کچھ پریس کانفرنس کی زبانی۔۔ذیشان محمود

آج کل کچھ لکھنے کو نہ دل کر رہا ہے اور نہ ہی  وقت مل رہا ہے ۔ لیکن موجودہ سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ جس میں ہمارے پاس لکھنے کو بہت مواد ہے۔چلیں کچھ بات میڈیا کی کرتے ہیں۔ ہمارے میڈیا کی بھی عجیب حالت ہے کس کی مانوں اور کس کی نہ مانوں میں گھِرے ہوئے ہیں۔ دوپہر کا کھانا ابھی ہضم بھی نہیں ہوتا کہ ہر چینل پر لائیو پریس کانفرنس کا بازار گرم ہو جاتاہے۔ یکے بعد دیگر ے کئی سیاسی شخصیات ایسے ٹی وی پر  جلوہ افروز ہوتی ہیں کہ لگتا ہے بسترِشب سے بادلِ ناخواستہ ناشتہ کر کے سیدھا پریس کانفرنس کرنے آگئے ہیں اور اپنی تقاریر میں عوام کو واقعی کالأنعام سمجھ کر مخالفین پر ایسے نشتر برساتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ بعض شخصیات کی مخالفین پر لفظی گولہ باری تو عوام کو ازبر ہوگئی ہے اور لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اگلی بات یا اگلا جملہ کیا ہو گا۔ اور اگر کوئی بات دہرانی رہ جائے تو قربان جائیں ہم اُن عظیم رپورٹرز اور صحافیوں کے جو بھولی ہوئی بات یاد کر وا کر اپنے میڈیا چینلز کو بھرپور ریٹنگ کا موقع دیتے ہیں۔

جہاں تک شعبہ اطلاعات کا تعلق ہے تو فردوس عاشق اعوان صاحبہ وفاقی معاون خصوصی برائے اطلاعات ہونے کی وجہ سے سب پارٹیز کے اس شعبہ ہولڈرز پر بھاری ہیں۔ ا ن کے تند و تیز چبھتے ہوئے جملے اور ٹویٹس میں خالص اور ٹھیٹھ پنجابی کلچر واضح نظر آتا ہے۔ جب وہ کہتی ہیں کہ ’’رائیونڈ کی راج کماری اور کنیزیں‘‘ تو لگتا ہے کہ وہ پنجابی میں کہنا چاہ رہی ہیں کہ ’’اِنِّی تو وڈی راج کماری‘‘۔ اور کبھی کبھار تو لگتاہے کہ اگر مریم نواز ان کے سامنے آ جائے توخالص دیسی عورتوں کی طرح انہوں نے مریم نواز کو لتاڑ دینا ہے اور پھر ہم بھی جانتے ہیں کہ ظاہری ڈیل ڈول سے کس کی جیت ہونی ہے۔

پیپلز پارٹی کے مشیر اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ ساتھ خاص اعتماد کے حامل ہیں اور مخالفین کو لتاڑ کر اپنا خوب دفاع کرتے ہیں۔ خیبر پختون خوا  اور بلوچستان والے بھی اپنا مدعا پیش کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ ہمارا میڈیا سندھ اور پنجاب کے مسائل اور یہاں کے نامور یا بے نام سیاست دانوں میں الجھا نظر آتا ہے اس لئے اُن دونوں صوبوں کو اتنی توجہ بھی حاصل نہیں رہتی۔ لیکن KPK کے شوکت یوسفزئی اپنی حکومت کا دفاع کرنا خوب جانتے ہیں۔ اور بلوچستان کے وزیر اطلاعات ظہور احمد بلیدی صاحب ہیں۔ نام بطور ریکارڈ درج ہے۔

آپ سوچ رہے ہیں کہ پنجاب کاذکرِ خیر نہیں ہوا تو آپ کو بتاتا چلوں کہ پنجاب کے ایک سال میں تیسرے وزیر موصوف نے وزارت اطلاعات کی گدی سنبھالی ہے۔ لیکن کمال تو فیاض الحسن  چوہان میں تھا۔ خدا جانےسیاسی مخالفین کے کرتوتوں کا بیان ان کی زبان کو کڑوا کر دیتا تھا یا ان کی اپنی زبان چھری تلے دم نہیں لیتی تھی۔ بہرحال انہوں نے اپنی لفظی گولا باری سے سیاسی حریفوں کو واقعی ناکوں چنے چبوائے تھے۔ وائے حسرت کہ متنازعہ بیانات کے سبب ان کونئے پاکستان کاسبق یاد نہ ہونے پر بھی چھٹی مل گئی۔ پھر صمصام بخاری ابھی کچھ بولے بھی نہ تھے کہ ان کو بھی ترقی مل گئی ۔ اب میاں اسلم اقبال کی ترجمانی دیکھتے ہیں کہ پنجاب حکومت کا دفاع کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے یا بقول غالب:
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مُدعا کیا ہے

رہی بات مریم اورنگزیب صاحبہ کی تو ان کے پاس اپنی پارٹی کی طرح ہمیشہ دلائل اور ثبوتوں کی کمی رہی ہے اور وہ اپنا مدعا پیش کرنے میں ناکافی نظر آتی ہیں۔ ہاں پریس کانفرنس کرنے کے لئے اجتماعی یلغار ان کی پارٹی کا خاص وطیرہ ہے۔ فی الحال مریم صفدر اور شہباز شریف کا ذکر رہنے دیتے ہیں ۔

بات شعبہ اطلاعات اور پریس کانفرنس کی ہو اور شیخ رشید احمد صاحب کا نام نہ آئے۔ہمارے وزیر ریلوے تو ہمیشہ سے میڈیا کے سورما رہے ہیں۔ ان کی باتیں واقعی کسی کے لئے کبھی بھی پرانی نہیں ہوتیں۔ وہ ہمیشہ پرانی باتوں کو نئے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کو مخالین کی چیخیں ہمیشہ سنائی دیتی رہتی ہیں اس وجہ سے وہ جھاڑو پھرنے سے متعلق بیان دینے اور نِرالی پیشگوئیاں کرنے سے باز نہیں آتے ۔ ان کے مقابل پر کوئی سیاست دان ٹی وی سکرین پر رنگ نہیں جما سکتا۔

فواد چوہدری صاحب کو وزیرِ اعظم صاحب نے تبدیل تو کر لیا لیکن وہ سکرین سے زیادہ دور نہیں رہے۔ جیسے رویت ہلال کمیٹی کے سرکردہ افراد رمضان، شوال ، عید الاضحیٰ اور محرم کے چاند کی رونمائی کے لئے نظر آتے تھے اسی طرح نئی وزارت ملنے کے بعد موصوف بھی رمضان بھر اپنے کیلنڈر کو لے کر میڈیا پر آتے رہے۔ اس دوران چاند گرہن نمٹایا اور اب عید الاضحیٰ کے چاند کا کیلنڈر لئے میڈیا کے چینلز پر نمودار ہوئے ہیں۔

چاند دیکھنے سے ننگی آنکھ کی اصطلاح شرعاً مشروط ہے ۔ ننگی آنکھ کے محاورہ سے دو لوگ ہی خوش ہوتے ہیں۔ ایک تو چاند کہ لوگ اسے ننگی آنکھ سے دیکھتےہیں(خواہ چاند کی کوئی قسم بھی ہو)۔ دوسرے ہمارے سیاست دان کہ لوگ ان کے کرتوت ننگی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نئے پاکستان میں ایسی ہی کوئی ٹیکنالوجی متعارف کروا دے کہ عوام کرپٹ افراد کو ننگی آنکھ سے دیکھ کر ان کے کرتوت جان سکیں۔ فواد صاحب کے لئے بقول شاعر:
بیانِ حُرمتِ صہبا صحیح مگر اے شیخ
تری زبان سے اُس کا مزہ نہیں جاتا

چلیے ننگی آنکھ توجملہ معترضہ تھا واپس پریس کانفرنس پر آتے ہیں۔ ایک اور عجیب قسم کی پریس کانفرنس بھی اختراع کی گئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے سپر سٹارز یا دیگر بڑی شخصیات کے عائلی معاملات کو میڈیا پر لا کر عوام کے سامنے پیش کرنا۔ یہ بڑا  قبیح  فعل ہے۔ ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ میاں بیوی کے معاملات چاردیواری سے باہر آنا ایسا ہی ہے کہ دونوں اپنے کپڑے اتار کر بازار میں گھومیں۔ تو ہمارا میڈیا بھی یہی کرکے ریٹنگ حاصل کرتا ہے لیکن یہ لوگ اس کو میڈیا کی تائید خیال کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں یہی کہنا ہے کہ زبان قوتِ گویائی کی علامت ہے۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں اور جتنا کچھ کہتے ہیں اُس کا ہمارے ذہن اور ہماری زندگی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ دوست و دشمن تو اپنی جگہ پر ہوتے ہیں لیکن تعلقات میں ہمواری اور ناہمواری میں بہت کچھ زبان کے استعمال کا  دخل ہوتا ہے کہ کون سا فِقرہ کہا جائے کس طرح کہا جائے اور کس موقع پر کہا جائے۔ ہم زبان کے استعمال اور اُس کے اچھے بُرے نتائج کی طرف توجہ نہیں دیتے اور ہمارے الفاظ یا تبصرے ہمارے ذہنی تجزیوں اور معاشرتی تجربوں کی آئینہ داری کرتے ہیں۔ ہم اُن سے بھی کوئی فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے۔عموماً لوگ زبان کے استعمال میں  پھُوہڑ یا منہ پھٹ ہوتے ہیں اور الفاظ کے چناؤ میں احتیاط نہیں برتتے جو منہ میں آ جاتا ہے کہہ جاتے ہیں۔یہی تکلیف کا باعث بن جاتا ہے اور دلوں میں گِرہ پڑ جاتی ہے یہ زبان کے صحیح اور غلط استعمال سے ہوتا ہے۔زبان کے استعمال میں لب و لہجے  کو بھی دخل ہوتا ہے اور شیریں بیان آدمی محفل میں باتیں کرتا ہوا زیادہ اچھا لگتا ہے اور اپنی میٹھی زبان کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے۔ خوش لہجے والا انسان خوش گفتارہوتا ہے۔ اللہ کرے کہ ہمارے معاشرے اورہمارے حکمرانوں کے دل میں یہ بات اتر جائے۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply