معلوماتی سیلاب۔۔۔سید عبدالناصر

اسّی اور نوّے کی دھائی میں ایک وہ وقت تھا جب چینلز میں صرف پی ٹی وی ہواکرتا تھا اور گنتی کے چند اخبارات۔ آپ اپنے مزاج اور فطرت میں چاہے جتنے بھی بقراط ہوں، آپ کے ذرائعِ معلومات اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے تھے۔ اس وقت یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ ہر انسان کوئی نہ کوئی سیاسی وابستگی رکھتا ہو۔ اور لوگ بھی کسی دوسرے کے سیاسی خیالات معلوم کرنے کی جستجو میں نہیں رہتے تھے۔ بس ملک کی ترقی اور خوشحالی کی امید پر زندہ تھے اور ہر حکومت کو منجانبِ اللہ سمجھ کر ایسے قبول کرلیا جاتا تھا جیسے بے چاری دلہن صرف اپنے ماں باپ کے کہنے پر دولہا کو خاموشی سے سر ہلاتے ہوئے دل ہی دل میں “قبول ہے” کہ کر قبول کرلیتی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں ہوتا تھا۔ کچھ نقائص کے ساتھ وہ زندگی بہت پر سکون تھی۔
اب اسکا موازنہ اگر ھم اپنے آج سے کرتے ہیں تو جہاں ٹی وی چینلز کی بھرمار نے زندگی کا سارا سکون چھین لیا ہے وہیں رہی سہی کسر سوشل میڈیا کے غلط اور بے مصرف استعمال نے نکال دی ہے۔ “نئی خبر” کے لالچ میں لوگ اپنا قیمتی وقت چینلز کے سامنے ضائع کرتے نہیں تھکتے۔ اصل میں جتنے زیادہ چینلز ہونگے اتنا مواد معاشرہ میں پھیلائیں گے۔ جتنے ٹاک شوز ہونگے اتنے ہی اینکرز ہونگے اور پھر اتنا زیادہ انکی صحیح اور غلط عوام کو ہی سنّی پڑے گی۔ اینکرز کی تو مجبوری یہ ہے کہ ان کو نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ بولنا پڑتا ہے کیونکہ اسی سے انکی روزی روٹی وابستہ ہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ میرا اور آپ کا وقت بہت قیمتی ہے۔ خدارا اسکی حفاظت کریں۔ یہ چینلز اور میڈیا کمپنیز ہماری توجہ (Attention) سے ہی اپنی ریٹنگ بہتر بناتی ہیں اور اسی سے کروڑوں اور اربوں روپے کماتی ہیں۔ ہم کیوں انکے لئے ترنوالہ ثابت ہوں۔ اگر آپ کو خبریں ہی سنّا ہیں تو وہ آپ کو بہت کم وقت میں معلوم ہو سکتی ہیں کہ ملک میں اور دنیا میں کیا ہورہا ہے۔
اس سے بڑھ کر جو مواد (Content) سوشل میڈیا جینریٹ کررہا ہے اس سے بھی معاشرہ میں ایک Information Overflow کی کیفیت ہے. اس کیفیت کو ایک نیا نام دیا گیا ہے جس کو Infobesity کہتے ہیں۔ جس میں ایک عام آدمی کا یہ حال ہوچکا ہے کہ اس کے پاس معلومات (Data) تو بہت زیادہ ہے لیکن وہ کسی معاملہ میں صحیح فیصلہ کرنے (Decision Making) سے قاصر ہے کیونکہ زیادہ معلومات نے اسکی سوچنے اور سمجھنے کی استعداد کو گھٹادیا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بہت زیادہ معلومات کو پراسس کرنے یعنی سوچنے (Reflection)، تجزیہ کرنے (Analyse) اور اسکا خلاصہ (Conclude) نکالنے میں ھم اپنا وقت استعمال نہیں کرتے جو ہمیں مزید ہیجان میں مبتلا کردیتی ہے۔ آج ہر دوسرا آدمی اسی بیماری کا شکار نظرآتا ہے سوائے ان لوگوں کے جن کا زیادہ وقت آف لائن گزرتا ہے۔
اگر ھم اس کیفیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور کسی معیاری ذہنی تفریح سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو ایک اچھی کتاب سے بڑھ کر کوئی دوسری چیز نہیں۔ آپ اور ہم معیاری اور زیادہ فائدہ مند کتابیں پڑھ کر اپنا وقت قیمتی بناسکتے ہیں۔ اسکے علاوہ آج کل کسی بھی کتاب کو Audi Books کی شکل میں بھی سنا جاسکتا ہے۔ کتاب کا ایک عام فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں کسی موضوع کو اس کے سارے سیاق وسباق (Context) کے ساتھ حقائق کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے جو ختم ہونے پر اپنے قاری (Reader) کو زیادہ فیصلہ کن مؤقف پر کھڑا کرتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply