• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کتاب چھپوانے کا سفر – ایک روداد ( قسط چہارم و آخری قسط)-عاطف ملک

کتاب چھپوانے کا سفر – ایک روداد ( قسط چہارم و آخری قسط)-عاطف ملک

گم نام  مصنف آراء کا  منتظر تھا، ایسے میں دو اصحاب نے اپنی رائے سے نوازا۔ محبی محمد حسن معراج سے کبھی بالمشافہ  ملاقات نہیں ہوئی  مگر انہوں نے اس نئے مصنف کی کچھ تحریریں  انٹرنیٹ پر پڑھی تھیں سو ایک رابطہ قائم ہوگیا تھا۔   انہیں کتاب کا مسودہ ای میل کیا ، انہوں نے اپنی رائے سے نوازا کہ  اس نئے لکھاری کی  کہانیوں سے وقت کی واردات کا سراغ ملتا ہے، وہ واردات جو معلوم کے کنویں سے نامعلوم نکال لاتی ہے۔  محترم ڈاکٹر ناصر عباس نئیر سے بھی کبھی ملاقات نہ ہوئی  ہے مگر  انہوں  نے پہلی ہی ای میل کا جواب فوراً دیا ۔  ان سے  اجازت پا کر مسودہ ای میل کیا اور انہوں نے  کمال شفقت سے اپنی رائے سے نوازا۔ ان کی رائے  ایک محقق کی رائے لیے ہے کہ  پوری کتاب کا احاطہ کرتی ہے؛    بیان کی اصناف   کا ذکر ہے، موضوعات کے تنوع کا اظہار  ہے، سماجی معنویت کی جانب اشارہ ہے، زبان کے چناؤکی بات ہے، اور پھر  خصوصاً      انہوں نے ” ماں جی” کے خاکے کو ایک یادگار تحریر کے طور پر سراہا ہے۔
سو  ٹائیٹل اور آراء   تیار تھیں اور اب نئے سرے سے اشاعت گھر کی تلاش تھی۔

دسمبر کی  چھٹیوں میں پاکستان جانا ہوا تو  خیال تھا کہ اب کتاب کی اشاعت  ہو جائے۔ لاہور اردو بازار میں ایک اللہ کے بندے سے رابطہ ہوا کہ نام بھی اس کا عبداللہ ہی ہے۔ درسی کتب کی اشاعت سے منسلک ہیں، سو مجھے کہا کہ آپ کو اردو بازار میں کچھ ادبی کتب کے چھاپنے والوں کے پاس لے جاتا ہوں۔ اس کے علاوہ چوک صفانوالہ  مزنگ میں موجود ناشرانِ کتب سے خود ملاقات کریں۔

مزنگ میں پتہ لگا کہ ایک ہاوس ہے جو فکشن چھاپتا ہے، سوال ذہن میں آیا کہ  انگریزی نام سے اردو چھپے گی تو رنگ چوکھا ہوگا کہ اوکھا ہو گا۔ دکان پر حاضر ہوکر وہاں کے مینجر صاحب سے ملاقات کی ، کہنے لگے مسودہ لے آئیے چھاپ دیں گے۔ پیسے زیادہ  مانگ رہے تھے اورمزید  شرط یہ تھی کہ ایڈوانس میں تمام پیسے دیں۔

سانجھ   پبلیکیشنز میں امجد سلیم منہاس صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اچھی رہنمائی فرمائی، اشاعت کے پیسے بتادیے، کچھ مشورے بھی دیے جو مفت ہونے کے باوجود کام کے تھے۔ کتاب کے سرورق پر تحریروں کی بابت، افسانے، یادیں، طنز و مزاح    کا لکھنا انہیں کا مشورہ تھا، نیز تحریروں کو  ان اصناف کے مطابق کتاب میں اکٹھا کردینا بھی انہیں کی تجویز تھی۔

عبداللہ  فاروق ہمیں لے کر  اردو بازار میں ایک  ادبی ناشر کے پاس گئے۔  وہ صاحب ابھی عمرے سے واپس آئے تھے اور شاید اسی بنا  پر اپنے ہر جملے میں گالیوں کے  مسلسل ٹانکے لگا  کر بابرکت سفر کے   اثرات سے چھٹکارا چاہ رہے تھے۔  انہوں نے ایک کاغذ کی پرچی پر تمام راز کھول کر رکھ دیے، کاغذ کی کیا  قیمت ہوگی،  کمپوزنگ اور پرنٹنگ کتنا لے گی،ٹائیٹل پازیٹو و پلیٹ و چھپائی،  کور سے لے کر اس کا استر  اور جلد  کا کیا خرچہ ہوگا۔انہوں نے  قہوے میں شہد سے بھرا چمچہ ہلاتے ، کچھ ہی منٹوں میں اشاعت  کے عمل اور  گالیوں  کی فصل میں کمال رہنمائی کی۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا، جس کو انہوں نے بخوشی ہمراہ ایک  گالی قبول کیا۔

پھر ہم الفیصل ناشرانِ کتب کے در پر حاضر ہوئے۔ انہوں نے    بھی اشاعت کا  تخمینہ سامنے رکھ دیا کہ کتاب  چھاپیں گے، قیمت پوری ادا کرنی ہوگی اور   پھر سب کتابیں لے جائیں۔اب نئے مصنف پر ہے کہ ان کتب کا کیا کرنا ہے، بیچنا ہے، بانٹنا ہے کہ آگ لگاکر ہاتھ تاپنے ہیں۔  مزید پتہ لگا کہ  کتاب کے صفحات سولہ کے  عدد پر پورے تقسیم ہونے چاہئیں  کہ کاغذ کی ایک شیٹ سے سولہ صفحات نکلتے ہیں۔ حتمی قیمت کا تعین صفحات کے تعداد کے تابع ٹھہرا۔

کتاب کا نام اوراقِ منتشر خود چُنا تھا۔ یہ نام سنا تو محبی نوید ظفر نے جون ایلیا کا شعر  سنایا۔
سب اوراق منتشر کردو

دفترِ واقعات کچھ بھی نہیں
سوچا کہ یہ شعر بھی کتاب کے شروع میں ہونا چاہیئے،  سو ایک صفحہ حضرتِ جون کی نذر ہوا۔ اس کے علاوہ     جہاں مضامین کی درجہ بندی  کے لحاظ سے نئی صنف شروع ہوتی  وہاں بھی ایک صفحہ خالی جاتا۔ اب ہم نے جب اپنے مسودے پر نظر ڈالی تو   دیکھا کہ  کہانیوں کی ردا پھیلی تھی، سوچا کہ پہلی کتاب ہے سو ساڑھے تین سو صفحات کا حدف اپنے آپ کو دیا  ۔ اس بنا پر کئی تحریروں کو اس کتاب سے نکالنا پڑا، سوچا کہ جب نیا لکھاری پرانا ہوگا  تو یہ پرانی تحریریں  اگلی کتاب میں شامل کرلیں  گے، شاید پرانی شراب کی مانند  مزہ دوبالا کریں۔

ڈاکٹر مبارک علی اور کچھ اور مصنفین کے اشاعتی اداروں سے تنازعات کا سن کر یہی بہتر سمجھا کہ نیا مصنف کتاب کی اشاعت کا بار خود اٹھالے۔ الفیصل  اور سانجھ کو  قیمت کے لحاظ سے مقابلے میں پایا۔  عبداللہ کی مدد کو  نظر میں رکھتے سوچا کہ اردو بازار کو  فوقیت دی جائے اور الفیصل  ناشران کتب سے قیمت  اور بات طے ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ تین ہفتوں میں کتاب  شائع ہو جائے گی۔

دسمبر کی سردیاں، چہار سو پھیلی دھند، ٹریفک  کی بد انتظامی اور پھر الیکشن کی قربت کی وجہ سے ٹھیک سڑکیں  اکھیڑ کر دوبارہ بنوائی جارہی تھیں البتہ خراب سڑکوں کو ویسے ہی چھوڑا ہوا تھا  کہ فنڈ ز ٹھیک سڑکوں کو ٹھیک کرنے کے لیے تھے۔ سو لاہور میں  اردو بازار تک پہنچنا ایک کارِ دشوار تھا۔ ایسے میں گاڑی پر بار بار اردو بازار جانا ممکن نہ تھا، موٹرسائیکل  ہی اس جہادِ زندگانی میں مناسب سواری ٹھہری۔  سو بائیکیا  ہمارا معاون تھا۔  نیا لکھاری  اپنے آپ کو گرم کپڑوں  اور اونی ٹوپی میں موٹرسائیکل چلانے والے کے پیچھے  چھپائے اردو بازار کو گامزن ہوتا۔

کارزارِ اشاعت کےابھی کئی مرحلے طے کرنےتھے۔ ان پیج میں لکھائی اور اس کے بعد پروف ریڈنگ ہمارے ذمہ ٹھہری۔   عبداللہ پھر مدد کو آیا، اور اردو بازار کے ایک کمپوزر نے   پیسے لے کر مسودہ ان پیچ میں تبدیل کیا۔  اگلا مرحلہ اس مسودے میں غلطیاں لگانی تھیں، سو  مسودے کو پرنٹ کیا کہ اس پر غلطیاں لگائیں۔  اسی دوران  سخت بخار نے آن لیا، دسمبر کی سردی اورلاہور میں پھیلی سموگ  کے  سنجوگ  نے  بائیکیا کے پیچھے چھپے  نئے مصنف پر   اپنا اثر ثبت کر کے  پوچھا، کہاں تک چھپو گے؟ ۔ ہم نے کہا ، آپ کا زور ہے سو اس کے سوا کیا کہیں  کہ ” سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ بخار میں آئے”، سو ایک سو دو سے ایک سو تین بخار تھا۔  وقت کم تھا سو   سخت بخار میں مسودے سے اپنی غلطیاں نکالتے رہے، پتہ لگا کہ جب تکلیف میں ہوں تو   اپنی غلطیاں آسانی سے نظر آتی ہیں۔
اردو بازار کی ایک تنگ گلی میں اُس گلی سے بھی تاریک سیڑھیاں    گھومتی اوپر جاتی تھیں۔ پہلی منزل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں  تین کمپیوٹرز اور پرنٹرز دو میزوں پر دھرے   تھے، اس کے بعد کمرے میں  اتنی ہی جگہ تھی کہ نیا مصنف اور پرانا کمپوزر    مائیکرو سوفٹ ورڈ میں ایک دوسرے کے ساتھ در آئے اردو الفاظ کی مانند جڑ کر ساتھ  بیٹھیں۔ شاہ صاحب کا دل مگر بڑا تھا،  ہماری  لکھی غلطیاں بڑے صبر سے  درست کیں  ۔ اب ایسے کسی کے  ملنے کی خو اہش ہے جو  زندگی کی غلطیوں کی درستگی  کردے۔

مسودہ ان پیج میں تیار تھا، سو الفیصل ناشران کتب کے حوالے کیا۔ انہوں نے دو دن بعد  تیار کرکے اشاعت کی حتمی شکل میں دکھایا۔ خرچ کا خیال کرتے ہم نے   ساڑھے تین سو صفحات کی کتاب کی قیمت   750 روپے مقرر کی۔  ایک اشاعتی ادارے سے کتاب کی فروخت کے بارے میں  پوچھا، جواب ملا کہ 50 فیصد رعایت دیں اور 20 فیصد ہمارا مختلف شہروں کی دکانوں میں بھیجنے کا خرچہ سو آپ کو 30 فیصد ملے گا، وہ بھی جب کتاب فروخت ہوگی۔ ہم نے سوچا   کہ پوری لاگت لگا نے کے بعد 30 فیصد پائیں اور وہ بھی ایک وعدہ فردا پر   ،   ایسا سودا تو  کوئی سودائی بھی نہ کرے۔

تین ہفتوں میں کتاب  شائع ہوگئی  اور ہم چھ سو کتابیں اٹھا کر گھر لے آئے۔   ساڑھے تین سو صفحات اور ہارڈ کور کے ساتھ کتاب کا وزن کیا تو چھ سو گرام پایا، سو پڑھنے کے علاوہ دشمن داری میں بھی کام آسکتی ہے۔ الفاظ کا وزن نہیں کر پائے کہ اس بارے میں قارئین ہی رائے دے سکتے ہیں۔

کتاب شائع ہوئی تو ایک صاحب  ملے جو کنجوسی میں بے مثل ہیں، کہنے لگے  کیا آپ یہ کتاب  مفت بانٹیں گے۔ پوچھا کہ کیوں ؟ کہنے لگے آپ سے پہلے   ہمارے ایک دوست  نے ایسا کیا تھا، وہ  شاعرِ بے ضمیر ہے۔ ہم نے روک کر پوچھا شاعرِ بے نظیر یا شاعرِ بے ضمیر۔ کہنے لگے شاعرِ بے ضمیر  کہوں گا کہ بالکل  اوچھی شاعری  کرتے ہیں، کسی خاتون کو دیکھ لیں تو آنکھوں میں چمک اور رال ٹپکنے لگ جاتی ہے، ایسے ہی اثرات ان کی شاعری میں ہیں۔  انہوں نے اپنی کتاب مفت بانٹی تھی۔ ہم نے کہا ،   معذرت، اوچھا لکھ نہیں  پایا  سو مفت بانٹنے سے گریزاں ہوں۔

انٹرنیٹ پر ایک آرڈر فارم بنایا کہ جو بھی خریدنا چاہے، وہ لنک پر اپنی تفصیلات اور پتہ لکھ دے اور کتاب بذریعہ ڈاک پہنچ جائے گی۔   “ماں جی” کےخاکے میں ضرار شہید ٹرسٹ کی کہانی بیان کی ہے۔ اس کتاب کی فروخت کا ایک حصہ ضرار شہید ٹرسٹ کو دیا جارہا ہے کہ ماں جی کو خراج تحسین پہنچانے  کے لیے صدقہ جاریہ ہی  مستحسن جانا ۔  اس کے علاوہ کتابیں مختلف لائبریریوں کو بغیر قیمت دیں تاکہ قارئین تک رسائی ہو۔   لاہور میں باغ جناح لائبریری، عجائب گھر کی لائبریری،   لاہور جمخانہ لائبریری، کراچی میں حبیب یونیورسٹی کی لائبریری، اسلام آباد  پبلک لائبریری، اسلام آباد کلب لائبریری،  اور نیشنل لائبریری میں اوراقِ منتشر نے جگہ پائی۔ اب تک تقریباً ڈیڑھ سو کتابیں احباب نے خریدی ہیں۔اس سفرِ اشاعت سے علم ہوا کہ  کتاب کی قیمت کم ہو سکتی ہے، اور کتاب  بذریعہ انٹر نیٹ و سوشل میڈیا فروخت ہو سکتی ہے۔   مزید علم ہوا کہ اشاعت کے میدان میں کھلا دھوکا دینے والے بازی گروں کی بہتات میں ڈھونڈنے پر مناسب لوگ بھی مل جاتے  ہیں۔  یہ بھی پتہ لگا کہ  جہاں بستی بستے بستے بستی ہے، وہیں کتاب بھی چھپتے چھپتے چھپتی ہے۔

سو ، اگر آپ  کتاب اوراقِ منتشر خریدنا چاہئیں تو درج ذیل لنک کے ذریعے آرڈر دے سکتےہے۔

https://bit.ly/3TMWGec

Advertisements
julia rana solicitors london

فیس بک پر اوراقِ منتشر کا صفحہ بنا یاہے جہاں پر قارئین نے اپنی رائے دینا شروع کی ہے۔ آراء سے علم ہوا کہ کتاب اپنا کچھ رنگ ضرور رکھے ہے۔   یہ آراء   درج ذیل لنک پر  پڑھی جاسکتی ہیں ۔
https://www.facebook.com/AuraqEMuntashir/

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ اس بنا پر کہانیوں کی ایک کتاب "اوراقِ منتشر" کے نام سے شائع کی ہے۔ کچھ تحاریر درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہیں۔ www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply