ذوالقرنین کون؟۔۔۔سالم رحیم/تیسری ،آخری قسط

تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرماں روا تھا جس کا عروج 549 ق م کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا (یشیائے کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد 539 ق م میں بابل کو بھی فتح کر لیا، جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صُغد ( موجودہ ترکستان ) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک ، اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہوگیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز ( کاکیشیا ) اور خوار زم تک پھیل گئی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔

قرآن میں اس کا تفصیلی واقعہ یوں آیا ہے کہ:

” اور یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ ( ٤٢ ) کہہ دو کہ : “میں ان کا کچھ حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں۔
واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ان کو زمین میں اقتدار بخشا تھا ، اور انہیں ہر کام کے وسائل عطا کیے تھے۔ جس کے نتیجے میں وہ ایک راستے کے پیچھے چل پڑے۔
یہاں تک کہ جب وہ سورج کے ڈوبنے کی جگہ پہنچے تو انہیں دکھائی دیا کہ وہ ایک دلدل جیسے (سیاہ) چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ ( ٤٣ ) اور وہاں انہیں ایک قوم ملی۔ ہم نے (ان سے ) کہا: اے ذوالقرنین! (تمہارے پاس دو راستے ہیں) یا تو ان لوگوں کو سزا دو ، یا پھر ان کے معاملے میں اچھا رویہ اختیار کرو۔ (٤٤)

انہوں نے کہا: ان میں سے جو کوئی ظلم کا راستہ اختیار کرے گا ، اسے تو ہم سزا دیں گے ، پھر اسے اپنے رب کے پاس پہنچا دیا جائے گا ، اور وہ اسے سخت عذاب دے گا۔
البتہ جو کوئی ایمان لائے گا ، اور نیک عمل کرے گا تو وہ بدلے کے طور پر اچھے انجام کا مستحق ہوگا ، اور ہم بھی اس کو اپنا حکم دیتے وقت آسانی کی بات کہیں گے۔ (٤٥)

اس کے بعد وہ ایک اور راستے کے پیچھے چل پڑے۔
یہاں تک کہ جب وہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جسے ہم نے اس ( کی دھوپ ) سے بچنے کے لیے کوئی اوٹ مہیا نہیں کی تھی۔ (٤٦)

واقعہ اسی طرح ہوا ، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ (سازوسامان) تھا ، ہمیں اس کی پوری پوری خبر تھی۔
اس کے بعد وہ ایک اور راستے کے پیچھے چل پڑے۔
یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے تو انہیں ان پہاڑوں سے پہلے کچھ لوگ ملے جن کے بارے میں ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی بات نہیں سمجھتے۔ (٤٧)

انہوں نے کہا: اے ذوالقرنین ! یاجوج اور ماجوج اس زمین میں فساد پھیلانے والے لوگ ہیں۔ تو کیا ہم آپ کو کچھ مال کی پیش کش کر سکتے ہیں ، جس کے بدلے آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی دیوار بنا دیں؟ (٤٨)

ذوالقرنین نے کہا: اللہ نے مجھے جو اقتدار عطا فرمایا ہے ، وہی (میرے لیے) بہتر ہے۔ لہٰذا تم لوگ (ہاتھ پاؤں کی) طاقت سے میری مدد کرو ، تو میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا۔

مجھے لوہے کی چادریں لا دو ، یہاں تک کہ جب انہوں نے (درمیانی خلا کو پاٹ کر) دونوں پہاڑی سروں کو ایک دوسرے سے ملا دیا تو کہا کہ: اب آگ دہکاؤ، (٤٩).

یہاں تک کہ جب اس (دیوار) کو لال انگارا کر دیا تو کہا کہ: پگھلا ہوا تانبا لاؤ ، اب میں اس پر انڈیلوں گا۔
چنانچہ (وہ دیوار ایسی بن گئی کہ) یاجوج ماجوج نہ اس پر چڑھنے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ اس میں کوئی سوراخ بنا سکتے تھے۔
ذوالقرنین نے کہا: یہ میرے رب کی رحمت ہے ( کہ اس نے ایسی دیوار بنانے کی توفیق دی) پھر میرے رب نے جس وقت کا وعدہ کیا ہے جب وہ وقت آئے گا تو وہ اس ( دیوار ) کو ڈھا کر زمین کے برابر کردے گا، (٥٠)
اور میرے رب کا وعدہ بالکل سچا ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ ذوالقرنین سالم کو سالم رکھے۔ آمین!

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply