجر مسلمانوں کا سزا دہندہ بناکرنازل کردیا۔ چنگیز خان اور ہلاکوخان کی خونریزیاں درحقیقت ایک ڈاکٹر سرجن کی خون ریزی سے بہت مشابہ تھیں، جس طرح ایک سرجن گندے پھوڑے میں زخم لگا کر گندہ خون باہر نکالتا ہے اسی طرح چنگیزخان مشیت الٰہی سے امت مسلمہ کے لئے سرجن بن کرآیا اور گندہ خون بہاکرصاف کردیا۔ پھر یہی لوگ بعد میں اسلام قبول کرکے نہ صرف مسلمان ہوگئے بلکہ بڑے بڑے فاتح بنے، چنانچہ قرآن میں اللہ کا وعدہ بھی پورا ہوگیا کہ اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لاکر کھڑا کردے گا اور پھر اپنے دین کا کام ان سے لے گا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply