اگلے جنم موہے بِٹیا نہ کیجیو۔۔چوہدری عامر عباس

کم و بیش تین سال قبل ایک دوست کے توسط سے میرے پاس ایک کیس آیا۔ میرے دوست کی بہن کی ایک سکول دور کی کلاس فیلو مجھے ملنے آئی۔ وہ اپنی کہانی سناتے ہوئے بآواز بلند رونے لگی۔ اسکی داستان سننے والوں کو بھی رُلا دینے والی تھی۔ ہم وکیل لوگوں کو عام افراد کی نسبت پتھر دل سمجھا جاتا ہے کہ ہمیں روزانہ ہی ایسے کیسز سے واسطہ پڑتا ہے۔ لوگوں کو کیا پتہ کہ ہمارے اندر بھی ایک انسان کا دل دھڑکتا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ شادی کے بعد سسرال میں دوسرے ماہ سے ہی اس کی زندگی اجیرن کر دی گئی۔ بات بات پر کبھی جہیز کو لے کر تو کبھی گھر کے کاموں کو لے کر ساس اور نندوں کی طرف سے تنقید اور زہنی اذیت کا نشانہ بنایا جاتا۔ پوری فیملی نے گویا ایک لڑکی کیخلاف محاذ کھول رکھا تھا۔ صرف ایک سسر اپنی بہو کی طرفداری کرتے تھے لیکن انکی کون سنتا تھا۔ شوہر نے کبھی اپنی بیوی کی بات سننا گوارا نہ کیا۔
شادی کے ایک سال بعد ہی بانجھ ہونے کے طعنے دئیے جانے لگے۔ یہ طعنے بھی گھر کی خواتین کی طرف سے ہی دئیے جاتے۔ بدقسمتی سے اس سماج میں ایک عورت ہی دوسری عورت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ دوسری جانب شوہر کے کان بھرے جاتے، وہ ہر بات پر لڑائی جھگڑا کرنے لگا، بیوی کو گالیاں دیتا، دو تین بار تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔
لڑکی نے بارہا اپنے بھائی اور والدہ کو سارے معاملہ کے متعلق بتایا لیکن وہ مسلسل یہی کہتے رہے”کوئی بات نہیں بیٹی، گھروں میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے، صبر کرو، وقت کیساتھ حالات بہتر ہو جائیں گے”۔ لڑکی بیچاری ہر بار صبر کے گھونٹ پی کر رہ جاتی۔
بالآخر روز روز کی چخ چخ سے تنگ آکر لڑکی نے خود کُشی جیسے انتہائی اقدام کے فیصلہ سے اپنی سہیلی کو آگاہ کیا۔ اسکی سہیلی نے اپنے بھائی سے تذکرہ کیا تو انھوں نے میرے پاس بھیج دیا۔ بیچاری ہاتھ جوڑ کر التجا کر رہی تھی “وکیل صاحب میں عدالت میں نہیں جانا چاہتی۔ میرے بھائی مجھے مار دیں گے۔ میری عدالت سے باہر باہر ہی اس شخص سے جان چھڑوا کر مجھے دارالامان بھجوا دیجئے آپکا بہت بڑا احسان ہو گا”۔
یہ کیس قصور کی فیملی کورٹ کے اختیار سماعت میں آتا تھا۔ لڑکی کو حوصلہ دے کر اسکی خواہش کے مطابق اسے اسکی پھوپھی کے گھر بھیج دیا۔ میں نے اسی دن اپنے لیٹر ہیڈ پر لڑکی کی طرف سے ایک نوٹس بنا کر اسکے شوہر کو بھیجا۔ دوسرا نوٹس لڑکی کے بھائیوں کو بھیجا جس میں کچھ ملکی قوانین کا حوالہ دے کر کہا کہ لڑکی پر دباؤ وغیرہ ڈالنے سے باز و ممنوع رہیں نیز گھر کے مکان میں سے میری مؤکلہ کا شرعی حصہ دیں۔ ان نوٹسز کی قانونی حیثیت کیا ہے یہ ایک الگ موضوع ہے جسکی تفصیل کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔
قصہ مختصر نوٹس ملتے ہی لڑکی کی والدہ اور بھائی، اسکا شوہر اپنے والد کے ہمراہ مجھے لاہور میں ملنے آئے۔ اس دن میں نے لڑکی کو بھی بلا لیا۔ بھائی خونخوار نظروں سے بہن کو دیکھ رہا تھا میرے ڈانٹنے پر زرا ٹھنڈا ہوا۔ فریقین کا مؤقف سننے کے بعد میں نے پوری فیملی کی اچھی خاصی “خاطر تواضع” کی۔ یہ کہ کر انھیں بھیج دیا کہ اگلی ملاقات عدالت میں ہو گی۔ لڑکی عاقل و بالغ تھی اس کی اپنی خواہش پر دوبارہ اسکی پھوپھی کے گھر بھیج دیا جہاں وہ خود کو محفوظ تصور کرتی تھی۔ سوچیں کہ ایک بےبس لڑکی کے دل و دماغ پر کیا بیتی ہو گی جب اس کا اپنا گھر جس میں وہ پیدا ہوئی، پھلی پھولی، کھیل کود کر جوان ہوئی، قانونی اور شرعی طور پر وہ اس گھر میں حصہ دار بھی ہے وہی گھر والد کی وفات کے بعد اس کیلئے نو گو ایریا بنا دیا گیا۔
چند دن بعد ہی اس کے شوہر کا فون آ گیا کہ وہ گھر بسانا چاہتا ہے۔ میں نے تین دن بعد دونوں خاندانوں کو اپنے دوست کے گھر دوبارہ بلا کر اشٹام پیپر پر مفصل تحریر لکھوا کر لڑکی کو اس کے شوہر کے گھر بھیج دیا کہ وہ لڑکی کو الگ گھر میں رکھے گا۔ آخری اطلاعات آنے تک وہ دونوں راضی خوش رہ رہے تھے۔
بیٹیوں کو سارے سمجھاتے ہیں کہ سسرال کے گھر میں ایسے رہنا ہے، ویسے رہنا ہے، اچھی بیوی بن کر رہنا ہے۔ کیا کبھی کسی نے اسی اہتمام سے اپنے بیٹے کو بھی سمجھایا ہے کہ تم نے اچھا شوہر بن کر رہنا ہے، ایک نوجوان لڑکی تمہارے لئے اپنا گھر بار چھوڑ کر آ رہی ہے جو کسی کی بیٹی اور راج دُلاری ہے، وہ مستقبل قریب میں تمہاری نسل آگے بڑھائے گی۔ جس طرح تمہیں اپنی ماں عزیز ہے اسی طرح تمہارے بچوں کو بھی اپنی ماں عزیز ہے۔ جس طرح سے تمہاری ماں کے قدموں تلے جنت ہے اسی طرح تمہارے بچوں کی ماں کے ناطے سے اسکے قدموں تلے بھی جنت ہے لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ تم اپنی جنت کو تو آنکھوں پر بٹھا کر رکھو لیکن تمہارے بچوں کی جنت کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو۔ اسے بتائیں کہ تم نے اپنے بیوی بچوں کے دکھ درد اور انکی ضروریات کا خیال رکھنا ہے کیونکہ فرمان عالی شان ہے کہ تم میں سے ہر ایک رعیت والا ہے اور روز قیامت ہر ایک سے اسکی رعیت کے بارے سوال ہو گا۔
خدارا بیٹیوں کو اچھی تعلیم کیساتھ ساتھ انکی تربیت بھی کیجئے۔ اسکی تربیت کیجئے کہ اس نے اپنے شوہر کے گھر میں کیسے رہنا ہے، شوہر کی خدمت کیسے کرنی ہے، شوہر کی جائز خواہشات کیسے ماننی ہیں۔ سسرال کے معاملات کو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔ مشکلات کا سامنا کیسے کرنا ہے۔ کس بات پر سر جھکانا ہے اور کہاں سر اٹھا کر بات کرنی ہے۔ اس کیساتھ ساتھ انھیں یہ اعتماد بھی دیجئے کہ وہ شادی ہو کر جس گھر میں جا رہی ہے کسی ڈر، خوف یا وسوسے کے بغیر پوری شان کیساتھ جائے۔
بیٹی کیلئے واپسی کے دروازے کبھی بند مت کیجئے۔ “دھیاں دھن پرائیا” جیسی فرسودہ، گھٹیا اور غلیظ کہاوت کسی گٹر زہن کی پیداوار ہے اور ایسی کہاوت کی اصل جگہ بھی گٹر ہی ہے۔ شادی کے وقت بیٹی کو یہ کبھی مت کہیں کہ اب تمہاری لاش ہی اس گھر سے آنی چاہیئے۔ اسی وجہ سے کئی بہنیں بیٹیاں اگلے گھر میں ساری زندگی گُھٹ گُھٹ کر جیتی ہیں، روز جیتی ہیں روز مرتی ہیں لیکن کسی انجانے خوف کیوجہ سے حرف شکوہ اپنی زبان پر لانا گناہ کبیرہ سمجھتی ہیں۔ جس طرح سے یہ گھر آپکے بیٹوں کا ہے اسی طرح سے بیٹیوں کا بھی پورا پورا حق ہے۔ انکی شادی کیجئے مگر انھیں دیس نکالا مت دیجئے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply