اپنے پتے پر لا پتا/محمد وقاص رشید

ایک جرگہ چل رہا تھا ، بلوچی لباس میں ملبوس ایک بچی کو بڑا اشتیاق تھا اسے دیکھنے کا ۔ اس کا باپ گھر سے نکلنے لگا تو بچی بھی چپکے سے پیچھے پیچھے ہو لی۔

جرگے سے ایک پتلا سا آدمی خطاب کر رہا تھا۔ اس نے شیروانی پہن رکھی تھی سر پہ ایک مخروطی ٹوپی تھی۔ بچی کو بعد میں پتا چلا اسے جناح کیپ کہتے ہیں۔

ایک کونے میں چھپ کر وہ جرگے کی کاروائی دیکھنے لگی۔ وہ الفاظ جو اسکے کانوں میں پڑے اور جو منظر اسکی ننھی آنکھوں نے دیکھا، مل کر ایک خواب سا بن گئے ۔ خواب کا نام تھا۔ ۔پاکستان!

اچانک ایک نعرہ فضا میں بلند ہوا “پاکستان کا مطلب کیا۔۔ بچی کے حلق سے پورے جذ بے سے ایک آواز نکلی۔۔۔۔۔

لا الہ الا اللہ۔

بھاگی بھاگی گھر واپس آئی ۔ اپنی ماں سے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ کہنے لگی۔ ماں ۔۔۔ماں ۔۔۔تجھے پتا ہے وہ  تیرے جیسی ہو گی۔ مطلب وہ ریاست ماں جیسی ہو گی۔ ماں ہم آزاد ہو جائیں گے۔ پاکستان بن جائے گا ۔سب کو ان کا حق ملے گا، خوشحالی ہو گی، آزادی ہو گی ۔۔ماں اللہ کے نام پہ بن رہا ہے پاکستان۔۔۔اچھا ماں اب میں کہوں گی ۔ پاکستان کا مطلب کیا ؟ ۔۔تو کہنا لا الہ الا اللہ۔۔۔ٹھیک ہے ؟

پھر پاکستان بن گیا۔ بچی بڑی ہو گئی۔ اس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے لگی۔ ماں جیسی اس ریاست کو تلاش کرنے لگی۔ مل کے ہی نہیں دی۔

پھر اسکی شادی ہو گئی۔ اسے خدا نے ایک بیٹا دیا۔ اسے پالنے پوسنے لگی۔ اس امید کے ساتھ کہ یہ بڑھاپے کا سہارا بن جائے گا۔ شاید اسے اس خواب کی تعبیر مل جائے۔۔۔۔مگر وہ خواب کیا ملتا ایک دن بیٹا ہی کھو گیا۔ اپنے ہی پتے پر لا پتہ ہو گیا۔

اس ریاست کی ہم عمر یہ ماں اب یخ بستہ راتوں میں اپنا خواب اور اپنا بیٹا ڈھونڈنے نکلی ۔ آنکھوں کی روشنی میں دیکھا گیا وہ خواب جو انکے اندھیروں میں کہیں کھو گیا۔ بالوں کی سیاہی میں چمکتا وہ عزم جو اب انکی سپیدی میں معدوم ہو گیا۔ چہرے کی تازگی میں پنپتی وہ آس جو اسکی جھریوں میں کہیں مدغم ہو گئی۔

بوجھل پاؤں ، کانپتے نحیف ہاتھ ، الجھے ہوئے سفید بال، بھوک اور غم کا کھایا جھولتا ہوا کمزور بدن لے کر خون کے آنسو روتی آنکھوں سے بیٹے کی راہ تکتے اس ریاست سے سوال پوچھنے آئی۔۔۔۔ کوئی پتا دے۔ میرا خواب لا پتہ ہے میرا بیٹا لا پتہ ہے۔۔۔

ماں جیسی اس ریاست نے اپنی ہم عمر اس بوڑھی ماں کو دیکھا۔ اسکی جانب بڑھی۔ اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست کے دارلخلافہ اسلام آباد کی پولیس کا یہ ایک اہلکار تھا۔ بوڑھی ماں کو اس میں اپنے بیٹے کا عکس دکھائی دیا۔ مگر اس کٹھور دل کو اس میں اپنی ماں نظر نہ آئی۔ افسوس کہ اِسکے سفید بالوں میں اُسکے بالوں کی سفیدی نظر نہ آئی۔ تٰف ہے کہ اِسکے چہرے کی جھریوں میں اُسکا بڑھاپا دکھائی نہ دیا جس نے جنا۔ مائیں سانجھی صرف کتابوں میں ہوتی ہیں۔

بوڑھی آنکھوں سے بصارت جاتی ہے یہاں جوان نظریں بینائی کھو دیتی ہیں۔ مر کر بدن سے روح پرواز کرتی ہے یہاں جیتے جی جسم روحیں کھو دیتے ہیں۔ جسم سے احساس ختم ہو جائے تو انسانی جسم چلتا پھرتا تابوت ہے۔

زندہ کچھ اس طرح سے یہاں موت ہو گئی

کہ زندگی تو جیتے جی  ہی  فوت  ہو  گئی

یہ لا جواب ریاست سوال سننے کی عادی نہیں۔ بوڑھی ماں کا گلا یوں دبایا کہ پہلے سے مشکل سے نکلتی آواز گلے میں دب گئی۔ بولتی تو کیا کہ سانس بھی اٹکنے لگی۔

آنکھوں کے آگے اپنا ماضی آیا پچھتر سال قبل ایک دروازے کی اوٹ میں کھڑی بچی آئی۔ وہ اپنی ہم عمر ریاست کو بتانا چاہتی تھی کہ میں ہی وہ بچی ہوں جس نے پچھتر سال پہلے وہ نعرہ لگایا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟

پتھر ہوتی آنکھوں میں وہ سارے منظر گڈ مڈ سے ہونے لگے۔ وہ جرگہ، وہ وعدے ، وہ نعرہ ، وہ ماں جیسی ریاست ، وہ جناح کیپ وہ خطاب اور وہ خواب۔۔۔۔۔۔زندگی بھر کی محرومیوں کے منظر میں سب کچھ لا پتا ہو گیا۔

پچھتر سال تو لگ گئے مگر اسے پتا چل گیا کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے۔ وہ جن جرگہ عمائدین سے خطاب ہوا تھا وہ اونچے اونچے ایوانوں میں پہنچ گئے اور نعرے لگانے والے قبرستانوں میں۔

مگر کیا بے بسی ہے ۔۔کیا حسرت ہے ۔۔۔کیا لاچارگی ہے۔۔۔کیا تاسف ہے۔۔۔کیا توہینِ انسانیت ہے کہ ماں جیسی اس ریاست کو تو اس خواب کی لاش مل گئی لا الہ پڑھنے کو مگر ریاست جیسی اس ماں کو بیٹے کی لاش بھی نہیں ملتی لا الہ پڑھنے کو۔۔۔۔کوئی اپنے پتے پر بھی یوں لا پتہ ہوتا ہے کبھی۔۔۔۔۔۔؟

کیسے کریں وہ انکی ہر اک یاد لا پتہ

Advertisements
julia rana solicitors

جن کے ہیں خاندان کے  افراد  لا پتہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply