ایمان بالغیب/مبشر حسن

قرآن کی سورہ البقرہ میں آیا ہے الَّذِيْنَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ( 2:3 ) ۔ یعنی ہدایت یاب لوگ وہ ہیں، جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ غیب پر ایمان کا معاملہ سادہ طور پر صرف عقیدے کا معاملہ نہیں ہے، وہ براہ راست طور پر ہدایت کے معاملے سے جڑا ہوا ہے۔ جس آدمی کے اندر ایمان بالغیب کی صفت ہو، اسی کو ہدایت ملے گی۔ جو آدمی ایمان بالغیب کی صفت سے محروم ہو، اس کو کبھی ہدایت ملنے والی نہیں۔ جب تمام حقیقتیں غیب میں ہوں تو اعلی حقیقت کی دریافت کا معاملہ اس سلسلے میں استثنا ‏(exception) نہیں ہو سکتا ۔

غیب کا لفظ عربی زبان میں صرف غیر موجود کے معنی میں نہیں ہے۔ غیب کا لفظ ایسی چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو اگر چہ غیر مشہور (invisible) ہو، مگر وہ غیر موجود (non-existent) نہ ہو، یعنی جب ایک چیز موجود ہوتے ہوئے دکھائی نہ دے تو اس کے لیے غیب کا لفظ بولا جائے گا۔ اللہ کا معاملہ یہی ہے۔ اللہ اگر چہ بظاہر غیب میں ہے، مگر یہ اعتبار حقیقت ، وہ تمام موجود چیزوں سے زیادہ موجود ہے۔ اس آیت میں ایمان بالغیب سے اصلا ایمان باللہ مراد ہے، مگر تبعاً اس میں وہ تمام متعلقات ایمان شامل ہیں، جن پر ایک مومن کے لیے ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلاً وحی، ملائکہ، جنت اور جہنم ، وغیرہ۔ اصل یہ ہے کہ ہم چیزوں کو دوطریقوں سے جانتے ہیں ایک، مشاہدہ (observation)،‏ اور دوسرا استنباط (inference)۔ سائنسی اعتبار ہے، یہ دونوں طریقے یکساں طور پر معتبر ہیں۔ اعتباریت (validity) کے لحاظ سے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

موجودہ زمانے میں سائنس کو علمی مطالعے کا ایک معتبر ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ سائنس کے دو حصے ہیں۔ ایک ہے، نظری سائنس (theoretical science) ، اور دوسرا ہے، فنی سائنس ‏(technical science)۔ سائنسی مطالعے کے مطابق ، فنی سائنس کا دائرہ بہت محدود ہے۔ فنی سائنس کے ذریعے چیزوں کے صرف ظواہر (appearance) کو دیکھا جاسکتا ہے لیکن تمام چیزیں جو بظاہر دکھائی دیتی ہیں، وہ اپنے آخری تجزیے میں غیر مرئی (invisible) ہو جاتی ہیں۔ مثلاً آپ پھول کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن پھول کی خوشبو کو آپ نہیں دیکھ سکتے ۔ پھول کی خوشبو کو کسی بھی خوردبین ‏(microscope) یا دور بین (telescope) کے ذریعے دیکھنا ممکن نہیں۔ حالاں کہ جس طرح پھول کا وجود ہے، اسی طرح پھول کی خوشبو کا بھی وجود ہے۔

سائنسی مطالعے کے مطابق ، تمام چیزیں آخر کار ایٹم کا مجموعہ ہیں، اور ایٹم اپنے آخری تجزیے میں الیکٹران (electron) کا مجموعہ ہے۔ ایک سائنس دان ، الفریڈ کورز بسکی ( Korzybski Alfred‏) نے اس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پوری کائنات نا قابل مشاہدہ الیکٹران کا مجنونانہ رقص (mad dance of electrons) ہے ۔ ایک اور سائنس داں نے کائنات کی اس غیر مرئی حیثیت کی بنا پر کائینات کو امکان کی لہروں (waves of probability)‏ ے تعبیر کیا ہے۔

اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ صرف بظاہر غیر مشہود خالق (Creator) ہی غیب میں نہیں ہے، بلکہ بظاہر مشہود تخلیق (creature) بھی حالت غیب میں ہے ۔ برٹش سائنس داں سر آرتھر ایڈ منٹن نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے، اس کتاب کا نام یہ ہے :

‏Science and the Unseen World by A. S. Eddington,‏

حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہم جن چیزوں کو دیکھتے ہیں، ہم ان کے صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں، چیزوں کی اصل حقیقت ہمارے لیے پھر بھی غیر مشہود (unseen) رہتی ہے۔ یہی معاملہ خدا کا ہے۔ خدا اپنی ذات کے اعتبار سے، بظاہر غیر مشہور ہے، لیکن اپنی تخلیق کے اعتبار سے، خدا ہمارے لیے مشہور بن جاتا ہے۔ تخلیق کا موجود ہونا اپنے آپ میں خالق کے موجود ہونے کا ثبوت ہے ۔ کائنات اتنی زیادہ بامعنی (meaningful) ہے کہ خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ سرے سے ممکن ہی نہیں ۔

اللہ رب العالمین کا حالت غیب میں ہونا ایک اعتبار سے امتحان (test) کی مصلحت کی بنا پر ہے ۔ اللہ اگر آنکھوں سے دکھائی دے تو امتحان کی مصلحت ختم ہو جائے گی۔ اللہ غیب میں ہے، اسی لیے اس پر ایمان ہمارے لیے ایک امتحانی پرچہ (test paper) ہے۔ اللہ اگر آنکھوں کے سامنے ہوتا تو اس پر ایمان لانا انسان کے لیے اس کے امتحان کا پرچہ نہ بنتا۔ اللہ کا اور اس سے متعلق ایمانیات کا غیب میں ہونا انسان کے لیے ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے انسان کے ذہن میں غور و فکر کا عمل (process of thinking) جاری ہوتا ہے۔ اسی کی بنا پر ایسا ہے کہ ہمارے لیے تدبر کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا میدان موجود ہے۔ اسی بنا پر ایسا ممکن ہوتا ہے کہ ہم اللہ کو دریافت (discovery) کے درجے میں پائیں۔ اسی بنا پر یہ ممکن ہے کہ خدا کی معرفت ہمارے لیے ایک خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) ہو، اور بلاشبہ یہ ایک واقعہ ہے کہ خود دریافت کردہ حقیقت سے زیادہ بڑی کوئی اور چیز اس دنیا میں نہیں۔ اللہ کا اور اُس سے متعلق ایمانیات کا انسان کے لیے غیب میں ہونا، انسان کے لیے ذہنی ارتقا intellectual)‏ ‏(development کا ایک لامتناہی ذریعہ (endless source) کی حیثیت رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہدایت کے لیے ایمان بالغیب کی شرط کوئی محکمی (arbitrary) شرط نہیں ہے، بلکہ وہ انسان جیسی مخلوق کے لیے ایک نہایت معقول شرط ہے۔ کسی بھی بڑی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ بیدار شعور (awakened mind) درکار ہوتا ہے۔ جس انسان کا شعور بیدار ہو، وہی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ کسی بڑی حقیقت کو سمجھ سکے ۔ خدا بلا شبہ سب سے بڑی حقیقت ہے ۔ اس لیے خدا پر ایمان یا خدا کی معرفت حقیقی طور پر صرف اس انسان کو حاصل ہوگی، جو مطالعہ اور غور وفکر کے ذریعے اپنے شعور کو بیدار کر چکا ہو ۔ جس انسان کا شعور بیدار نہ ہو، وہ گویا ذہنی اندھے پن intellectual)‏ ‏(blindness میں مبتلا ہے، اور بلاشبہ ذہنی اندھے پن کے ساتھ خداوند عالم کی معرفت کسی انسان کو نہیں مل سکتی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply