جب سرپرست ، سرپرستی چھوڑ دیں ۔۔شیخ خالد زاہد

ملک انتہائی تکلیف دہ  حالات سے دوچار ہے اور ان تکلیف دہ  حالات کا سبب ملک کو خودمختار ہونے سے روکنا  ہے ۔ روایتی حالات کے عادی اور صحیح غلط سے عاری طرزِ حکمرانی کے نظام کو چلانے والے بھلا کس طرح سے حدود و قیود کے پابند ہوسکتے ہیں ۔ جب کہ  دنیا میں ترقی کرنے والوں نے باقاعدہ نظام بنائے اور نظاموں پر بھرپور عمل درآمد کیا۔ گاہے بگاہے ان میں مزید بہتری لائے ،پھر کہیں جاکر انہیں ترقی کی شاہراہ میسر آئی ۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کا متنازع  کردارہے ، یہاں یہی دیکھا جاتارہا ہے کہ  جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے مفروضے پر عمل کیا جاتا ہے ۔ پھر حکمرانوں کا ایک مخصوص ٹولہ ملکِ خداداد پاکستان کو گویا اپنی جاگیر سمجھتا رہا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت موروثی سیاست کی بھرپور افزائش  ہے ۔ ملک نے ہر نئے دن کے ساتھ آگے بڑھنا تھا سو وہ بڑھ رہا ہے اور اللہ تعالی نے چاہا  تو تاقیامت بڑھتا ہی رہیگا ۔ لیکن اس میں انتظامی امور کا احاطہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ملک کے آگے بڑھنے سے مراد دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگی ہو۔

حکمران یہ دیکھ کر کہ ملک ہمارے بغیر کچھ کیے بھی آگے بڑھ رہاہے ، ملک کے لئے کچھ کرنے کی فکر سے آزاد ہوگئے اور پھر جو کچھ کیا اپنے اور اپنے اہل خانہ کیلئے کرتے چلے گئے ، ملک کے لئے قرضے لیتے رہے اور اپنے کاروبار کو فائدہ مند بناتے چلے گئے ۔ اللہ کا قانون ہے کہ اس نے ہر فرعون کیلئے ایک موسی ;174; کو بھیجا ہے جو اسکے کئے گئے ظلم ، نا انصافی اور ہر قسم کی بدعنوانی کا اسے بتائے اور اسے احتساب کیلئے عوام کے سامنے لانے کی ہر ممکن کوشش کرے ۔ اگر موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں بھی کچھ اس سے مختلف حالات  نہیں ہوا، ملک پر مسلط مخصوص حکمران طبقے سے   انکے حکومت میں گزارے گئے ادوار کا حساب مانگا گیا تو انہوں نے اسکے جواب میں اس طرح کا ردِ عمل دیا کہ  جیسے کسی نے انکے باورچی خانے کے اخراجات کے بارے میں پوچھ لیا ہو(جو اس بات کی عکاسی ہے کہ انہوں نے بائیس کروڑ افراد کے ملک کو ذاتی ملکیت سمجھ رکھا ہے) ۔ بات بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ  ان لوگوں سے اقتدار بھی گیا اور تو اور ملک کی زمین بھی تنگ ہوتی چلی گئی ،شائد اس طرح کے حالات کیلئے تیار تھے جسکا منہ بولتا ثبوت بیرونی ممالک میں بھی باقاعدہ جائیدادیں بنا رکھی ہیں جہاں وہ حالات کے پیش نظر منتقل ہوگئے ۔ عوام کو آہستہ آہستہ اس بات کی سمجھ آنا شروع ہوگئی کہ  ہم پر ٹیکسوں کی بھرمار ہونے کے باوجود ملک کا خسارہ کم نہیں ہوتا تو آخر یہ پیسہ جاتا کہاں ہے ، ساری پریشانیاں عوام کیلئے ہی کیوں ہیں ، کیوں ہمارے حکمرانوں کی زندگیاں بھرپور آسائشوں سے مزین رہتی ہےں ،جب یہ لوگ ہمارے ووٹوں سے اقتدار میں آتے ہیں تو یہ ہم سے اتنے خوفزدہ کیوں رہتے ہیں کیوں اپنی حفاظت کیلئے اتنی بڑی دیوار بنا لیتے ہیں کہ ہماری نظروں سے ہی اوجھل رہتے ہیں ۔

قدرت نے پاکستان کے لئے عمران خان کو منتخب کیا اس انتخاب سے قبل عمران خان کوناصرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا اور ایسے کاموں سے جوڑے رکھا جس سے عوام کے دلوں میں عمران خان دھڑکنا شروع کردے ، عمران خان کے دل میں اپنے پیارے محبوب ﷺ کی سچی محبت ڈالی اور نفاذِ دین کیلئے کھڑ ا کردیا ، جو صرف انصاف کی بالادستی کیلئے نکلا تھا اسے ہدایت کا راستہ ملتا چلاگیا ۔ عمران خان ہی ہے کہ جس نے امت ِ مسلمہ کا مقدمہ اقوام متحدہ میں پیش کیا اور کیا خوب پیش کیا کہ  دنیا کو شش وپنج میں ڈال دیا ، انہی کی زبان میں انہیں اپنا(مسلمانوں ) مسئلہ  خوب سمجھایا اور تقریباً دنیا کو سمجھ بھی آگیا اور دنیا کو یہ بھی سمجھ آگیا کہ اب اس مسئلے  سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں کیوں کہ  عمران خان نے یہ واضح کردیاتھا کہ اگر مغرب کا رویہ اسلام کے ماننے والوں کے ساتھ ایسا ہی رہا جیسا کہ ماضی میں رہا ہے تو کوئی بعید نہیں کہ  حالات کسی کے قابو میں نہ  رہیں ۔ کیا وہ لوگ جو کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے ماننے والے ہیں انہیں عمران خان کے اس موقف پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ پاکستان کو اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں ؟  اگر آپ پاکستانی ہیں اور مسلمان ہیں تو کیا ہم بھول گئے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے ۔؟

پاکستان اور اسلام کا مقدمہ لڑنے والے عمران خان اپنی کارگردگی بہتر سے بہترین کرتے جاتے رہے جسکی  وجہ سے لمحہ لمحہ بڑھتی مقبولیت سے خوفزدہ ٹولے کو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا مستقبل تاریک ہوتا محسوس ہوا تو انہوں ملکی سالمیت اور بقاء کوبھی دا ؤپر لگانے سے گریز نہیں کیا اور اپنے غیر ملکی سرپرستوں سے مدد مانگ لی جسکے لئے ہرمطلوبہ قیمت ادا کرنے کی بھی حامی بھری گئی ۔ اب جب کہ  عمران خان کی حکومت نہیں رہی اور ایک باقاعدہ امپورٹڈ(درآمد شدہ) حکومت اقتدار پر قابض ہوچکی ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہیں سیدھے طریقے سے کام کرنا نہیں آتا اور اب تقریباً کام سیدھے کئے جاچکے ہیں ۔ اب دوصورتیں سامنے تھیں ایک تو یہ کہ وہ ان کاموں کو مان لیں اورانہی  پر عمل شروع کردیں جو اپنی انا کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف تھا اور دوسری طرح کرنے کی گنجائش باقی نہیں تھی یعنی دونوں صورتیں انہیں سیاسی انجام کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہیں ۔ درآمد شدہ حکومت کا خیال تھا کہ یہ 1992میں ہیں کہ  کچھ بھی کرتے پھریں گے اور کسی کو پتہ نہیں چلے گا انہوں نے اس بات کو بھی خاطر میں نہیں  لایا  کہ  عمران خان کی اصل طاقت ہی سماجی ابلاغ ہے اور سماجی ابلاغ کا ستر سے اسّی فیصد استعمال کرنے والا نوجوان ہے ، بس پھر کیا تھا سب کچھ سب کے سامنے آگیا اور درآمد شدہ حکومت باقاعدہ برہنہ ہوگئی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عمران خان نے درآمد شدہ حکومت اور انکے بوسیدہ طرز کی سیاست سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے کسی ادارے سے مدد نہیں لی ، کسی بیرونی طاقت کو آواز نہیں دی بلکہ عوام کے پاس جاکر بیٹھ گئے اور عوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھ دیا اور بتایا کہ ہم مسلمان صرف اور صرف اللہ سے مدد مانگتے اور اسی کی عبادت کرتے اور اب وہ ہی ہماری مدد کیلئے ہمیں ہمت اور طاقت عطاء فرمائے گا ۔   یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ اب انکے پاس کرنے کیلئے کچھ نہیں اور یہ برملا اسکا اظہار بھی کر چکے ہیں لیکن اب یہ اپنی سیاست بچانے کیلئے دیکھنا ہے کہ کس حد تک جانے والے ہیں انکے لئے سب سے بُری خبر یہ ہے کہ انکی سرپرستی کرنے والوں نے بھی مزید سرپرستی کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ پاکستان ان شاء اللہ اپنی حقیقی آزادی   حاصل کرنے کے قریب تر ہے ۔

Facebook Comments

شیخ خالد زاہد
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔ ان کے منتخب مضامین کا پہلا مجموعہ بعنوان قلم سے قلب تک بھی شائع ہوچکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply