اساتذہ کی تذلیل اور معاشرتی انحطاط

قرآن مجید فرقان حکیم میں ہے اور رسالت مآب ﷺ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے “میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں”۔ حضرت سیدنا علیؓ نے ارشاد فرمایا” جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلام ہوں وہ چاہے مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے” ۔ایک اور موقع پر سیدنا علی کا فرمان ہے ”عالم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کے لیے تیار ہوجاؤ“۔یہ الفاظ کن ہستیوں کے ہیں شاید ان کی شرح کی ضرورت نہیں۔تاریخ کا ایک باب یہ ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ اور آپ کے استاد امام حماد بن سلیمانؒ کے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ تھا لیکن آپؒ کبھی ان کے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے۔ دوران درس اپنے استاد کے بیٹے کے احترام میں کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ امام حمادؒ کی ہمشیرہ عاتکہ ؒکہتی تھیں کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ ہمارے گھر کی روئی دھنتے، دودھ اور ترکاری خرید کر لاتے اور بہت سے کام کرتے تھے۔ ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم تشریف لاتا تو بادشاہ ان کی تعظیم کے لیے کھڑا ہوجاتا۔ درباریوں نے کہا کہ اس سے سلطنت کا رعب جاتا رہتا ہے، تو جواب دیا کہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جانے ہی کے قابل ہے۔
تاریخ کا ایک باب یہ بھی ہے کہ ایک طاقتور خلیفہ کے بیٹے اپنے معلم کو جوتا پہنانے کے لیے جھگڑتے ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید کے دو بیٹے تھے، امین اور مامون جو کہ امام کسائی کے شاگرد تھے۔ایک مرتبہ استاد اپنی مجلس سے اُٹھے تو دونوں بھائی جلدی سے استاد کو جوتے پکڑانے کے لیے لپکے ۔دونوں میں تکرار ہو گئی کہ کون استاد کو جوتے پیش کرے۔بالآخر دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ایک ایک جوتا پیش کر دیں۔جب ہارون الرشید کو اس قصے کا پتہ چلا تو اس نے امام کسائی کو بلایا۔جب وہ آئے تو ہارون رشید نے کہا”لوگوں میں سب سے زیادہ عزت والا کون ہے؟۔امام کسائی نے کہا”میری رائے میں امیر المومنین سے زیادہ عزت والا کون ہو سکتا ہے”،خلیفہ نے کہا،عزت والا تو وہ ہے کہ جب وہ اپنی مجلس سے اٹھے تو خلیفہ کے دونوں صاحب زادوں میں اس بات پر جھگڑا ہو کہ ان میں سے کون استاد کو جوتے پہنائے۔امام کسائی نے سوچا کہ شاید خلیفہ اس بات پر ناراض ہوا ہے، لہذ اپنی صفائی پیش کر نے لگے۔ہارون رشید نے کہا سنیے!اگر آپ نے میرے بیٹوں کو اس ادب واحترام سے روکا تو میں آپ سے سخت ناراض ہو جاؤں گا۔ اس کام سے ان کی عزت ووقار میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے اندر چھپی ہوئی فراست کا اظہار ہوا ہے کہ وہ کتنے عقلمند اور دانا ہیں۔سنیے! خواہ کوئی شحص کتنا ہی عمر، علم یا مرتبے میں بڑا کیوں نہ ہو ، تین افرد کے سامنے بڑا نہیں ہوتا،”قاضی ، استاد اور اپنے والدین کے سامنے”،تاریخ کا ایک اور باب یہ بھی ہے کہ سکندر اعظم اپنے معلم کے بارے میں‌کہتا ہے کہ ’’ارسطو زندہ رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو جائیں گے مگر ہزاروں سکندر مل کر ایک ارسطو کو جنم نہیں دے سکتے۔‘‘ وہ مزید کہتا تھا! ’’میر اباپ وہ بزرگ ہے جو مجھے آسمان سے زمین پر لایا مگر میرا استاد وہ عظیم بزرگ ہے جو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا‘‘۔
اور اب تاریخ کا ایک باب یہ بھی ہے کہ انگریز دور کی میراث یعنی ہماری بیوروکریسی کی ایک پروردہ ایک معلم کو مجرم کی طرح‌گھسیٹ کر لے جانے کا حکم دیتی ہے۔ ہماری اعلی بیوروکریسی کی پروردہ خاتون شاید بھول گئی تھیں کہ یہ ایک معلم ہے جس کی بدولت وہ اس عہدے پر پہنچیں، وہ کیا بلکہ اس ملک کے وزیر اعظم تک سبھی انہی اساتذہ کا اعجاز ہے کہ وہ اس مقام پر کھڑے ہیں۔ محترمہ عفت النساء صاحبہ کا یہ فعل محض ایک فرد کا فعل نہیں بلکہ اس معاشرے کی بیوروکریسی سے اس ملک کی سیاسی مشینری تک کے اس رویے کا عکاس ہے جو آج کے اساتذہ کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے۔ جس ملک میں‌اساتذہ اپنے حق کے لیے سڑکوں پر رسوا ہو رہے ہوں اور حکومت وقت کو لگے کہ اساتذہ صرف چور ہیں ،وہاں اساتذہ کو مجرموں کی طرح گھسیٹا جانا” طاقتور وڈیروں کے ہاتھوں ان کا رسوا ہونا اور ان کی ٹانگیں توڑ دینا کوئی حیرت انگیز اور افسوس ناک فعل نہیں”۔ ایسے معاشرے ایسی عفتوں اور منڈھیانوں سے بھرے ہوتے ہیں جہاں استادکا درجہ محض ایک اچھوت کا ہو جاتا ہے۔
کاش کہ سینہ کوبی کا یہ عمل یہیں پر ختم ہو جاتا مگر نہیں یہ ایک طویل داستان ہے جس میں حکومت وقت کا رویہ کلیدی کردار ہے۔ آخر اساتذہ کو اس معاشرے کا اچھوت کیوں بنا دیا گیا ہے؟ کیا اس معاشرے میں صرف اساتذہ ہی چور ہیں؟ کیا بیوروکریسی شریفوں اور حاجیوں‌کا ٹولہ ہے؟ کیا پولیس کا محکمہ دودھ سے دھل گیا ہے؟ کیا صحت کے محکمے کا قبلہ درست ہو گیا ہے؟ کیا انصاف کے محکمے میں سبھی ایماندار اکٹھے ہیں‌؟کیا سبھی سیاست دان ہاتھوں میں‌تسبیح لیے گھوم رہے ہیں؟؟؟مان لیا اساتذہ میں کالی بھیڑیں ہیں۔ مان لیا ان میں کام چور بھی ہیں۔ مان لیا وہ اپنا کام درست طریقے سے نہیں‌کر رہے؟ مگر کیا تعلیم کا پورا شعبہ ہی چور ہے؟؟ ان میں‌کتنے ہی ایسے ہیں جو محض ایک منٹ اس لیے ضائع نہیں‌کرتے کہ یہ بچےاس قوم کا اثاثہ ہیں کہ ان کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ان میں سے کتنے ہی ایسے ہیں جنہوں نے کئی نسلوں کو پروان چڑھانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ ان میں کتنے ہی ایسے ہیں جو روزانہ موسم کی صعوبتوں کو جھیل کر کئی میل سفر کرتے ہیں کہ ان کے فرائض منصبی میں کوتاہی نہ ہو۔
کیا یہ ستم نہیں کہ اساتذہ اپنے حق کے لیے سڑکوں پر رسوا ہو رہے ہیں اور حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی؟۔ کیا ایک ایم فل استاد کوسکیل میں ایک کلرک سے نیچے رکھ کر اس کی تذلیل نہیں کی جار ہی؟ آج اساتذہ پر مسلط کردہ نگرانوں کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے اس معاشرے میں‌بس اساتذہ ہی چور ہیں۔ آج معاشرتی انحطا ط کا جو عالم ہے کیا کبھی اس کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟ مگر نہیں یہ کوئی ما بعد الطبیات کا سوال نہیں ہے بلکہ محض ایک سادہ سا نکتہ ہے کہ امام ابو حنیفہ ،ہارون الرشید اور سکندر اعظم جیسے لوگ تاریخ میں‌کیوں زندہ ہیں؟ کیونکہ انہوں نے کبھی اپنے اساتذہ کو گلیوں میں‌نہیں‌گھسیٹا تھا بلکہ ان کے جوتے اٹھانے میں فخر محسوس کیا تھا اور ہمارے معاشرتی زوال کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے معلم کو اچھوت بنا دیا ہے اور جو معاشرے اپنے معلموں کی عزت نہیں‌کرتے رسوائی اور ذلت ہی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

Facebook Comments

احمد مغل
میں ایک معلم ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply