مفروضوں کے لا متناہی سلسلے میں عدلیہ کا رول ۔۔۔عمار کاظمی

آصف زرداری کے دورِ صدارت میں جب دستور میں درج صدارتی استثنیٰ کی بات ہوتی تھی تو تمام لیگی یک زبان ہوکر کہتے تھے کہ کرپشن پر استثنیٰ حاصل نہیں ہو سکتی، جب اٹھارہویں متفقہ آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ نے ججوں کے معاملے پر پارلیمنٹ کے پاس واپس بھیجا یا اسی طرح کے دوسرے معاملات میں سپریم کورٹ اور حکومت وقت میں دستوری تشریحات پر اختلافات ہوئے تو پیپلز پارٹی کے حمایتی وکلا نے موقف پیش کیا کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ اسے چیلنج نہیں کر سکتی، تو لیگی کہتے کہ دستور سازی کا حق بلا شبہ مقننہ کا ہے مگر آئین کی تشریح کا حق صرف اور صرف سپریم کورٹ کا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے کہا جاتا کہ دستور بنانے والے اگر تشریح نہیں جانتے تو سپریم کورٹ کیسے جانتی ہے؟ تو، ن لیگ کے آئینی ماہرین سے جواب ملتا کہ نہیں سپریم کورٹ ہی سپریم ہے، ورنہ پارلیمان تو عددی اکثریت کی بنیاد پر آئین کا بنیادی ڈھانچہ بھی تبدیل کر سکتی ہے، بنیادی حقوق بھی غصب کر سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں پورے پانچ سال اسی سوال پر ملک میں لا حاصل بحث چلتی رہی کہ عدلیہ سپریم ہے یا مقننہ؟۔۔

خیر کہیں سے طرفین کو قائل کرنے والی کوئی مستند دلیل نہ آ سکی اور وہ وقت جیسے تیسے گزر گیا اور زرداری صاحب بغیر کسی استثنیٰ کی ضرورت پڑے ہی اپنے پانچ سال پورے کر گئے۔ تاہم آج دونوں طرف معاملات اور موقف اُلٹ ہیں۔ نواز لیگ ایک ایسے سزا یافتہ نا اہل شخص کو آئینی ترمیم کے تحت پارٹی صدر منتخب کروانے میں کامیاب رہی جو مستقبل میں اراکینِ اسمبلی سے لیکر ممکنہ وزیر اعظم تک سب کو پارٹی کی طرف سے نامزد کرنے کا اہل ہوگا۔ یہ بنیادی اور سادہ سی بات اپنے اندر کتنا مزاح اور کتنی تکلیف لیے ہوئے ہے کہ ’’ایک نا اہل لوگوں کی اہلیت کا فیصلہ کرے گا‘‘ اس کا اندازہ شاید ہمارے دیانت دار دانشور کو نہیں۔ چلیے دیانت، بد دیانت دانش کی بحث کو بھی چھوڑئیے کہ ’’ڈیولز ایڈوکیٹ‘‘ یعنی شیطان کے وکیل کی اصطلاح بھی بہت مستند اور جانی مانی ہے۔ اور ہمیں ابھی اور بنیادی تصورپر  ایک بار پھر وہی پرانہ سوال ذرا مختلف انداز اور سمجھ سے اُٹھانا ہے کہ عدلیہ سپریم ہے یا مقننہ؟

سچ پوچھیں تو آج یہ سوال اٹھانے والے بڑے بڑے وکلا اور دانشور احمق معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی آپ ان دو اداروں کے بغیر ریاست کے وجود کا تصور بھی کیسے کر سکتے ہیں؟ معذرت قبول کیجیے کہ شاید یہ سوال بھی غلط ہے۔ دنیا میں شاید بہت سی ایسی مثالیں مل سکتی ہیں جہاں جمہوریت نہ ہو بادشاہت یا کوئی اور دوسرا تیسرا نظام ہو کہ جہاں کوئی قانون ساز اسمبلی نہ ہو اور فرد واحد ہی قانون سازی کرتا ہو، لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا کی کوئی بھی ریاست اچھے یا بُرے یا پھر بدترین نظام عدل کے بغیر وجود رکھتی ہو؟ ممکن ہے کہیں نظام عدل ہم سے بھی ہزار گنا برا ہو لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسکے بغیر دنیا کا کوئی نظام، بادشاہت، خلافت یا جمہوریت چل رہی ہو؟ تو اگر اصلاح کرتے ہوئے جملہ یا سوال کچھ یوں پیش کروں کہ ’’کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا کی کوئی ریاست نظام عدل کے بغیر وجود رکھتی ہو؟‘‘ تو یہ یقیناً اسکا جواب یہی ہوگا کہ یہ نا ممکن ہے۔ غاروں کے انسان کے بعد سے تاریخ عالم میں شاید اسکی ایک فیصد گنجائش بھی نہ نکل سکے۔ سو پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی مہذب جمہوری معاشرے میں یہ سوال اٹھانا ہی جہالت ہے کہ ’’مقننہ سپریم ہے یا سپریم کورٹ‘‘ کیونکہ دنیا کی کوئی جمہوری ریاست ان میں سے کسی ایک کو کم تر مان ہی نہیں سکتی اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر کہیں دونوں میں اختلاف رائے اور ٹکراو کی صورت یہ سوال پیدا ہو بھی جائے گا تو اسکا مطلب یہی لیا جائے گا کہ مقننہ معاشرے سے نظام عدل کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اور یقیناً ایسی کسی بھی صورت میں ریاست اپنا وجود قائم نہیں رکھ پائے گی، وہ بائی ڈیفالٹ ہی ختم ہو جائے گی۔ مطلب ایسی کسی صورت میں ریاست دوسری کوئی آپشن لے ہی نہیں سکتی کہ وہ کہے کہ مقننہ جو چاہے سیاہ سفید قانون پاس کر لے اور ریاست کی اعلیٰ ترین عدالت اسے زیرِ بحث نہ لا سکے یا مسترد نہ کر سکے۔

اگر آپ انصاف کی روح یا مثالی انصاف پر جائیں تو ’’اگر ملک کی آبادی چوبیس کروڑ ہو اور اس میں سے تئیس کروڑ ننانوے لاکھ ننانوے ہزار بندے بھی عدالت کے فیصلے سے متفق نہ ہوں تب بھی انصاف کو فرق نہیں پڑنا چاہیے‘‘۔ انصاف اور جمہوریت میں شاید یہی بڑا تضاد ہے کہ جمہوریت ہیڈ کاونٹ کا کھیل ہے اور نظام عدل جھوٹ سچ کی بنیاد پر حق پرستی کیساتھ حصول انصاف کا۔ عدل و انصاف کا تعداد سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اور جمہوریت کا جو ویسٹرن ماڈل ہم فالو کرتے ہیں اس میں تو ویسے ہی بہت کچھ ہم مفروضوں کی بنیاد پر تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یعنی کل آبادی، اسمیں ووٹرز کی کل تعداد، پھر ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب، ان ڈالے گئے ووٹوں میں سے حکمران جماعت کے حاصل کردہ ووٹ اور ڈالے گئے ووٹوں میں انکا تناسب۔ یعنی جہاں جہاں آپ ایوریج کا سہارا لیں گے وہاں وہاں آپکو مفروضے پر قناعت کرنا پڑے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مثال کے طور پر آپکی کل آبادی اگر چوبیس کروڑ ہے اور کل رجسٹرڈ ووٹ آٹھ کروڑ ہیں اور ڈالے گئے ووٹ چار کروڑ ہیں اور حکمران جماعت اور اتحاد کے ووٹ اس میں پینتیس چالیس فیصد ہیں تو اسی چار کروڑ کے پینتیس چالیس فیصد کو چوبیس کروڑ لوگوں میں قبولیت کی ایوریج تصور کر لیا جائے گا۔ جو ووٹر ووٹنگ کا حصہ نہ بنا اور جن لوگوں کے ووٹ بن ہی نہ سکے یا بنے ہی نہیں، انکی کوئی اہمیت نہیں یا پھر وہ بائی ڈیفالٹ ان نتائج کی حاصل کردہ ایویریج کا حصہ ہیں۔ انکی مرضی یا رائے چاہے کچھ بھی ہو۔ اور اس سے بھی آخر میں یہ بات کہ ہم نہیں جانتے کہ مختلف اشوز پر حکومتی جماعت یا اسکے نمائندے کو ووٹ دینے والے افراد کی رائے کیا ہوگی۔ یعنی حکومتی جماعت یا اسکے اتحادیوں کے جو ایم این اے گزشتہ انتخابات میں جیتے، یہ ضروری نہیں کہ انکے ووٹر کسی نئے مرکزی اشو پر بھی انکو سپورٹ کرتے ہوں۔ چنانچہ مفروضوں کے اس لا متناہی سلسلے میں نہ آپ مقننہ کو قانون سازی کا لا متناہی اختیار دے سکتے ہیں اور نہ سپریم اس سارے عمل سے کورٹ کا رول منہی کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر ہمیں جڈیشل ایکٹو ازم کنٹرول کرنے کے لیے اپنی جمہوریت کو مزید مضبوط اور با کردار بنانا ہوگا۔ اس حد تک مضبوط کہ اسکی قانون سازی ملکی مقبولیت اور قبولیت کیساتھ وہ بین الاقوامی سطح پر بھی عدل و انصاف کے بنیادی تقاضوں کو پوری کرتی نظر آئے!

 

Facebook Comments

عمار کاظمی
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply