خیال: کیا ادب کا مسلک ہو سکتا ہے؟۔۔مبشر اکرم

پرسوں باوے سجاد علی شاہ سے اک مختصر ایکسچینج ہوا تو اس میں علی اکبر ناطق کی حالیہ کتاب، کماری والا، پر پاکستانی شعیت کی چھاپ کا حوالہ ابھر کر سامنے آیا۔ باوے سے عرض کیا کہ (ماخوذ) اک لکھاری کو اس کے مسلک کا حق حاصل ہے اور ادب کو مسلک کی گفتگو سے ماورا اور الگ رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ باوا اور میں اکثر اختلاف کر بھی جائیں تو بھی یہ مہذب ہی رہتا ہے، اور ایسا ہی رہے گا بھی۔ تعلق کے علاوہ اخلاق کا تقاضا  ہے کہ بات کہہ کر آگے بڑھ جایا جائے، اور نہ کہ بات کی چیونگم بنا لی جائے۔

کماری والا اب میرے پاس اپنے اختتام سے کوئی 100 صفحے اِس طرف ہے اور کل رات کو اس کتاب کو مکمل کر لوں گا۔

اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ کتاب، انسانی کہانی اور پاکستان میں معاشرتی ساخت کی اٹھان پر تبصرے  کے حوالے  سے شاندار ہے۔ کتاب میں جا بجا بہت دلچسپ، عمدہ اور تخلیقی فقرات بکھرے ہوئے ہیں جو جاری شدہ صورتحال کے عین مطابق ہیں، اور اسی طرح سے ہی قاری کو یا تو گدگدی کرتے ہیں، چٹکی کاٹتے ہیں، یا پھر اک پتھر کی طرح ضرب لگاتے ہیں۔ کتاب کے مرکزی کردار، ضامن علی، کا ارتقاء پُرلطف ہے اور بچپن سے لے کر اس کی جوانی تک کے ادوار کا بھرپور احاطہ کرتا ہے۔ ناطق نے اسلام آباد میں، ضامن علی کے مختلف ادوار کا بہت دلچسپ نقشہ کھینچا ہے، اور ایسا کہ میری اپنی کئی یادیں تازہ ہو گئیں۔

مجھے بھی جی نائن ٹو کے بلاک نمبر 56-بی کے فلیٹ نمبر 3 میں رانا ذوالفقار کے پاس اک کمرہ لے کر رہنا یاد آ گیا، اور وہاں، اور بعد از جی ٹین تھری میں فلیٹ میں بسیرا کرتے کلرکوں کی ذہنیت بھی یاد آ گئی۔ پیسے بچانے کو پیدل طویل فاصلے طے کرتے، ڈھابوں سے سستی روٹی کھاتے، اور شدید بیماری کے عالم میں خالی جیب، بغیر دوا دارو کے زندہ رہنے کی کوشش کرنے کے علاوہ، سپر مارکیٹ، کوہسار مارکیٹ، جی ایٹ، اور مارگلہ روڈ کے علاوہ، میریٹ سے وابستہ یادیں بھی دستک دیتی رہیں۔

کتاب کے دوسرے نصف میں، پاکستانی شیعت کا مقدمہ Peppered ملتا ہے، اور ضامن علی کا، اس کے پسندیدہ شخص، حکیم فطرس علی سے پاکستانی شیعت کی سیاسی، سماجی اور مذہبی ساخت پر اک عمدہ مکالمہ بھی موجود ہے، جو جنرل ضیا کے دنوں میں خمس کے مسئلہ پر ہونے والے بھرپور شیعہ احتجاج کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ کتاب میں موجود، پاکستانی تاریخ کا عین وہ وقت ہے جب شیعہ سنی فساد کی جڑ رکھی جاتی ہے، اور اس میں مغربی اور عربی ممالک، سعودی عرب اور قطر، کے کردار پر اک Floating Commentary پڑھنے کو ملتی ہے۔ ہاں مگر، وطن کی معاشرت کے گلتے ہوئے جسم میں ایران، ایرانی سفارت خانے اور ایرانی سفیر کا تذکرہ پڑھنے کو نہیں ملتا جو پاکستانی شیعت کے مظاہروں میں سفارتی رویوں کے عین خلاف شرکت کیا کرتے تھے، اور حکومت پاکستان کو دھمکیاں بھی دیا کرتے تھے۔ گو کہ شیعت کی پاکستانی پریکٹس پر ناطق اِدھر اُدھر مسلسل سوئیاں چبھوتے ملتے ہیں۔

بگاڑ کے سفر کی شروعات میں شیعہ اور سنی، دونوں طبقات کا حصہ بقدر  جثہ موجود تھا، اور عین اس وقت بھی موجود ہے، مگر ناول کے واقعات کے معاشرتی، سیاسی اور تاریخی بہاؤ میں، بگاڑ کا کمپَس عربی و امریکی کیمپ کی جانب ہی اشارہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔

میرے خیال میں ناطق کو اک تخلیق کار ہونے کے ناطے اس بات کا حق اور آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے فطری میلان و رجحان کے مطابق ادب تخلیق کریں، اور بطور اک شیعہ، انہیں یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستانی تاریخ کے سفر کو اک شیعہ پرسپیکٹِو سے دیکھیں اور بیان کریں۔ میں اپنی اوقات کے مطابق ان کے اس ذاتی اور ادبی تخلیق کے حق کا بھرپور دفاع کرونگا۔ اس لیے بھی کہ ذاتی مزاج کی دلیل کے علاوہ، دنیا میں ایسی بےشمار مثالیں مل جاتی ہیں کہ جہاں مذہبی، معاشرتی، سیاسی طبقات کی رنگا رنگی میں موجود لوگوں نے اپنے اپنے نظریات کے مطابق تخلیقات کی ہونگی۔

معاشرتی تنوع کے احترام کا تقاضا ہے کہ گروہی، یا حتی کہ مسلکی، Tilte کے باوجود بھی ادبئ تخلیق کو اس کا مقام دیا جائے، اور تخلیق کار کے اس تخلیقی حق کا احترام کیا جائے جس کے تحت وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق ادب تخلیق کرتا ہے۔

کماری والا کے اک “شیعہ ناول” ہونے پر تنقید نظر سے گزرتی رہتی ہے۔ میرے خیال میں ایسی تنقید کو ختم ہونا چاہیے اور اس کتاب کی ساخت، بُنَت، بہاؤ، مضبوطی، مقام، تکنیک، اسلوب، کرداری جڑَت، پلاٹ اور ناول کی صنف سے جڑے دوسرے ادبی، تجزیاتی اور تنقیدی معاملات پر گفتگو شروع کی جائے۔

یہ بھی اک احمقانہ روش ہو گی کہ کماری والا کو شیعہ ناول گردانتے ہوئے، اب کوئی لکھاری اپنے تئیں جواب دیتے ہوئے “سنی ناول” تحریر کر دے۔ ادب کا جواب الجواب نہیں ہوتا، اپنی طرز کی تخلیق ہوتی ہے۔ اگر کوئی سنی العقیدہ تخلیق کار، ردعمل کی نفسیات کے بغیر، خالص تخلیقی عمل کے تحت، جس پر مسلک کی چھاپ ہو سکتی ہے، اک ناول کی تخلیق کے عمل سے گزر کر اسے پڑھنے کے لیے پیش کرتا ہے تو اس کے تخلیقی حق کا احترام و دفاع بھی واجب ہے۔

ادب کو مذہبی مباحث کا غلام یا اس کے تحت نہیں کیا جا سکتا۔ ادب بگاڑ کا سبب نہیں بن سکتا؛ نہیں بننا چاہیے۔ مسلک کا ادب تو ممکن ہو سکتا ہے، مگر ادب کا کوئی مسلک نہیں ہوتا۔

مجھ میں ناطق کے “فرد” سے اختلاف اور ان کے عمومی گفتار پر حیرت کے ساتھ ساتھ، ناطق کی تخلیق کا احترام موجود ہے۔ ان کے انفرادی گفتار اور شخصیت کی اٹھان سے اتفاق نہ کرنا ہر کسی کا اک حق ہے، مگر ان کے تخلیق کردہ ادب کو مسلکی ادب کے طور پر دیکھنا درست نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کماری والا، چند Ignoreable جھول رکھنے کے باوجود، اپنی تخلیق کے پراسیس کی اس تکلیف کی گواہی دیتا ہے جس میں سے ناطق گزرے ہونگے۔ ضامن علی، بخت جہان تو نہیں، مگر اپنی ذات میں اک دلچسپ کرداری ارتقاء رکھتا ہے۔ ضامن علی میں ان لوگوں کو اپنی ذات کے ساتھ بہت سی مماثلتیں مل جائیں گی جو چالیس کے پیٹے میں ہیں، اور معاش کے ہاتھوں، اپنی اپنی جڑوں سے جدا ہو گئے۔ پاپولر ادب کا معجزہ ہوتا ہے کہ ایک کہانی میں، سینکڑوں ہزاروں لوگ اپنی اپنی کہانیاں تلاش کر لیتے ہیں۔
ناطق کا ارتقا جاری ہے۔ مستقبل میں بھی انہیں پڑھتے رہنے کا چس آئے گا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply