اکّڑ بکّڑ بمبے بو(دوسرا ،آخری حصّہ) ۔۔رفعت علی خان

کھیل جو ہم نے کھیلے
یہ تو تھا گھر آنگن کا اور لڑکیوں بالیوں کے مشغلوں کا حال۔ اب یہ دیکھئے ان لونڈے لپاڑیوں نے گلیوں اور میدانوں میں کیا   لونڈھار، مچائی ہوئی ہیں۔ اس کے لئے آپ کو پہلے اس چھوٹے سے میدان کی طرف لئے چلتے ہیں جو بستی کی ایک طرف ہے۔ ذرا اس بستی کو بھی دیکھ لیں۔ یہاں مزدور پیشہ، ہنر مند، خرادئیے، سرکاری دفتروں میں کام کرنے والے چپڑاسی، کلرک، افسر، اسکولوں میں پڑھانے والے استاد ریلوے میں کام کرنے والے مکینک غرض ہر کوئی رہتا ہے۔ کچھ کی اپنی دکانیں ہیں۔ ان کے بچوں کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ کسی کا باپ کیا کرتا ہے۔ بستی کی ایک طرف ایک بڑا سا مکان شیخ صاحب کا ہے جنکے گھر کے سامنے محلے کی واحد موٹر کار کھڑی ہوتی ہے کہ شیخ صاحب آٹے کی چکی کے مالک ہیں اور محلے کے امیر ترین شخص ہیں لیکن ہمیں کیا۔ یہاں ہر کوئی اپنے گھر کا بادشاہ ہے۔
ہاں ہمارے لئے ایک مصیبت ہے وہ یہ کہ محلے کا کوئی بھی بزرگ ہمارے کان اینٹھ سکتا ہے اور جھاڑ پلا سکتا ہے۔ ہمارے گھر والوں کو کوئی غرض نہیں، کوئی اعتراض نہیں۔
آئیں دیکھیں اس میدان میں کیا ہورہا ہے۔
یہ زمین جو بالشت بھر کھودی گئی ہے ، بل،کہلاتی ہے۔ اس بِل کے کنارے یہ پانچ چھ انچ کا لکڑی کا گول ٹکڑا جو دونوں سروں پر مخروطی ہے یہ، گِلّی” ہے، اور اسکے نیچے ، لیور ، کے سے انداز میں ،ڈنڈے، سے گلی کو دور اچھال کر پھینکا جائے گا۔ سامنے کھڑے لڑکے مستعد ہیں کہ گلّی کو ہوا ہی میں اچک لیں۔ گلّی کسی کے ہاتھ ؛،کیچ؛ ہوگئی تو آوٹ کا شور ورنہ جہاں گری ہے وہاں سے کسی نشانچی نے تاک کر ، بل پر رکھے، ڈنڈے کا نشانہ لیا اور پھر آوٗٹ کا شور مچا۔ لیکن ہیں یہ کیا ہوا، نشانہ خطا ہو گیا۔ لیجئیے ڈنڈے والے صاحب فاتحانہ انداز میں گلی کے پاس پہنچے اورنعرہ لگایا ،، ہل جل صاف صوف،۔۔یعنی انہیں اختیار ہے کہ گلی کے نیچے سے مٹی، کنکر وغیرہ ہٹا سکتے ہیں۔ اب گلی کی نوک پر ضرب لگا کر ہوا میں اچھالا اور ڈنڈے سے زور دار،، ٹٰلّا،، لگایا۔ گلی ہوا میں لہراتی دور گئی، کچھ لونڈے اسے لپکنے دوڑے لیکن ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ باری لینے والے نہ کہا ،ایک، اور اب اگے بڑھ کر وہی عمل دہرایا اور کہا ، دو، پھر آگے بڑھ کر تیسرا ، ٹلّا، لگایا اور گلی کے گرنے کی جگہ سے ،بل، کی طرف دیکھ کر، کچھ اندازہ لگایا اور باآواز بلند اعلان کیا۔، یہاں سے مانگے پچاس، مخالف نے بھی نظروں سے فاصلے کو جانچا اور کچھ سوچ کر کہا ۔،دیے!!، اب ڈنڈا بل پر واپس رکھا جائے گا یا اگر بل بہت دور ہے تو گلی اس جانب پھینکی جائے گی۔ اگر جتنے ،مانگے ، اتنے نہیں دئیے تو اب ڈنڈے کے مدد سے متنازعہ فاصلہ ناپا جارہا ہے۔ اگر فاصلہ مکمل ہے تو ٹھیک ورنہ پچھلے سارے ۔ مانگے ہوئے،،گُھل،، گئے۔
کسی دن یہ گلی ڈنڈا، مربعے، کے اصول پر کھیلا جاتا ہے اور اس میں بل نہیں بنتا بلکہ ایک عدد گز بھر کا مربع زمین پر کھینچ کر کچھ مختلف قواعد کے تحت کھیلا جاتا ہے۔
اور یہ بل والا ہو یا مربعے والا۔۔ صدیق مسترئ کو بالکل پسند نہیں کہ ایک دن ایک لونڈے کا شاندار ، ٹلا، سیدھا انکے سر سے آٹکریا تھا اور آنکھ بال بال بچی تھی اور اس دن سے وہ ان، سسرے لمڈوں، سے نالاں تھے۔
اور ان سب سے ہٹ کر یہاں دیکھیں کیا ہو رہاہے۔ یہ فیضی بھائی ہیں، استاد پتنگ باز۔۔ ایک لکڑی کے بڑے سے کیس میں بڑی بڑی ، رنگ برنگی پتنگیں رکھی ہوئیں۔ ایک صندوقچی میں چھوٹی بڑی چرخیاں۔ ایک بڑی سی چرخی پر سفید ، سادی، دور لپٹی ہوئی۔ دوسری چرخیوں میں سرمئی، نارنجی، سرخ اور طرح طرح کے رنگوں کے ، مانجے، الٹی بل کا مانجا، سیدھی بل کا مانجہ، اور یہ سفید ،انڈئی، مانجا جو ٹوٹ کر نہ دے کہ انڈا پلایا گیا ہے۔
فیضی بھائی نے پتنگوں میں سے ایک منتخب کی، ،کانپ، ٹھّڈے، بغور جانچے، کنّے باندھ کر پھر جائزہ لیا پتنگ کی نوک اور دوسرے سرے پر دونوں ہاتھوں سے ہلکا سادباوٗ ڈال کر سر پر رگڑا۔ پتنگ پر بالوں پر لگے تیل کی چمک ابھر آئی۔
زمین سے مٹھی بھر ریت اٹھائی اور ہوا میں اچھال کر ہوا کے رخ کا اندازہ کیا۔ ڈور کنوں سے باندھی جاچکی ہے، ہاتھ کی ٹھمکی سے پتنگ کو اونچا اڑانے کی کوشش کی، ہوا تیز نہیں ہے۔ پاس کھڑے لونڈے کے ہاتھ پتنگ تھمائی، جابے، درگائی دیجیئو، لڑکا الٹے قدموں چلا جا رہا ہے، پندر بیس قدم پر رک کر درگائی دی اور پتنگ ،شوں شاں کرتی فضا میں بلند ہوگئی۔
فیضی بھائی کے دائیں جانب ان کا سالا چرخی لئے کھڑا ہے اور اسے خوب پتا ہے کہ کب ڈھیل دینی ہے اور کب چرخی لپیٹنی ہے۔
لیجئے پیچ پڑگیا۔ ڈھیل پر ڈھیل دی جارہی ہے، سامنے میدان میں لونڈوں کی نظریں دونوں پتنگوں پر ہیں، کچھ صرف مانجا اور ڈور لوٹنے کیلئے کھڑے ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں  جھاکڑ  ہے کہ اس کا قد چھوٹا ہے اور اس کا ہاتھ ڈور تک نہیں پہنچ سکتا لیکن وہ درخت کی اس ٹہنی (جھاکڑ) سے سب سے پہلے پتنگ لوٹے گا۔
فیضی بھائی استاد پتنگ باز ہیں۔ اگر پتنگ کٹ جائیے تو ڈور۔ وہیں سے توڑ دیتے ہیں کہ ایسی دغاباز ڈور کو رکھ کر کیا فائدہ جس نے ناک ہی کٹوادی۔
آس پاس اور بھی بچے پتنگیں اڑا رہے ہیں۔ آئیے انہیں یہیں چھوڑ کر گلی کی طرف چلتے ہیں۔

یہ دیکھیں نکڑ پر کچھ لڑکے ہاتھوں میں ،لٹو، لئے تیزی سے اس پر ،لتی، (ڈور) لپیٹ رہے ہیں۔ زمین پر بنے ایک دائرے میں تیزی سے گھومتے ہوئے لٹونچا رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے کہ رہا ہے یار تیرا لٹو تو بڑا۔ بھِن ، ہے ، ذرا بھی آواز نہیں، میرا تو بڑا کھڑ کھڑیا ہے۔

یہ کیا ہوا۔ بحث ہورہی ہے۔ ابے  گتّے گتّے   کی بدی تھی۔ دوسرا کہہ رہا ہے یار میں تو صرف  آرم پار  ہی کھیلتا ہوں میں ،گتّے، نہیں مارتا، لٹو لیتا ہوں۔
اور یہ کچھ بچے چپٹا سا لٹو چلا کر خوش ہو رہے ہیں۔ یہ ، چکری ، لٹو ہے جوصرف مزے لینے کیلئے چلایا جاتا ہے ۔ کھیل میں استعمال نہیں ہوتا یعنی ریس کا گھوڑا نہیں ہے۔
اور یہ جولڑکا دیوار کے ساتھ کھڑا زمیں پر چھوٹے سے گڑھے پر ایڑی رکھے گھوم گوم کر رگڑ رہا ہے اور دوسرے اس سے کچھ ہٹ کر ایک لکیر کھینچ رہے ہیں اور ایک نے دوتین گز کے فاصلے پرایک پتھر رکھ دیا۔

انکے ہاتھوں میں کنچے (کانچچ کی گولیاں)ہیں ۔ یہ اپنی اپنی گولی اس گڑھے تک پھینک رہے ہیں۔ کوئی بحث شروع ہوگئی کہ میری گولی یا بنٹا ، پل، کے نزدیک ہے دوسرا دعویٰ کر رہا ہے لاؤ ۔ تڑ لو۔ اب انگوٹھے اور چھنگلی انگلی سے بالشت بھر کا فاصلہ  تڑا  جارہا ہے۔

کھیل چل رہا ہے۔ بہت ساری گولیاں ، پِل، کے آس پاس ہیں ایک لڑکا ایک گولی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دوسری جانب پتھر سے ذرا پیچھے کھڑا لڑکا نشانہ لگاتا ہے اور مقررہ گولی کو صفائی سے اڑا دیتا ہے اور جوش جذبات میں جیتی ہو گولیاں سمیٹنے  آگے بڑھ رہا ہے کہ دوسرے قانونی نکتہ اٹھاتے ہیں کہ ابے تو نے،،کھٹکے سے،، نہیں کہا۔ لیجئے جیتنا ایک طرف اسے تو،، ڈنڈ، پڑگیا۔ اب اسے ایک اور گولی کھیل میں شامل کرنا ہوگی۔

اور یہ بچے بھی کنچوں سے ہی کھیل رہے ہیں لیکن یہ زمین پر پنجوں کے بل بیٹھے، ٹونٹ، کہنی اور پل کھیل رہے ہیں۔
یہی بچے بڑے ہوکر دعویٰ کرینگے کہ ہم نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔
کچھ بچے یہی کھیل کھیل رہے ہیں لیکن کنچوں سے نہیں بلکہ ، املی کی گٹھلیوں ( چیاں) یا اخروٹ سے گولیوں کا کام لیا جارہا ہے۔
اور یہ دیکھیں اس لڑکے کو کہیں سے سائیکل کا پہیہ مل گیا ہے اور اسے وہ ایک فٹ بھر کی لکڑی سے ایسی مہارت سے آگے دھکیل رہا ہے گویا سائیکل ہی چلا رہا ہے لیکن منہ سے ووں ووں کی سی یعنی موٹر کار کی آوازنکال رہا ہے۔

کچھ دن پہلے بارش ہوئی تھی۔ زمین ابتک کہیں کہیں سے نم اور نرم ہے۔ لرکے ان پر سریے گاڑ کر آگے بڑھتے جاریے ہیں۔ او ہو یہاں زمین کچھ سخت ہے، سریا نہیں گڑا اور زمین پر گر گیا۔ لیجئے ملزم، لنگڑی ٹانگ سے وہاں دوڑتا جا رہا ہے جہاں سے کھیل شروع کیا گیا تھا۔

یہ کچھ بگڑے ہوئے سے لڑکے لگتے ہیں۔ ان کے پاس مختلف برانڈ کے رنگ برنگے سگریٹ کے پیکٹ ہیں اور یہ تاش کے انداز میں  پاکٹ کھیل رہے ہیں۔یہ کچھ کچھ جوا سا ہے۔
اور یہ کیا واہیات سا کھیل ہے۔ یہ دروازوں اور دیواروں کے پیچھے کوئلے یا چاک سے چھوٹی چھوٹی لکیریں لگائی جارہی ہیں۔ جی ہاں یہ  کِل کِل کانٹا، ہو رہا ہے۔ پہلی بار کھیلنے پر ہی کسی دیوار کے مالک سے ایسی مار پڑی کہ پھر نہیں کھیلا۔

اور یہ میاں ،گُدّی، پر ہاتھ رکھے کیوں چلے جا رہے ہیں۔ انہوں نے پانچ بجے کی ،گدّی پکڑ چانٹا، کی رکھی ہوئی تھی اور محتاط ہیں کہ کہیں ان کا دوست اچانک  آکر گدّی پر چانٹا نہ جڑدے۔
اور دوست جس نے کسی اور کے ساتھ ، پابچ بجے کی، اسٹاپ ، کی رکھی ہوئی تھی وہ اس ے ڈھونڈ رہا ہے تاکہ وہ اسے ، اسٹاپ، کہ کر اس وقت تک ساکت حالت میں رکھے جب تک وہ اگلے وقت تک کیلئے ملتوی نہ کر دے۔ اس بیچ اگر اس کا دوست ہل گیا تو پیٹھ پر سات یا پانچ مکے اس کا مقدر ہیں۔
اور ان بچوں کو کیا سوجھی ہے کہ ہر آنے جانے والے کو دوڑ کر چھو رہے ہیں اور کہتے جارہے ہیں دو، تین، چار۔
ہاں جی، یہ ،سات کھڑوں کو چھو لو،، کھیل رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور ایسے ہی کئی کھیل یہ بے وقوف بچے کھیلتے تھے جن میں کوئی پیسہ یا سامان نہیں لگتا تھا۔ کھیل کے اصولوں کی پابندی انکے ایمان کا حصہ تھا اور ،بیمنٹی، کرنے والے ہمیشہ کیلئے ناپسندیدہ قرار پاتے۔ لفظ ، بور، انکی لغت میں شامل نہیں تھا اور یہ بچے پتھر، سریا، سگریٹ کے پیکٹ اور سائیکل کے پہئے میں بھی وہ کچھ حاصل کرلیتے جو کسی ائی پیڈ، اینڈرائڈ فوں اور ہزاروں کے پلے اسٹیشن میں کبھی نہیں مل سکتا۔
آئیے کچھ دیر آنکھیں بند کریں اور زور سے دہرائیں
اکّڑ بکّڑ بمبے بو
اسّی نوّے پورے سو
ایمان سے بتائیں کہ آپ کہاں پہنچے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply