نواز شریف اور زرداری دونوں ہی مائنس الطاف فارمولے کے اسی لئے مخالف تھے کہ مرکزی قائد کو الگ کئے جانے کے بعد فیصلہ سازی کا اختیار کسی ایک کے پاس نہیں رہتا، معاملات طے کرنے در در جانا پڑتا ہے اور طے پھر بھی نہیں ہو پاتے- دنیا بھر میں عسکری تنظیموں کے قائدین کو بھی اسی لئے آخری مراحل آنے تک جان بوجھ کر زندہ رکھا جاتا ہے کہ جنگ جیت جانے کے بعد بھی بالآخر مذاکرات کرنا پڑتے ہیں- سیانوں کا خیال مگر یہ تھا کہ الطاف بھائی کو الگ کر دیے جانے کے بعد کراچی کی سیاست کو ریموٹ کنٹرول سے چلانا بہت آسان ہو جائے گا- نواز اور زرداری اپنی بچاتے رہے، الطاف بھائی مائنس ہو گئے-
حالت اب یہ ہے کہ ایک کو ہیڈکوارٹر بلا کر کچھ باتیں طے کی جاتی ہیں تو دوسرا بھانڈا پھوڑ دیتا ہے، دوسرے کو گاجر یا چھڑی دکھا کر رام کیا جاتا ہے تو تیسرا ایک الگ دھڑا بنا لیتا ہے- نوبت بہ ایں جا رسید کہ اب ادارے کسی کو پکڑتے ہیں تو انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ اس کا تعلق کون سی والی ایم کیو ایم سے ظاہر کیا جائے- اوپر سے ہمارے عوام کو اللہ خوش رکھے، تنظیم تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکی مگر ووٹ بنک ابھی بھی برقرار ہے- للچائی بلیوں کی طرح کراچی کو تاڑتے عمران، شہباز اور بلاول میں سے کسی میں بھی اس ووٹ بنک کو توڑنے کی اہلیت ہے نہ سکت- سب منہ اٹھائے طرف رینجرز ہیڈکوارٹرز دیکھ رہے کہ مداری کوئی نیا شعبدہ دکھائے جس میں ہمارا بھی لچ تلا جا سکے-
اللہ جانے یہ حالات کا جبر ہے یا کوئی طےشدہ حکمت عملی مگر فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی، عامر خان وغیرہ نے اس وقت سیانوں کو اپنے آگے لگا رکھا ہے- ادھر چند دن سے الطاف بھائی ٹویٹر پہ تشریف لے آئے ہیں- آتے ہی انہوں نے بلوچ قوم پرستوں، پی ٹی ایم اور اوکاڑہ کے مظلوم کسانوں سے اظہاریکجہتی کر کے ایک سرکاری دفتر میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں- اوپر سے ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں نے مشترکہ ریلی اور جلسہ کا اعلان کر ڈالا- ان سب باتوں نے سیانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنا ترپ کا پتہ وقت سے پہلے پھینک دیں-
تین سال انہیں بغل میں دبائے رکھنے کے بعد بالآخر عمران فاروق مرحوم کے مبینہ قاتلوں کو عدالت میں پیش کر دیا گیا، فرد جرم عائد ہو چکی- ایک مبینہ قاتل کے مطابق وہ بھائی کو سالگرہ پہ مناسب تحفہ دینا چاہتے تھے،کوئی ڈھنگ کی آئٹم نہ ملی تو عمران فاروق کو ٹپکا دیا- دوسرے کا کہنا ہے کہ لندن سیکرٹیریٹ میں ملازمت کے خواہاں تھے، سی وی پہ تجربہ خاطرخواہ نہ تھا، اس کی کمی ٹیلنٹ کے مظاہرے سے پوری کی، عمران فاروق کو نشانہ بنا کر- تیسرے ابھی نہیں بولے، شاید اگلی پیشی پہ کوئی انکشاف فرمائیں-
یہ معاملہ پری یا پوسٹ الیکشن سیناریو میں من پسند جوڑ توڑ کیلئے بچا کر رکھا گیا تھا- برا ہو الطاف بھائی کا یہ گیم بھی خراب کر ڈالی- اب مسئلہ یہ بھی ہے کہ پلوں کے نیچے سے پانی کے ساتھ اتنا کچھ اور بھی بہہ چکا کہ عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ شاید زیادہ رش نہ لے پائے- آنے والے دنوں میں آپ سائبر سپاہیوں، ایک سیاسی تنظیم کے کارکنان اور ایک نمبرون چینل کو رائے عامہ کی توجہ اس معاملے کی جانب مبذول کرانے کی کوششوں میں مصروف دیکھیں گے- حاصل وصول کیا ہوتا یہ وقت ہی بتائے گا-
جس طرح کئی سال ان قاتلوں کو پلو میں چھپا کر رکھا گیا بالکل اسی طرح آج کل ہماری ماں جیسی ریاست ایک چھاتی سے جناب عذیربلوچ اور دوسری سے جناب احسان اللہ احسان کو دودھ پلانے میں مگن ہے- عذیربلوچ کی مدت رضاعت کا تعین جناب آصف علی زرداری کا رویہ کرے گا- احسان اللہ احسان کو کب کس کے حق میں اور کس کے خلاف استعمال کیا جانا مقصود ہے، تاحال میں سمجھ نہیں پایا-
یادش بخیر پی ٹی وی کی اجارہ داری کے آخری ایام تھے، جب بھی پانچ منٹ فری ہوں موسیقی کے نام پر جناب مہدی حسن کا “رنجش ہی سہی” ہمارے کانوں میں انڈیل دیا جاتا تھا- پہلے پہل اس غزل سے عشق تھا، پھر عادی ہوئے، پھر بیزاری ہونے لگی، آخر باقاعدہ مہدی حسن، شاعر اور پی ٹی وی کو لعن طعن پہ جی آمادہ ہونے لگا، مگر آفرین ہو پی ٹی وی پر، کبھی ورائٹی پیش کرنے کا خیال آئے بھی تو “کو بہ کو پھیل گئی” چلا دیا کرتے تھے- گویا مہدی حسن نے ساری عمر بس یہی دو گیت گانے اور ہم نے سننے تھے-
ہمارے سیانوں کے بھی سب ڈرامے نہ جانے کتنی مرتبہ “نشر مکرر” کے طور پر چل چکے- مگر آفرین ہے۔۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں