دنیا بھر میں بے شمار مذاہب اور عقائد کے لوگ بستے ہیں۔ان میں سے بہت سے ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں یعنی ان کے عقائد کو تسلیم نہیں کرتے لیکن کوئی بھی مذہب یا عقیدہ اپنے ماننے والے کو کسی دوسرے مذہب یا عقیدہ کے پیشواؤں یا ان کے پیروکاروں کی بے توقیری, تمسخر یا ہرزہ سرائی سے مکمل روکنے کی تعلیمات دیتا ہے۔جیسا کہ اسلام کا یہ درس ہے کہ تم کسی کے نقلی خدا کو برا مت کہو ایسا نہ ہو کہ وہ جواب میں تمہارے اصلی خدا کو برا بھلا کہے۔ ایک دوسرے کے عقائد کی توقیر اور اس کی قدر کسی دوسرے عقیدے یا مذہب کے ماننے والے پر اسی طرح لازم ہے جیسے کہ اس کے اپنے مذہب یا عقیدے کی توقیر اس پر لازم ہو،.لیکن آج کے دور میں ہمیں مختلف مذاہب اور عقائد کا ایک طبقہ تواس اصول پر عمل پیرا نظر آتا ہے وہی پر ایک دوسرا طبقہ اس اصول کے مغائر دوسرے مذاہب اور عقائد کی بے توقیری ,ہرزہ سرائی اور کھلم کھلا تمسخر اڑاتا نظر آتا ہے.۔زیادہ تراس بے توقیری, ہرزہ سرائی اور تحقیر آمیر تمسخر کا نشانہ ہمارا مذہب اسلام اور مسلمان بنتے چلے آئے ہیں۔ آئے روز بالخصوص مغربی اقوام کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر تحقیر آمیز تنقید اور تمسخر مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرتا چلا آرہا ہے۔ہر دفعہ مغرب کے اس رویہ کی بھر پور مذمت اور مخالفت مسلمان کرتے چلے آرہے ہیں کیونکہ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اپنے مذہب پر آنے والی ہر غلط اور متعصب لہر کا دلیرانہ مقابلہ کرتے ہوئے اسے رد کریں۔
ہر بار کی طرح اس بار بھی ہالینڈ کی ایک سیاسی جماعت پارٹی فار فریڈم کے سربراہ ملعون گیرٹ ولڈرز نے ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تخیلاتی کارٹون بنانے کا ایک مقابلے کا علان کیا جس کی تاریخ کا اعلان بھی کہا جاچکا تھا۔ اس طرح مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پر اس شاتم کے حملوں کیوجہ سے تمام دنیا میں مسلمانوں میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس ملعون کا یہ کہنا ہے کہ مجھے مسلمانوں سے نہیں بلکہ اسلام سے نفرت ہے اور پچھلے دورانئے میں اس نے نیدر لینڈ کے باسی مسلمانوں کے لئے ایک مہم بھی شروع کر رکھی تھی جس میں وہ مسلمانوں سے آدھا قرآن پاک معاذاللہ تلف کرنے کا کہہ رہا تھا لیکن مسلمانوں کی حمیت اور غیرت نے ہر بار کی طرح اس بار بھی جوش مارا اور انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر اس ملعقن کے اس قبیح فعل کی بھر پور مخالفت کی گئی اور پہلی بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف سے ایک جاندار مؤقف اپنایا گیا اور اس ملعون کا ایک قبیح منصوبہ ناکام ہوا۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان تمام کوششوں سے اس شاتم الرسول کا یہ قبیح فعل فی الوقت تو رد کر دیا گیا لیکن اس کا مستقل سد باب نہ کیا گیا ہے ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد یہ یا کوئی اور ملعون دوبارہ اس قبیح فعل کا مرتکب ہو اور دوبارہ مسلمان ایک اور دردناک اذیت سے دوچار ہوں۔اس مرتبہ گو کہ حکومت پاکستان کا کردار نہایت شاندار رہا لیکن پھر بھی اس مضمون کے توسط سےمیرا حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ جلد سے جلد او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے اور ایک واضع حکمت عملی اپناتے ہوئے مغرب کی اس یلغار کا بین الاقوامی سطح پر جواب دیا جائے.۔بین الاقوامی سطح پر ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کے لئے بھر پور اقدامات کی ضرورت ہے اور بطور اسلامی جمہوریہ اس اقدام میں پاکستان کو پہل کرنی چاہئے۔تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہمارا تن,من,دھن سب کچھ قربان ہو۔
ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ہمارا کردار مصطفوی ہو تاکہ کسی کو یہ جرأت نہ ہو سکے کہ وہ ہمارے مذہب کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے،ہمیں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے کردار کی تصحیح و تکمیل بھی کرنی ہو گی….تاکہ دنیامیں مصطفوی افکار کا بول بالا کیا جاسکے۔عشق رسول تو اس طات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی جان مال ,اولاد غرضیکہ ماں باپ سے بڑھ کر محبت کریں اس ہستی سے جو جہ تخلیق کائنات ہے.۔اس لئے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ امت مسلمہ کو کم ازکم اس واقعے پر یکجا ہو کر پر امن طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا عملی ثبوت دینا ہو گا۔ورنہ مغرب آئے رو اپنی ان قبیح حرکات کے ذریعےمسلمانوں کو ہر بار دردناک اذیتوں سے دوچارکرتا رہے گا.۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی اصلاح فرمائے اور ہمیں بقیہ زندگی اسلام کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں