سماج (3) ۔ کیڑے/وہاراامباکر

زمین پر پہلے سماج کس نے قائم کئے؟ ہو سکتا ہے کہ کیڑوں نے کئے ہوں گے۔ لیکن ایک بات ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں۔ آج کے سماجی کیڑے (social insect) سوسائٹی بنانے کے ماسٹر ہیں۔ اس کے باوجود کہ ان کے پاس چھوٹا سا اعصابی نظام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک جاندار خلیات کا اکٹھ ہے جو بڑی نفیس تال میل سے کام کرتے ہیں۔ لیکن خلیہ خود کوئی فرد نہیں اور نہ ہی ادراک رکھتا ہے۔ سوسائٹی بھی ایسا ہی اکٹھ ہے جو نفیس تال میل سے کام کرتی ہے۔ تاہم اس میں ہر فرد اپنا الگ وجود بھی رکھتا ہے۔
ادراک کے لئے زیادہ پیچیدہ دماغ لازم نہیں۔ اس بات کا اچھا امکان ہے چیونٹی کے دماغ جیسی بہت سادہ شکل میں بھی یہ ذہنی صلاحیت ہو کہ وہ ادراک کر سکیں اور دنیا کا “اندرونی تجربہ” رکھتے ہوں۔ اپنے ہونے سے آگاہ ہوں۔ تاہم، ایسا ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہم ان کے ذہن میں نہیں گھس سکتے۔ لیکن ان کی زمین پر کامیابی کا راز سادہ ہے۔ یہ سوسائٹی بنا لینے کی بہت کامیاب اور ایفی شنٹ صلاحیت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیونٹیوں کی بارہ ہزار انواع ہیں۔ تمام سماجی جاندار ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ اپنا الگ طرزِ زندگی رکھتی ہیں جن کی اپنی خاصیتیں ہیں۔ بڑے سماج بنا لینے کی بڑی مہارت ایک چھوٹی سی چیونٹی میں ہے۔ یہ ارجنٹائن چیونٹی بڑی مہارت رکھتی ہے۔ یہ ایک بڑی عام سی نوع لگتی ہے۔ ایک چیونٹی میں نہ ہی کوئی ڈنک ہے اور جبڑے کمزور ہیں۔ لیکن اس کی شکل صورت سے دھوکا نہ کھائیں۔ یہ ناقابلِ ذکر لگنے والی چیونٹی سماجی ارتقا کی چوٹی پر ہے۔
اس کی سپرکالونیاں برِاعظموں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ کسی وقت میں جنوبی امریکہ کے ایک علاقے سے خاص یہ چیونٹی اب شمالی امریکہ، یورپ، جاپان، آسٹریلیا سمیت کئی علاقوں میں کامیابی سے دوسری انواع کو ہٹا کر اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ اور اس کی اپنی کالونیوں کی آپس میں جنگِ عظیم اس وقت دنیا میں جاری ہے۔
دنیا بھر کو کامیابی سے لپیٹ میں لینے کی وجہ اس کی سماجی خاصیت ہے، جہاں پر ایک سماج کے ارکان کی تعداد ہوشربا ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدان سمجھتے تھے کہ یہ ایک پرامن چیونٹی ہے اور یہ نوع ایک بڑے خاندان کی مانند ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کی بہت بڑی کالونیوں میں اس قسم کے مسائل نہیں ہوتے جن کا انسان کو واسطہ پڑتا ہے۔ زبردست اختلافِ رائے، دھوکہ دہی، دخل اندازی، خودغرضی، جارحانہ رویہ، قتل و غارت گری جیسی چیزیں یہاں پر نہیں۔
خوبصورت؟ نہیں، یہ غلط فہمی تھی جو 2004 میں دور ہوئی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply